حکومت نے اپنے گیارہ ماہ کے سفر کی جو جھلکیاں دکھائی ہیں‘ ان میں عام لوگوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ویسے ہی دعوے ہیں جیسے سابق صدر زرداری کے دور میں کئے گئے۔ جو پہلا کریڈٹ لینے کی کوشش کی گئی ہے وہ 480ارب روپے کے گردشی قرضوں کا خاتمہ ہے۔ یہ کام حکومت سنبھالتے ہی مکمل کر لیاگیا۔ امید کی جا رہی تھی کہ اس سے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہو گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ اندھیرے بدستور موجود رہے جبکہ گردشی قرضہ ایک مرتبہ پھر 270ارب سے تجاوز کر گیا ہے۔ حکومت کا دوسرا دعویٰ نیشنل گرڈ میں 17سو میگا واٹ بجلی کے اضافے کا ہے۔اگر یہ دعویٰ درست ہے تو پھر آپ صرف 20اپریل سے آٹھ مئی کا ریکارڈ دیکھ لیجئے۔ اس دوران معمول کے مطابق لوڈشیڈنگ ہوئی۔ ہر ایک گھنٹہ بعد ایک گھنٹے کے لیے بجلی جاتی رہی جبکہ کئی جگہوں پر دو گھنٹوں بعد ایک گھنٹہ بجلی آئی اور جیسے ہی عمران خان‘ طاہر القادری اور سراج الحق نے 11مئی کو احتجاجی جلسوں کا اعلان کیا ‘ وزیراعظم سامنے آئے اور لوڈشیڈنگ سات آٹھ گھنٹے روزانہ تک محدود کرنے کی ہدایت کر دی۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ حکم باقی دنوں کے لیے صادر نہیں کیا جا سکتا تھا اور اگر ملک میں بجلی ہے ہی نہیں تو وزیراعظم کے اعلان کے بعد کہاں سے آ گئی؟ حکومت کے مطابق اس نے تقریباً25ہزار میگا واٹ بجلی کے 19منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔ درحقیقت ان میں سے بیشتر منصوبے پیپلزپارٹی کے دور میں شروع کئے گئے اور کئی تو اس سے بھی پرانے ہیں کیونکہ موجودہ
حکومت نے تو صرف چار ہزار میگا واٹ کے منصوبے شروع کئے ہیں ۔ حکومت نے 425میگا واٹ کے نندی پور پاور پراجیکٹ کی آٹھ ماہ میں تکمیل کا دعویٰ کیا ہے۔ حکومت کے اپنے ارکان کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل میں تاخیر سے 113ارب روپے کا نقصان ہوا ہے‘ اس لحاظ سے یہ منصوبہ کس طرح نفع بخش ہو گیا؟ایک اور منصوبہ قائد اعظم سولر پارک چولستان کا ہے جس کے پہلے مرحلے میں ایک سو میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی جو اس سال دسمبر میں نیشنل گرڈ میں شامل ہو گی اور اس پر 15ارب روپے خرچ آئے گا۔ یہ منصوبہ حکومت کو اس وقت شروع کرناچاہیے تھا جب ملکی سطح پر شمسی پینل بنانے کے کارخانے کام کرنا شروع کر دیتے۔ اس سے کئی فائدے ہوتے۔ ملکی سطح پر ہزاروں لوگوں کو روزگار میسر آتا‘ سستے سولر پینل بنا ئے جاتے اور انہیں برآمد کر کے زرمبادلہ کمایا جاتا۔فی الوقت یہ منصوبہ چینی کمپنی ٹی بی ای اے مکمل کرے گی جو ظاہر ہے کئی گنا مہنگا پڑے گا۔ سب سے مضحکہ خیز دعویٰ حکومتی سطح پر کرپشن کے خاتمے کا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ وہ والا نیا پاکستان بن چکا ہے جس کا خواب 11مئی کو عمران خان عوام کو دکھا رہے تھے۔ یقینا حکومت کے اس اعلان کے بعد سرکاری اداروں میں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو گئی ہوں گی۔ کامیابیوں کی فہرست میں لکھا ہے ''آئی ٹی انقلاب کے ذریعے باعزت روزگار
کے لاکھوں مواقع‘‘۔ یہ جملہ نامکمل ہے۔ اس کے ساتھ یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ مواقع کب‘ کسے اور کیسے میسر ہوں گے؟ غالباً آئی ٹی کے جس انقلاب کی بات حکومت کر رہی ہے وہ آج سے بار ہ تیرہ برس قبل آیا تھا۔ موجودہ حکومت نے سوائے تھری جی فور جی کی نیلامی کے کون سا تیر چلایاہے۔محض کسی سروس کے اجرا سے انقلاب نہیں آیا کرتے بلکہ حکومتیں پالیسی سازی کے ذریعے ایک رخ بھی متعین کیا کرتی ہیں۔ ہمارے نوجوانوں نے تیز ترین موبائل انٹرنیٹ کا کیا استعمال کرنا ہے‘ یہ بتانے کی ضرور ت نہیں۔ بھارت میں یہ سروسز شروع ہوئیں تو بھارتی حکومت کی توجہ سے اس کی سافٹ وئیر کی صنعت کو بُوم ملا۔ آج اینڈرائڈ اور ایپل فونز میں بنائی گئی ایپلی کیشنز میں سے ساٹھ فیصد بھارت میں بن رہی ہیں۔ لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ حکومت ڈالر کی قیمت میں کمی تو لے آئی لیکن اس کا اثر معیشت پر کیوں نہ پڑا‘ پٹرولیم کی قیمتیں نیچے کیوں نہ آئیں‘ کرائے کیوں کم نہ ہوئے‘ لوگوں کی قوت خرید کیوں نہ بڑھی؟ یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو جی ایس پی پلس سٹیٹس ملنا اچھی خبر تھی لیکن ایسے درجنوں سٹیٹس مل جائیں،جب تک یہاں کارخانوں کو بجلی‘ گیس ہی نہ ملے گی‘ دہشت گردی یونہی جاری رہے گی تو کم قیمت مصنوعات کیسے بنیں گی اور کوئی بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور بھارت کے مقابلے میں ہم سے مہنگی چیزیں کیوں خریدے گا؟ حیرانی تو یورپی یونین پر ہے کہ انہوں نے کیا دیکھ کر یہ فیصلہ کیا ؟ نوجوانوں کے لئے قرضوں کے اجراکا حال سب نے دیکھ ہی لیا ہے۔ ابھی تک مجھے تو کوئی ایسا خوش نصیب نہیں ملا جسے بزنس یوتھ لون ملا ہو اور وہ کامیابی سے کاروبار بھی کر رہا ہو۔ لیپ ٹاپ البتہ بانٹے جا رہے ہیں لیکن عوام کے ٹیکسوں سے ۔ یہ کون سا احسان ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا ئے۔
میں گزشتہ روز شادمان چوک سے گزر رہا تھا تو وہاں لوگوں کا جمگھٹا دیکھا۔ ٹریفک پولیس کی دو گاڑیاں بھی نظر آئیں۔ جیپ میں اعلیٰ ٹریفک افسران بیٹھے تھے جبکہ پچھلی لوڈر گاڑی میں کچھ لوگوں کو گرفتار کر کے پھینکا جا رہا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر دیکھا۔ تین چار مزدور قسم کے لوگوں کی گھونسوں‘ ٹھڈوں اور مکوں سے تواضع کی جا رہی تھی۔ ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور وہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہے تھے۔ایک گرفتار شخص باہر آنے کی کوشش کر رہا تھا‘ وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اس کا سامان فٹ پاتھ پر رہ گیا ہے ۔ دراصل یہ گاڑیوں کے جالی والے شیڈ تھے جو وہ چوکوں پر بیچتا تھا۔ آج ٹریفک پولیس نے چوکوں پر اشیا فروخت کرنے والوں پر ہلہ بولا تھا تاکہ ٹریفک کی روانی بہتر کی جا سکے۔ یہ یقینا درست قدم ہے۔ سڑکوں پر اشیا فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے لیکن کیا ایسی کارروائی ان مگرمچھوں کے خلاف نہیں ہونی چاہیے جن کا تعلق حکومت ‘ اپوزیشن‘ بیوروکریسی اور اشرافیہ سے ہے ‘جو ٹیکس دیتے ہیں نہ عوام کو ان کا حق لوٹاتے ہیں‘ جو ہر ناجائز طریقے سے اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں ‘اربوں روپے لوٹ کر باہر کے بینکوں میں بھجوا دیتے ہیں ‘سکولوں میں مویشی باندھتے اور قبرستانوں کے لیے مختص جگہ پر پلازے کھڑے کرلیتے ہیں، اس کے باوجود عزت دار بھی یہی لوگ کہلاتے ہیں۔ اگر سڑکوں پر مزدوری کرنے والے مجرم ہیں اور انہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح مسلا جا سکتا ہے تو انصاف تو یہ ہے کہ پھر یہی سلوک بڑے بڑے سرمایہ دار وں اور لٹیروں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے جو نیب کی پلی بارگین حاصل کر لیتے ہیں یا حکومتی جماعت میں شامل ہو کر خود کو محفوظ کر لیتے ہیں‘اگر حکومت ان لوگوں کو لگام نہیں ڈال سکتی جو ملک کا بیڑہ غرق کرنے کے ذمہ دار ہیں‘ اگر یہ کرپشن ختم نہیں کر سکتی تو پھر اسے یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ سخت گرمی میں رومال یا کھلونے بیچنے والوں کو اٹھا کر گاڑی میں پھینکے‘ انہیںبے عزت کرتی رہے اور خالی جھلکیوں پر ٹرخاتی رہے۔