ایک مرتبہ شیر شاہ سوری کے سامنے ایک قتل کا مقدمہ لایا گیا۔ شیر شاہ سوری نے مقدمہ سنا اور دربار میں موجود ایک شخص سے کہا کہ وہ دو آدمی بھیج کر موقع واردات کے آس پاس کسی درخت کو کٹوائے اور اس علاقے کے جو سرکاری عامل اس درخت کے کاٹنے کی اطلاع پاکر موقع پر آئیں‘ انہیں پکڑ کر ہمارے حوالے کر دیں۔ دو آدمی موقع پر پہنچ کر درخت کاٹ ہی رہے تھے کہ اس علاقے کے ذمہ داران نے انہیں آن پکڑا اور لے کرشیر شاہ سوری کے سامنے حاضر ہو گئے۔ شیر شاہ سوری نے ذمہ داران سے کہا کہ تمہیں درخت کٹنے کی تو خبر ہو گئی لیکن ایک انسان کی گردن کٹ گئی اور تم بے خبر رہے۔ قاتل پیش کرو ورنہ سزا میں تم قتل کر دئیے جائو گے۔ وہ لوگ فوراً گائوں لوٹے اور تین دن کے اندر اندر قاتل پیش کر دیا۔
یہ واقعہ مجھے گزشتہ روز وزیرمملکت چودھری عابد شیر علی کے ایک بیان کے بعد یاد آیا۔عابد شیرعلی وزیراعظم نواز شریف کے قریبی عزیز ہیں۔وہ گزشہ برس فیصل آباد کے حلقہ سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ انتخابات کے دو ماہ بعد جولائی میںانہیں وفاقی کابینہ میں شامل کر لیا گیا۔انہوں نے وزارت بجلی و پانی کا قلمدان پسند فرمایا۔ وہ جب سے اس عہدے پر متمکن ہوئے ہیں‘خیبر پختونخو ا ان کا خصوصی ہدف رہا ہے۔ میں نے ہمیشہ عابد شیر علی کو حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرتے اور اس کے لیے آخری حد تک جاتے دیکھا ہے۔ٹی وی ٹاک شوز میںان کا
جارحانہ انداز دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھے مہمانوں کو اپنے دفاع کے لیے کم از کم ہیلمٹ ضرور پہن کر آنا چاہیے۔ ایک سال میں وہ بجلی کی پیداوار ‘ لائن لاسز اور بجلی چوری کے حوالے سے کیا کارکردگی دکھا سکے ہیں‘ وہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ کی صورت میں سب کے سامنے ہے لیکن گزشتہ روز انہوں نے جو بیان دیا ،واقعی حیران کن تھا۔ اُن کا کہنا تھا جس علاقے سے بجلی چوری ہو گی ‘ اس علاقے کے ایکسیئن کے خلاف پرچہ درج ہو گا۔ اس بیان سے قبل عابد شیر علی اور شیر شاہ سوری کے ناموں میں شیر کا لفظ مشترک تھا‘ لیکن اس اعلان کے بعد لگتا ہے کہ چودھری صاحب واقعی شیر شاہ سوری کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ جو فرما رہے ہیں ‘اس پر عمل بھی ہو گا یا نہیں۔ غالباً انہوں نے یہ سٹائل وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے مستعار لیا ہے۔ وزیراعلیٰ بھی اس قسم کے اعلانات فرماتے رہتے ہیں کہ کسی علاقے میں کوئی جرم سرزد ہوا تو ذمہ دار علاقے کا ایس ایچ او ہو گا۔ یہ اور بات ہے کہ زیادتیاں اور دیگر جرائم رونما بھی ہوتے ہیں اور وزیراعلیٰ نوٹس بھی لیتے ہیں لیکن بات پولیس افسران کی چند روزہ باتنخواہ معطلی یا ٹرانسفر سے آگے نہیں بڑھتی۔ عابد شیر علی کا یہ بیان
اس وقت آیا ہے جب گرمی اور لوڈشیڈنگ میں مقابلہ ہے کہ کون عوام پر زیادہ قہر ڈھاتا ہے۔ لوگ گرمی سے پریشان ہیں‘ اوپر سے گزشتہ سال کی نسبت بجلی کے کئی گنا زیادہ بل وصول ہو رہے ہیں۔اس ملک میں بجلی کس طرح چوری ہوتی ہے‘ کون کون اس میں ملوث ہوتا ہے اور اوپر سے نیچے منتھلیاں کیسے لگائی جاتی ہیں ‘ اس سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے ۔ میٹر ریڈر سے معاملہ طے کرلیں‘اس کے بعد آپ کے گھر دو اے سی مسلسل چلتے رہیں گے لیکن بل دو ہزار روپے سے اوپر نہیں آئے گا۔ یہ تو عام لوگوں کی بات ہے ،آپ فیکٹریوں اور کارخانوں میں چلے جائیں‘ حکمرانوں کے اپنے کارخانے چار چار کروڑ کے ڈیفالٹر رہے ہیں‘ ایک سابق وفاقی وزیر کی فیکٹری کا بل کروڑوں میں آیا لیکن ان کی اگلے دو سو برس تک کے لیے ماہانہ تین ہزار روپے کی قسطیں کر دی گئیں جبکہ ایک عام آدمی دو ماہ کا بل ادا نہ کر سکے تو میٹر اتار لیا جاتا ہے۔ یہ کوئی خفیہ حقائق نہیں اور نہ ہی عابد شیر علی سے اوجھل ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ اگر وزیرمملکت سب سے پہلے اپنے محکمے کے احتساب سے اس عمل کا آغاز کرتے تو انہیں عوامی پذیرائی بھی ملتی اور لوگ انہیں سنجیدگی سے بھی لیتے۔ میرا واپڈ کے محکمے میں زیادہ آنا جانا نہیں لیکن میرے پاس واپڈا کے گریڈ بیس کے کئی افسران کی کرپشن کے ثبوت ہیں اور وہ بھی مکمل دستاویزات کے ساتھ ۔یہ افسر گرڈ سٹیشن کے لیے گھٹیا درجے کی مشینری زیادہ پیسوں میں خرید کر ادارے کو چونا لگاتے ہیں اور اس کے عوض بھاری کمیشن وصول کرتے ہیں۔وزیرمملکت کے اعلان کے بعد اس کے سوا کچھ نہیں ہو گا کہ ایکسیئن سمیت نچلا سٹاف عارضی طور پر بجلی چوری بند کروا دے گا‘ جس کے بعد حکومت ڈیٹا جاری کر دے گی کہ دیکھیں ہم نے کتنی بجلی چوری روک لی ہے۔ لیکن جن کے منہ رشوت کا مزاچکھ لیں‘ وہ باز نہیں آ سکتے‘ ان کا لالچ کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ اگر واپڈا کے کرپٹ افسران کو ہی لگام ڈال دی جائے تب بھی حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ اگر وزیر موصوف فوری طور پر واپڈا میں ایک احتسابی کمیٹی قائم کریں جو واپڈا افسران اور اہلکاروں کے حوالے سے کرپشن کی شکایات نوٹ کرے‘ان پر ایکشن بھی لیا جائے اور اس سارے عمل کو ویب سائٹ پر ڈالا جائے تاکہ عوام بھی دیکھ سکیں کہ ان کے حق حلال کے پیسوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے تو یہ ایک اہم قدم ہو گا۔ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ وہ فوری طور پر سب انجینئر‘ ایکسیئن اور ایس ڈی او سے لے کر لائن مین تک سب کے ماضی کے بیس برس کے اثاثہ جات کی تفصیل نکلوالیں اور ان لوگوں کو نوکری سے فارغ کریں جو کینیڈا اور برطانیہ کی نیشنیلٹی سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں‘ پاکستان کے اندر اور باہر اپنی نجی کمپنیاں بھی چلا رہے ہیں اور واپڈ میں بھی گل چھڑے اڑا رہے ہیں اور اگر وزیرمملکت یہ سب نہیں کر سکتے تو پھر سمجھ لیں‘ اس قسم کے اعلانات سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
شیر شاہ سوری کا انداز اپنا نا آسان ہے لیکن ان کی طرح حکومت کرنا ہمارے حکمرانوں کے بس میں نہیں۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمارے ایم این ایز‘ ایم پی ایز ‘ایس ایچ اوز اورایکسیئنز‘ کو اس بات کا پابندکر دیا جائے کہ اگر ان کے علاقے میں کسی نے بھوک یا بیروزگاری سے تنگ آ کر خودکشی کی‘ اگر اس کے علاقے میں کسی گھر میں کوئی نابینا‘ کوئی معذور شخص موجود ہوا اور اس کی دیکھ بھال نہ کی گئی‘ اگر کہیں کسی کی عزت لٹی اور کہیں کوئی بجلی چوری کرتا پایا گیا تو اس کا ذمہ دار علاقے کا ایم این اے‘ ایم پی اے ‘ ایس ایچ او اور ایکسیئن ہو گا ۔اور اگر کبھی اس ملک میں ایسا ہوگیا تو یہ اس تبدیلی کا آغاز ہو گا جس کی آس آپ کو ہر پاکستانی کی بجھتی ہوئی آنکھوں میں دکھائی دے گی!