الفریڈ 21 اکتوبر 1833ء کو سویڈن کے شہر سٹاک ہوم میں پیدا ہوا‘ اٹھارہ برس کی عمر میں امریکہ چلا گیا اور کیمسٹری میں مہارت حاصل کرنا شروع کی۔ اس کا استاد جان ایرکسن تھا جس نے پہلا جدید امریکی بحری جنگی جہاز ڈیزائن کیا تھا۔ وہ چار برس کیمسٹری پڑھتا رہا اور سویڈن واپس آ کر خود کو دھماکہ خیز مواد کی تحقیق کیلئے وقف کر دیا۔ روزانہ بیس بائیس گھنٹے وہ کتابوں اور تجربات میں الجھا رہتا۔ اس کی لیب میں انتہائی خطرناک کمپائونڈز اور آلات ہوتے ‘ وہ خطرناک ترین دھماکہ خیز مواد بنانے کا شوقین تھا اور یہ سب وہ موت سے صرف چند سنٹی میٹرز کے فاصلے پر کر رہا تھا۔ چند ہی برسوں میں اس نے خطرناک ترین ہتھیار بنا ڈالا‘ اس کا نام ''ڈائنا مائیٹ‘‘ رکھا گیا اور اس کے ساتھ ہی دنیا کے سینکڑوں کارخانوں میں بیک وقت ڈائنا مائیٹ کی تیاری شروع ہو گئی۔ اس نے کل تین سو پچپن ایجادات کیں لیکن ڈائنامائیٹ اس کی سب سے معروف ایجاد تھی۔ 1888ء تک اس کی پہچان موت کے سوداگر کی تھی لیکن پیرس کے ایک سفر نے اس کی زندگی بدل دی‘ وہ 1888ء میں تفریح کیلئے یہاں آیا ۔ ایک روز اخبارات کا مطالعہ کر رہا تھا تو دیکھا‘ اس کی موت کی خبریں چھپی ہوئی ہیں۔ یہ خبریں کسی غلط فہمی کی بنا پر شائع ہوئیں لیکن ان خبروں میں اسے بہت برے الفاظ میں یاد رکھا گیا تھا۔ یہ خبریں اسے احساس دلا رہی تھیں کہ وہ کتنا برا شخص ہے اور دنیا اسے مرنے کے بعد کن لفظوں میں یاد کر رہی ہے‘ اس نے اپنا امیج تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور تباہی کی مزید تخلیق سے توبہ کر لی‘ اسی وقت بارود اور جنگی مواد کے سارے کے سارے آرڈر کینسل کیے ‘ قلم اٹھایا اور وصیت لکھ ڈالی‘ اس نے لکھا: مرنے کے بعد اس کی ساری دولت ان ذہین لوگوں کے نام کر دی جائے جو دنیا میں امن کیلئے کام کریں گے اور دنیا کا جو بھی شخص فزکس‘ کیمسٹری‘طب‘ ادب میں غیرمعمولی کارکردگی دکھائے گا اسے ایوارڈ اور خطیر رقم دی جائے گی۔ یہ وہی شخص ہے جسے دنیا آج الفریڈ برنارڈ نوبل کے نام سے جانتی ہے اور جس کے نام کا نوبل ایوارڈ ہر سال اس شخص کو ملتا ہے جو فزکس‘ کیمسٹری‘ طب‘لٹریچر اور امن پر کام کرے اور نوبل پرائز دینے کا جو سلسلہ 1901ء سے شروع ہوا تھا آج تک جاری ہے اور ان ایک سو چودہ برس میں 826 لوگ اور 20 سے زائد تنظیمیں غیرمعمولی کاوشوں پر یہ پرائز حاصل کر چکی ہیں۔
میرا گزشتہ کالم ایک الیکٹریکل انجینئر کے بارے میں تھا۔ یہ نوجوان کرپٹ افسران کے نرغے میں تھا۔ یہ افسران اس سے کروڑوں روپے کا گھپلا کرانا چاہتے تھے اور اس کے بدلے اسے بہت بڑی رشوت آفر کر رہے تھے‘ انکار کی صورت میں دھمکیاں بھی دے رہے تھے۔ یہ نوجوان جسے کیرئیر شروع کئے ابھی چھ برس ہی ہوئے تھے‘ اس شش و پنج میں تھا کہ وہ ان کرپٹ افسران سے کیسے نمٹے۔ قومی ادارے کو نقصان سے بچائے یا پھر سمجھوتہ کر لے اور کرپشن کو مقدر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لے۔ سخت ترین ذہنی دبائو کی وجہ سے اس نے دفتر سے دو چھٹیاں لے لیں۔ واپس آیا تو معلوم ہوا کہ اس کے ڈائریکٹر نے اس کی غیرموجودگی میں اس کنٹریکٹ کی منظوری دے دی ہے‘ جس کے بعد بجلی کے محکمے کو کروڑوں کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔ تازہ ترین یہ ہے کہ اس ڈائریکٹر کی بیسویں گریڈ میں ترقی کی سفارش بھی کر دی گئی ہے کیونکہ اس نے جو کارنامہ سر انجام دیا ہے اس میں ظاہر ہے کئی لوگوں کا حصہ تھا اور انہی لوگوں نے اس کی سفارش کر دی۔انیسویں گریڈ کا یہ ڈائریکٹر کینیڈا کی شہریت بھی رکھتا ہے بلکہ اس نے اپنی ذاتی کمپنی بھی کھولی ہوئی ہے۔ صرف اسی افسر نے نہیں بلکہ واپڈا کے تقریباً ہر دوسرے افسر نے دو‘ دو کمپنیاں کھولی ہوئی ہیں اور دہری شہریت رکھتے ہیں۔ ایک عجیب سلسلہ چل نکلا ہے۔ سرکاری طور پر ٹینڈر جاری ہوتے ہیں اور اپنی ہی کمپنیوں کے لئے منظور کرا لیے جاتے ہیں اور یہ صرف واپڈا میں ہی نہیں تقریباً ہر سرکاری ادارے کا یہی حال ہے۔ سب کچھ کھلے عام ہو رہا ہے لیکن نیب کو دکھائی دیتا ہے نہ حکمرانوں کو۔ سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ لوگوں کو اپنی آخرت کیوں بھول چکی؟کیا ایسے لوگوں کو معلوم ہے کہ مرنے کے بعد انہیں کس نام سے یاد رکھا جائے گا؟ مجھے الفریڈ کی کہانی آج ایک مرتبہ پھر یاد آئی اور اس کی وجہ وہ نوجوان تھا جو کرپشن کی دلدل سے بچنے کی کوشش میں تھا۔قدرت نے الفریڈ نوبل کو توبہ کا ایک موقع دیا تھا اوراسی توبہ سے وہ امن کے سفر پر گامزن ہوا تھا اور دنیا میں آج جو بھی انسانیت کی خدمت کیلئے کام کرتا ہے اس کی سوچ کے کسی نہ کسی دریچے میں الفریڈ کی توبہ کی جھلک ضرور دکھائی دیتی ہے لیکن آج ہم لوگ توبہ سے کیوں دور ہو چکے؟ ہم مسلمان ہیں‘ ایک خدا‘ ایک رسولؐ اور ایک کتاب کو مانتے بھی ہیں اور ہم مرنے کے بعد جی اٹھنے اور خدا کے حضور پیش ہونے کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں لیکن سچ سچ بتلائیے کبھی ہم نے سوچا ہم جو کر رہے ہیں‘ جس طرح روزی کما رہے ہیں‘ ہم جس طرح دھوکہ‘ فریب اور لوٹ مار کر رہے ہیں‘ ہم جس طرح جھوٹ‘ غیبت اور چغلیاں کھا رہے ہیں‘ کل جب ہم مر جائیں گے تو دنیا ہمیں کس نام سے یاد کرے گی‘ آج ہم زندہ ہیں کوئی ہمارے سامنے کھڑا نہیں ہوتا لیکن کل جب ہم چھ ضرب دو فٹ کے گڑھے میں اتر جائیں گے‘ تو کیا لوگ یہ نہیں کہیں گے‘ بڑا راشی تھا‘ بڑا مکار تھا‘ فلاں کی جائیداد ہڑپ کر گیا‘ بڑا کرپٹ تھا‘ ٹیکس چور تھا‘ لوٹا تھا‘ پیسوں کیلئے ضمیر بیچتا تھا‘ بڑا ظالم تھا‘ زناکار تھا‘ شرابی تھا ‘ عصمتوں سے کھیلتا تھا‘ زمینوں پر قبضے کرتا تھا‘ غریبوں سے چھت چھینتا تھااور کیا لوگ یہ نہیں کہیں گے‘ معمولی ایس ڈی او تھا چار چار بنگلے بناگیا‘ معمولی پٹواری تھا سو سو ایکڑ ہڑپ کر گیا‘ معمولی دکاندار تھا ہیراپھیری کر کے تاجر بن گیا‘ معمولی سرکاری ملازم تھا‘ فارم ہائوسز کا مالک بن گیا‘ معمولی ڈاکٹر تھا غریبوں کو لوٹ کر ایمپائر کھڑی کر گیا‘معمولی سیاستدان تھا‘ ایک ایک نوکری کی پانچ پانچ لاکھ رشوت وصول کرتا رہا‘ معمولی آدمی تھا‘ کارخانوں کا مالک بن گیا اور شریف آدمی کا بیٹا تھا لیکن کرپٹ ترین انسان بن گیا اور لوگ ہمیں وہی کہیں گے جو ہم آخری وقت‘ آخری پل تک تھے اور جب حشر کا میدان لگا ہو گا‘اعمال نامہ آئے گا تو وہ جو ساری زندگی گناہ کرتے رہے اور جو توبہ کئے بغیر مر گئے‘ ان کیلئے اللہ نے دردناک عذاب تیار کر رکھے ہوں گے اور وہ جو گناہ گار بھی تھے‘ قاتل بھی تھے‘ زناکار اور خطاکار بھی تھے لیکن جب انہوں نے سچی توبہ کر لی تو اللہ نہ صرف انہیں بخش دے گا بلکہ ان کے گناہوں کو ان کی نیکیوں میں بھی بدل دے گا تو اس روز بہت سے لوگ پچھتائیں گے‘ کہیں گے‘ کاش ہم بھی احساس کر لیتے‘ کاش ہم بھی سیدھے رستے پر آ جاتے‘ کاش!