ہم بھی عجیب قوم ہیں ‘ ہمیں اسرائیل کا ظلم تو دکھائی دے رہا ہے لیکن اپنے وطن میںوہ مظالم دکھائی نہیں دیتے جو اس ملک کے عوام کئی دہائیوں سے سہہ رہے ہیں۔ یہاں بھی بے گناہ لوگ روزانہ قتل کئے جارہے ہیں‘ لوگوں کو بیس بیس برس تک انصاف نہیں ملتا‘ بیروزگاری‘ مہنگائی اور ناانصافی سے تنگ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں لیکن ان لوگوں کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھتی‘ کوئی تحریک نہیں چلتی۔ جس شخص کے دائرہ اختیار میں جو کچھ ہے‘ وہ اس سے بے نیاز ہو کر اٹھتا ہے اور گلا پھاڑ کر اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرنے لگتا ہے۔ وہ اپنے ہمسائے کا حق مارتا ہے‘ اپنے ملازم کا استحصال کرتا ہے‘ سائل کو بوٹ کی ٹھوکر پر رکھتا ہے‘ یتیم سے اس کا حق چھینتا ہے‘ کرائے کے قاتلوں سے مخالفین کو مرواتا ہے‘ دوسروں کے بچے یتیم کرتا ہے لیکن یہی شخص اسرائیل کو گالیاں بھی دیتا ہے‘ اسے برا بھلا بھی کہتا ہے اور یوں اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسے اپنے اندر چھپا اسرائیل دکھائی نہیں دیتا۔ میں زیادہ دور نہیں جاتا ‘ گزشتہ چند دنوں کی مثالیں رکھتا ہوں‘ آپ مجھے بتائیے ان کا قصور وار کون تھا؟ چند روز قبل گوجرانوالہ میں ایک زمیندار نے دس سالہ بچے کے بازو اس لئے کٹوا دئیے کہ وہ اس کے ڈیرے میں تاخیر سے پہنچا تھا‘ سوال یہ ہے کیا یہ بچہ فلسطینی تھا اور اس کے بازو کٹوانے والا اسرائیلی تھا؟ فیس بک اس لئے ایجاد ہوئی کہ ہم ایک دوسرے سے رابطے میں رہ سکیں اور معلومات شیئر کر سکیں۔ چند روز قبل گوجرانوالہ میں کسی نے اشتعال انگیز مواد فیس بک پر اپ لوڈ کر دیا
جس پر چھ افراد قتل ہو گئے جن میںدو بچے بھی شامل تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اسرائیل نے کہا ہے کہ ہم فیس بک کا یہ استعمال کریں؟ عید کے آخری روز گجرات میں ایک شخص کے ہاں دوسری بیٹی پیدا ہوئی۔ وہ بیٹے کا خواہشمند تھا چنانچہ اس نے بیوی پر پٹرول چھڑکا اور آگ لگا دی‘ کیا شوہر کو ایسا کرنے کا حکم اسرائیل نے دیا تھا؟ گزشتہ روز پاک پتن میں پانچ افراد نے ایک نرس کو اغوا کرنے کی کوشش کی، اسے سڑک پر گھسیٹا اور اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے لیکن پولیس کسی کو گرفتار نہ کر سکی‘ کیا اس بدمعاشی کا حکم اسرائیل سے آیا تھا اور اگر یہ واقعہ ہو ہی گیا تھا تو کیا پولیس کو پرچہ درج کرنے سے اسرائیل نے روکا تھا؟ عید کے تیسرے روز پولیس نے نہر پر نہانے والوں پر تشدد کیا اور نہر کنارے کھڑی ایک پانچ سالہ بچی کا بازو توڑ دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پانچ سال کی بچی نہر میں نہا سکتی ہے اور کیا پنجاب پولیس اسرائیلی قوانین کے تحت کام کرتی ہے؟ سانحہ منہاج القرآن میں پولیس نے دو خواتین سمیت چودہ افراد کو منہ پر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا ‘ کیا ماڈل ٹائون فلسطین میں واقع ہے ‘ کیاگولیاں چلانے اور ان کا حکم دینے والے اسرائیلی تھے؟ لاہور پولیس نے گزشتہ روز ایک ایسے شخص کے خلاف مقدمہ درج کیا جواٹھارہ سال قبل قبر میں پہنچ چکا تھا ‘ اس سے قبل دس ماہ کے ایک بچے کے خلاف
بھی پرچہ درج ہوا اور اس کا باپ اسے لے کر دو مرتبہ عدالت میں پیشیاں بھگتتا رہا ‘ کیا پولیس نے یہ پرچے اسرائیلی قوانین کے تحت درج کئے تھے ؟‘ کیا اس ملک کے باقی ادارے اور شعبے اسرائیلی حکومت چلا رہی ہے؟۔ کیا اس ملک کے سیاستدانوں کو اسرائیلی عوام ووٹ دیتے ہیں جو وہ اقتدار میں آ کر عوام کو ذلیل و خوار کرتے ہیں۔ یہ حکمران اقتدار میں آتے ہیں ‘عوام سے ٹیکس لیتے ہیں اور ان ٹیکسوں سے واپڈا ‘ پولیس اور واسا جیسے محکمے چلتے ہیں۔ واپڈا ان پیسوں سے ناقص ٹرانسفارمر خریدتا ہے اور یہ ٹرانسفارمر طارق عبداللہ جیسے صحافیوں کے سروں پر پھٹتے ہیں اور ان کی جانیں لیتے ہیں‘ پولیس عوام کے ٹیکسوں سے گولیاں خریدتی ہے اور ماڈل ٹائون میں جا کر
نہتے لوگوں پر برسا دیتی ہے ‘واسا بھی عوام کے پیسوں سے موجیں اڑاتا ہے اور بدلے میں عوام کو گندا پانی بھیج کر ہیپاٹائٹس اور گیسٹرو کا مریض بنا دیتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا واپڈا‘ پولیس اور واسا اسرائیلی حکومت کے زیر انتظام چل رہے ہیں‘ کیا انہیں اسرائیلی حکومت نے کہا ہے کہ وہ پاکستانی عوام کو بھنبھوڑیں‘ ان کی کھالیں نوچیں اور ان کے چیتھڑے اڑائیں اور صرف حکومت ہی نہیں اس ملک کے عام لوگوں کا چلن بھی مختلف نہیں۔ جب ہم سرخ اشارہ کاٹتے ہیں‘ جب ہم سڑکوں پر تھوکتے ہیں‘ گاڑیوں سے ٹشو ‘ چپس کے خالی پیکٹ اور پلاسٹک کی بوتلیں باہر پھینکتے ہیں‘ جب ہم گاڑی غلط پارک کرتے ہیں‘ جب مسجد سے باہر نکلتے ہی ہم مکمل طور پر بدل جاتے ہیں‘ جب رمضان کے جاتے ہی ہم مسجد جانا چھوڑ دیتے ہیں‘ جب ہم دفتروں میں کام چوری کرتے ہیں‘ اپنے بچوں کو نقل کروا کر پاس کرواتے ہیں‘ نقص بتائے بغیر چیزیں فروخت کرتے ہیں اور جب ہم یہ سب کرتے ہیں تو کیا ہمارا چلن اسرائیلی نہیں ہوتا‘ کیا ہم اپنی اور دوسروں کی جانوں پر ظلم نہیں کر رہے ہوتے‘ کیا دین اور اخلاقیات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اسرائیل روکتا ہے اور آخر کب تک ہم اپنی آنکھ کا شہتیر نظر انداز کرتے رہیں گے۔
رمضان المبارک کے آخری جمعہ مساجد میں بہت رش تھا۔ ایک مسجد کے خطیب اسرائیل کے مظالم کے خلاف بڑھ چڑھ کر تقریر کر رہے تھے۔ آخر میں انہوں نے اپنے فلاحی ٹرسٹ کے لئے چندہ مانگنا شروع کر دیا۔ نماز ختم ہوئی تو ایک معذور شخص کھڑا ہوکر اپنا مسئلہ بیان کرنے لگا۔ آوازیں آئیں۔بیٹھ جائو لوگ سنتیں پڑھ رہے ہیں۔ میں باہر نکلا۔دروازے پر درجنوں سائل مسجد سے نکلنے والے نمازیوں سے امداد مانگ رہے تھے۔ میں آگے آیا۔دیکھا۔وہی شخص جس نے مسجد میں اپنا مسئلہ بیان کرنے کی کوشش کی تھی‘ وہ ایک طرف خاموش بیٹھا تھا۔ میں نے پوچھا ۔۔مسجد میں فلاحی ٹرسٹ قائم ہے ۔ اسی کے لئے خطیب نمازیوں سے چندہ مانگ رہے تھے ۔تم اس ٹرسٹ سے امداد کیوں نہیں لیتے۔ وہ ہمیں کیوں دیں گے۔یہ کہہ کر وہ چل دیا۔ میں حیران ہوا ۔۔مسجد کے خطیب بھی لوگوں سے مانگ رہے ہیں اور مسجد کے اندر اور باہر سائل بھی عوام سے مانگ رہے ہیں۔۔اگر یہ فلاحی ٹرسٹ عوام کے لئے ہے تو پھر نمازیوں سے لیا گیا پیسہ کہاں جاتا ہے۔ یہ سائلوں کو کیوں نہیں ملتا ۔۔میرے ذہن میں آیا۔۔کیا یہ بھی اسرائیل کی سازش ہے؟
میں نے نظریں اٹھائیں۔۔مجھے دیوار پر 14اگست کو تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے متعلق پوسٹر دکھائی دیا۔ میرے ذہن میں آیا۔یہ الیکشن پاکستان میں ہوئے‘ الیکشن کمیشن بھی پاکستان کا تھا‘پاکستان میں حکومت بھی مسلم لیگ نون کی ہے اور نون لیگ اسرائیل کی نہیں پاکستان کی جماعت ہے تو پھر تحریک انصاف کا مطالبہ کیوں نہ مانا گیا۔ کیا چار حلقوں میں دوبارہ گنتی سے بھی اسرائیل نے روکا ہے؟