کیا عمران خان کی یہ کامیابی معمولی ہے کہ انہوں نے سوئی ہوئی قوم کو جگانے کی کوشش کی ہے۔ وہ قوم جس کے سامنے دو برائیاں ہوتی تھیں ‘جو ووٹ دیتے وقت یہ سوچتی تھی کہ چلو اس بار پیپلزپارٹی کی بجائے نون لیگ کو ووٹ دے دو‘ یہ کم بری جماعت ہے‘ کیا اس قوم کو اپنے حقوق کیلئے بیدار کرنے کی کوشش کبھی کسی نے کی اور وہ بھی اس پیمانے پر؟ کیا اس سے بڑی کامیابی ہو سکتی ہے کہ آپ چھ دن اور چھ راتیں سڑکوں پر صرف اس لئے گزاردیں تاکہ لوگوں کوحقیقی آزادی کے معانی سمجھائے جا سکیں۔ لوگ فیس سیونگ کی بات کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں اگر عمران خان چھ میں سے ایک مطالبہ منوائے بغیر بھی واپس آجائیں تو بھی وہ کامیاب ٹھہریں گے کہ انہوں نے لوگوں کو غیرت کے ساتھ جینے کا پیغام دیا ہے اوراب انہیں واپس آ جانا چاہیے کہ انہوں نے بہت بڑا مقصد پا لیا ہے۔ یہ اس سے کہیں بڑا مقصد ہے جو وہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نون لیگ آئین‘ جمہوریت‘ اخلاقیات‘ سسٹم اور قانون کی بات کرتی ہے۔ آئین‘ قانون اور جمہوریت کا سبق پڑھانے والے بتائیں کہ اس وقت آئین اور جمہوریت کہاں تھی جب اسی کی دہائی میں فوج کی نرسری میں یہ جماعت پروان چڑھی؟ اس وقت آئین کہاں تھا جب نون لیگ کے متوالوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا؟ اس وقت جمہوریت کہاں تھی جب فضا میں آرمی چیف کے طیارے کارخ تبدیل کیا گیا؟ اس وقت آئین کہاں تھا جب سعودی عرب سے دس سال کی جلاوطنی کا معاہدہ کیا گیا؟ اس وقت آئین کہاں تھا جب میثاق جمہوریت سے انحراف کرتے ہوئے پی سی او جج کو چیف جسٹس تسلیم کیا گیا؟ اس وقت اخلاقیات کہاں تھی جب ایک منتخب صدر کو سڑکوں پر گھسیٹنے‘ الٹا لٹکانے اور پھینٹی لگانے کے
نعرے لگتے تھے؟ اس وقت قانون کہاں تھا جب مومن پورہ کے جلسے میں پولیس کو حکومتی احکامات ماننے سے روکنے کے نعرے لگے؟ اس وقت آئین کہاں تھا جب ایک پولیس والے نے اپنی پیٹی اتاری تو اعلان ہوا کہ سب پولیس والے اس کی پیروی کریں؟اس وقت جمہوریت کہاں ہے جب الیکشن میں اے طائر لا ہوتی کے شعر سنانے والے آئی ایم ایف کے قدموں میں بچھے چلے جا رہے ہیں؟ اس وقت آئین کہاں ہوتا ہے جب چیئرمین نادرا کی بیٹی کو دھمکیاں دے کر پوری فیملی کو جلاوطن کر دیا جاتا ہے؟ اس وقت آئین کہاں ہوتا ہے جب ایک بیکری کے مالک پر شاہی خاندان سے گستاخی پر بدترین تشدد کیا جاتا ہے؟ اس وقت اخلاقیات کہاں ہوتی ہے جب حنیف عباسی جیسے لوگ ٹاک شوز میں اپنے مخالفین کی بہنوں کی عزت کی دھجیاں اڑانے سے بھی گریز نہیں کرتے؟ اس وقت قانون کہاں ہوتا ہے جب آپ کے اپنے گھروں کے باہر بیرئیر لگے ہوں اور آپ دوسروں کے بیرئیر ہٹانے کیلئے چودہ بندے مار دیتے ہیں؟ بتائیں ناں ‘اس وقت کہاں ہوتا ہے آپ کا قانون‘ آئین‘ سسٹم‘ جمہوریت اور آپ کی اخلاقیات؟ یہ بادشاہت اور ڈکٹیٹر شپ نہیں تو اور کیا ہے کہ اگر کوئی آپ کی بات نہ مانے تو آپ اس کو خریدنے کی کوشش کریں‘ تب بھی نہ مانے تو دھمکیاں دیں‘ تب
بھی نہ مانے تو اس کے خلاف جھوٹے کیس بنوا دیں اور تب بھی نہ مانے تو اس کی زندگی کا چراغ بجھانے پر آ جائیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی ذات سے ہمیں لاکھ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اس میں غلط کیا ہے۔ کیا نون لیگ سیاہ و سفید کی مالک نہیں بن چکی؟ کیا صرف حکمران خاندان کے 84لوگ اہم ترین سرکاری عہدوں پر فائز نہیں ہیں؟ کیا اسحاق ڈار‘ حمزہ شہباز‘عابد شیر علی‘ اور مریم نواز شریف کو اس لئے وزارتیں اور اعلیٰ عہدے نہیں ملے کہ ان کا تعلق شاہی خاندان سے ہے؟ کیا تھانے ‘ کچہری‘ سرکاری اداروں میں عام آدمی ذلیل و رسوا نہیں ہورہا؟ کیا سابق چیف جسٹس افتخار چودھری سے یہ نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ حضور آپ نے مقدمات جلد نمٹانے اور عام آدمی کو انصاف دینے کے لئے کیا کیا؟ کیا جمہوریت اسے کہتے ہیں جس میں چودہ مقتولوں کی ایف آئی آر تک درج نہ کی جا سکے؟ کیا کوئی بتائے گا کہ حکمرانوں کو ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ ہیلی کاپٹر پکڑتے ہیں اور ڈیرہ غازی خان میں زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر محض تصویریں بنواتے ہیں اور بس۔ کیوں ایسا سسٹم نہیں بناتے یا چلنے دیتے جس کے تحت ہر علاقے کا تھانیدار اس علاقے کے ظالموں کو کٹہرے میں لا سکے۔ اگر ایک دن میں پچاس خودکشیاں‘ پچاس زیادتیاں اور پچاس قتل ہوں گے تو یہ کہاں کہاں جائیں گے اور کس کس کو انصاف دینے کا وعدہ کریں گے۔ ان میں سے کون سی بات غلط ہے۔ کیا یہ سب کچھ ایسا ہی نہیں جیسے قادری صاحب فرما رہے ہیں اور اگر ایسا ہے تو پھر آپ اسے تسلیم کیوں نہیں کر لیتے؟ کسی غلط بات کو دل سے برا ماننا ایمان کی کمزور ترین نشانی ہے۔ کیا نون لیگ کے خوف نے ہمارا ایمان اتنا کمزور دیا کہ ہم غلط کو غلط سمجھنے کو بھی تیار نہیں؟
میں دعوے سے کہتا ہوں‘ آج میاں نواز شریف یہ اعلان کر دیں میں اقتدار نچلی سطح پر منتقل کرتا ہوں‘ میں پولیس کو آزاد کرتا ہوں‘ میں بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ ختم کرتا ہوں‘ میں خاندانی رشتوں کو اعلیٰ عہدوں سے ہٹاتا ہوں‘ میں میرٹ کو اوپر رکھتا ہوں‘میں اپنے گھر پر مامور سترہ سو پولیس اہلکاروں کو عوام کی حفاظت پر لگا دیتا ہوں‘ اپنا پیسہ ملک میں واپس لاتا ہوں اور میں تعلیم‘ صحت‘ انصاف اور روزگار جیسے معاملات کو وہی اہمیت دینے کو تیار ہوں جو برطانیہ‘ کینیڈا اور امریکہ میں دی جاتی ہے تو خدا کی قسم‘ کسی عمران خان‘ کسی طاہر القادری کو سڑک پر آنے کی ضرورت ہی نہ رہے ۔ایسا ہو جائے تو کون بیوقوف ان لوگوں کی باتیں سنے گا۔ جب لوگوں کو صاف پانی‘ صحت‘ سستی اور اعلیٰ تعلیم مل رہی ہو گی‘ جب تھانے کچہری میں لوگوں کی بات عزت سے سنی جائے گی‘ جب امیر غریب‘ لیگی اور تحریکی کا فرق دیکھے بغیر انصاف دیا جائے گا‘ تب کسی کو پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ وہ ایسی حکومت اور ایسے حکمرانوں کے خلاف تحریک چلائے یا دھرنے دے ؟
لوگ کہتے ہیں عمران غلط کر رہا ہے۔ میں پوچھتا ہوں حکمرانوں نے اس کے لئے کون سا راستہ چھوڑا تھا۔ وہ جہاں جاتا ‘ پتہ چلتا سارے کے سارے افسر‘ سارے کا سارا محکمہ حکومت نے خرید رکھا ہے۔ آپ خود ہی بتائیں جو عمران کے ساتھ ہوا کیا وہ آج اس ملک کے کروڑوں عوام کے ساتھ نہیں ہو رہا؟ کیا یہ سب آپ کے اور میرے ساتھ نہیں ہو رہا؟ کسی کے گھر ڈاکہ پڑ جائے‘ کسی کا بچہ قتل ہو جائے‘ کسی کے ساتھ زیادتی ہو جائے‘ کسی کی زمین پر قبضہ ہو جائے وہ انصاف حاصل کرنے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کرتا اور جب انصاف نہیں ملتا تو اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں‘ ایک یہ کہ وہ اللہ کی رضا سمجھ کر خاموش ہو جائے اور دوسرا یہ کہ وہ نظام کے خلاف بغاوت کر دے۔ آئین‘ قانون اور جمہوریت کا مذاق بھی حکمرانوں نے اڑایا اور عمران کو بغاوت کا راستہ بھی حکمرانوں نے دکھایا اور یہ اب خود آئین‘ قانون اور جمہوریت کے پیچھے چھپنے کوشش کر رہے ہیں۔
میں اس قوم سے پوچھتا ہوں کیا زعیم قادری‘ حنیف عباسی‘ حمزہ شہباز اور عابد شیر علی ان کی قسمت بدلیں گے؟ میں پھر کہتا ہوں کہ عمران خان آئیڈیل لیڈر ہیں نہ ڈاکٹر طاہر القادری غلطیوں سے مبرا۔ مقدمہ صرف اتنا ہے کہ ان دونوں لیڈروں نے عوام کو حقیقی آزادی کیلئے سوچنے پر مجبور کر دیا‘ ان کے دماغ پر جمی گرد صاف کر دی اور انہیں حق اور سچ کا راستہ دکھلانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد بھی یہ قوم نہیں جاگتی تو پھر ایسی قوم کو خاندانی غلامی مبارک!