گزشتہ ماہ ترکی میں خفیہ ایجنسی کی اعلیٰ سطح کی میٹنگ ہوئی‘ یہ ملک کے سکیورٹی معاملات سے متعلق تھی جس میں بہت سے اہم فیصلے کئے گئے۔ معمول کے مطابق اس میٹنگ کی آڈیو ریکارڈنگ کی گئی لیکن ایک کام معمول سے ہٹ کے ہوا۔ یہ آڈیو ریکارڈنگ اس چار دیواری سے باہر آ گئی اور کسی ہیکر کے ہاتھ لگ گئی ۔اس ہیکر نے اسے یو ٹیوب پر اپ لوڈ کر دیا۔ یہ انتہائی حساس آڈیو ٹیپ تھی جو پوری دنیا کے اربوں لوگوں کی دسترس میں آگئی۔ ویڈیو یوٹیوب پر آنے کی دیر تھی کہ پورے ترکی میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ خفیہ راز افشا ہونے پر ترکی کی حکومت سے کچھ اور نہ بن پڑا تو اس نے یو ٹیوب بلاک کرنے کا حکم دے دیا اور یوں 27مارچ کو ترکی جیسے سیکولر اور آزاد ملک میں بھی یوٹیوب بند ہو گئی۔ ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ یہ ویڈیو حکومت نے خود اپ لوڈ کرائی تاکہ یوٹیوب کو بلاک کرنے کا ٹھوس بہانہ مل سکے۔سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال سے ترکی کی حکومت خطرہ محسوس کر رہی تھی‘ اسے ڈر تھا کہ یہ طوفان کہیں پورے نظام کو ہی اپنی لپیٹ میں نہ لے لے چنانچہ یہ قدم اٹھانا پڑا ۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ یوٹیوب 22فروری2008ء کو بلاک کی گئی، جو گستاخانہ مواد ہٹنے کے بعد 28فروری کو بحال کر دی گئی۔دوسری مرتبہ 20مئی 2010کو بلاک ہوئی۔ اس مرتبہ بھی یہ ایک ہفتے بعد بحال ہو گئی۔ تیسری مرتبہ اسے 17ستمبر2012ء کو بلاک کیا گیا۔ اس کی وجہ اسلام مخالف فلم
تھی ۔ چونکہ اسے ہٹایا نہیں گیا اس لیے یوٹیوب پر پابندی برقرار رکھی گئی جو تاحال برقرار ہے۔ جس فلم کی وجہ سے یو ٹیوب کو پاکستان میں بلاک کیا گیا‘ اسی کی وجہ سے یوٹیوب کو افغانستان میں بھی 12ستمبر2012ء کو بند کر دیا گیا لیکن تین ماہ بعد یکم دسمبر کو وہاں یہ پابندی ہٹا دی گئی۔بنگلہ دیش بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہا۔ مارچ 2009ء میں شیخ حسینہ واجد کی بنگالی فوج کے اعلیٰ افسران کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ کی ریکارڈنگ یوٹیوب پر آئی تو اسے بند کر دیا گیا۔ اگلی مرتبہ 17ستمبر2012ء کو اسلام مخالف فلم کی وجہ سے بنگلہ دیش میں بھی یوٹیوب بلاک ہو گئی لیکن آٹھ ماہ بعد بحال ہوگئی ۔ ایران نے بھی ستمبر 2012ء میں اسی فلم کی وجہ سے یوٹیوب کو بلاک کیا جو تاحال نہیں کھولی گئی۔اس وقت پاکستان اور ایران دو ایسے ممالک ہیں جہاں یوٹیوب اس فلم کی وجہ سے تاحال بند پڑی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اسلام مخالف مواد صرف یوٹیوب ہی نہیں بلکہ پورے انٹرنیٹ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں آڈیو‘ ویڈیو اور تحریری بلاگز بھی شامل ہیں۔ انٹرنیٹ پر ایسی ویب سائیٹس بھی شامل ہیں جو بہت زیادہ معروف نہیں۔ اسی طرح چیٹ رومز میں بھی اس قسم کے مباحث عام ہیں ،جن میں کھلے عام اہلِ مذاہب کی دل آزاری کی جاتی ہے
تاہم یہ تمام بلاگز‘ ویب سائیٹس اور چیٹ روم اس وقت پاکستان میں بند نہیں کئے گئے۔ یہ سب کی دسترس میں ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہر اس پلیٹ فارم کو بند کرنا ہے جہاں یہ خاکے پڑے ہوئے ہیں تو پھر پاکستان میں ہر قسم کی انٹرنیٹ ٹریفک بند کرنا پڑے گی۔ حتیٰ کہ ای میل سروس تک بلاک کرنا پڑے گی کیونکہ اجنبی لوگوں کی طرف سے ایسی ای میلز متواتر وصول ہوتی رہتی ہیں جن میں ناپسندیدگی کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ اس مفروضے کے تحت فیس بک اور ٹوئٹر وغیرہ تو لازماً بند کرنا پڑیں گی کیونکہ سوشل میڈیا پر دل آزاری کا جتنا زیادہ مواد موجود ہے اتنا کہیں اور موجود نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کون ہے جو اس مقصد کے لئے یوٹیوب یا انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے کہ وہ تلاش کر کے اسلام مخالف ویڈیو دیکھے۔ کسی کو کیاپڑی ہے کہ وہ ایسا مواد ڈھونڈتا پھرے۔ بالفرض اگر ایسی ویڈیو یا بلاگ سامنے آتا ہے تو یوٹیوب یا فیس بک کی طرف سے ایک آپشن موجود ہوتی ہے جس میں صارفین ناپسندیدہ مواد کے بارے میں ووٹ کر سکتے ہیں۔ ایک مخصوص تعداد کی ووٹنگ کے بعد ایسا مواد ہمیشہ کے لیے بلاک کر دیا جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھرایسا کیوں ہوتا ہے کہ پوری کی پوری سروس بلاک کر دی جاتی ہے جبکہ وہی مواد ہزاروں دیگر ویب سائیٹس پر بھی موجود ہوتا ہے۔
ہمیں ماننا پڑے گا کہ یو ٹیوب صرف ایک ویڈیو شیئرنگ ویب سائیٹ نہیں رہی بلکہ یہ ایک یونیورسٹی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ ایک طالب علم سے لے کر بزنس مین تک اور ایک ڈاکٹر سے لے کر انجینئر تک سبھی کے لیے یہ تعلیم کا مفت ذریعہ تھی۔ آپ کوئی ہنر سیکھنا چاہتے ہیں‘ آپ کو باغبانی کا شوق ہے‘ آپ کی کمر میں بل پڑ گیا ہے‘ آپ نیویارک میں مین ہیٹن کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں‘ بوئنگ 747کا کاک پٹ دیکھنا چاہتے ہیں‘ دل کا آپریشن دیکھنے کے خواہش مند ہیں‘ گھر کی انٹرئیر ڈیزائننگ کے بارے میں فکر مند ہیں‘ بیت اللہ میں کی گئی تلاوت دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں‘ غرض آپ کے دل میں کوئی بھی سوال ہے آپ یو ٹیوب میں لکھ کر اپنی تشنگی دور کر سکتے ہیں‘ آپ چند منٹوںمیں اتنا علم حاصل کر سکتے ہیں جتنا آپ برسوں میں حاصل نہیں کر سکتے ۔یہ سب آپ کو یو ٹیوب سے ہی مل سکتا ہے اور یو ٹیوب بند ہونے کے بعد آپ ان تمام سہولیات سے محروم ہو چکے ہیں تو ذراسوچئے اس میں کس کا نقصان اور کس کا فائدہ ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یوٹیوب پر پابندی جان بوجھ کر برقرار رکھی جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے اور کون اس سے پابندی ہٹانے کے خلاف ہے۔
گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں یوٹیوب پر پابندی برقرار رکھنے کی قرارداد پاس ہوئی تو کسی نے یہ نہ سوچا کہ اس کا نقصان کیا ہو گا اور ہم کب تک بائیکاٹ کی پالیسی اپناتے رہیں گے۔ کیا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں پابندیاں لگا کر گزارہ ہو سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایسا مواد جس سے کسی بھی مذہب والوں کی دل آزاری ہوتی ہو‘ اسے انٹرنیٹ پر نہیں آنا چاہیے لیکن کیا یہ درست نہیں کہ ہماری انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت اور اس کی وزیرانوشہ رحمن اس سلسلے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری وزارت یوٹیوب کے ساتھ بیٹھتی‘ ان سے ڈائیلاگ کرتی اور اپنی شرائط منواتی، لیکن یہ اس محاذ پر بھی ناکام رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران ان ویڈیوز اور پروگراموں سے خوفزدہ ہیں جو حکومت کے کسی بھی طرح خلاف جاتے ہیں‘ وہ نہیں چاہتے کہ عوام بار بار انہیں دیکھیں اور ان میں حکومت کے بارے میں غم و غصہ بڑھے اور شاید یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے یوٹیوب کو بند رکھا جا رہا ہے۔ ہمارے حکمران خود کو تو بہتر نہیں کر سکتے لیکن جو انگلی اُن کی طرف اٹھتی ہے‘ اسے کاٹنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔کمال کے حکمران ہیں ہمارے ۔