چودہ بے گناہوں کا خون بدستور حکومت کا پیچھا کر رہا ہے۔
فیس بک پر ایک ویڈیو دیکھ کر سمجھ نہیں آ رہی کہ اسرائیلی مظالم کی مذمت کروں یا پھر پنجاب حکومت کی۔ ایک واقعہ غزہ میں ہوا اور دوسرا ماڈل ٹائون میں۔ ایک میں کافر مسلمانوں پر‘ تو دوسرے میں مسلمان اپنے بہن بھائیوں پر گولیاں برسا رہے ہیں۔ یہ ویڈیو غزہ کو ملانے والی مرکزی شاہرا ہ کی ہے۔ اسرائیلی فوجی ناکے پر ایک گاڑی کو روکتے ہیں ۔دو بچوں اور ایک باپردہ خاتون کو گھسیٹ کر باہر نکالتے ہیں اور خاتون کے چہرے سے نقاب کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مزاحمت پر خاتون کو ٹھڈے اور گھونسے مارے جاتے ہیں۔ ایک فوجی بندوق کی نالی اس کے منہ سے لگا دیتا ہے۔ بچے اپنی ماں کو چھڑانے کیلئے فوجیوں کی ٹانگوں سے لپٹ جاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی ماں کو بالوں اور نقاب سے گھسیٹ کر فوجی گاڑی میں پھینکا جاتا ہے۔ جیسے ہی گاڑی روانہ ہوتی ہے۔ چیونٹی کی طرح مسلے ہوئے بچوں میں نہ جانے کہاں سے طاقت آ جاتی ہے۔ وہ فوجیوں سے خود کو چھڑاتے ہیں اور اس گاڑی کے پیچھے دوڑتے ہیں جس میں ان کی ماں کو کسی قتل گاہ کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ فوجی قہقہے لگاتے ہیں۔ بچے دوڑتے دوڑتے بالآخر گر جاتے ہیں۔ گاڑی دور نکل جاتی ہے۔ ایک فوجی اپنی بندوق لوڈ کرتا ہے اور بچوں کا نشانہ بناتا ہے۔ اس سے آگے ویڈیو ختم ہو جاتی ہے۔اگر چلتی بھی تو مجھ میں دیکھنے کی ہمت نہ ہوتی۔
کیا کوئی بتائے گا کہ اگر اسرائیلی مظالم کیخلاف جماعت اسلامی کراچی میں لاکھوں کا اجتماع منعقد کر سکتی ہے تو پھر سانحہ ماڈل ٹائون کے شہدا کیلئے کیوں نہیں؟ کیا صرف اس لئے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کا مسلک ان سے مختلف ہے یا پھر وہ ایک الگ جماعت چلارہے ہیں؟تو پھر یہی لوگ ہمیں وہ حدیثیں کیوں سناتے ہیں جن میں کہا گیا کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ کسی ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو دوسرا اس کا درد محسوس کرتا ہے۔ تو پھر جماعت اسلامی‘ تبلیغی جماعت‘ جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت اہلحدیث جیسی جماعتوں نے وہ درد محسوس کیوں نہ کیا جیسا وہ اسرائیلی مظالم پر محسوس کرتے ہیں؟ کیا ماڈل ٹائون میں اسرائیل جیسی بربریت بپا نہیں ہوئی؟کیا وہاں مسلمان شہید نہیں ہوئے؟
اس مقدمے کا خود مدعی بن کر حکومت نے چودہ شہیدوں کے لواحقین کو جیتے جی مار دیا ۔ تو پھر یہ دھرنے نہ دیں تو کیا کریں؟ اگر گوجرانوالہ میں مرنے والے کسی پولیس والے کا پرچہ لاہور میں بیٹھے ڈاکٹر قادری کیخلاف درج ہو سکتا ہے تو پھر ماڈل ٹائون میں مرنے والے چودہ لوگوں کی ایف آئی آر ماڈل ٹائون میں بیٹھے حکمرانوں کیخلاف کیوں درج نہیں ہو سکتی؟ یہ کیسا قانون اور کیسی جمہوریت ہے جو طاقتور کے لئے اور ہے اور کمزور کیلئے اور؟
ذرا غور کریں کہ سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن افضل خان جو کہہ رہے ہیں ‘ اسے پرکھنے کی بجائے یہ تبصرے ہو رہے ہیں کہ انہوں نے بولنے کیلئے اس وقت کا انتخاب کیوں کیا؟ کیا یہ وقت گائے کا رنگ دیکھنے یا اس کی ٹانگیں گننے کا ہے؟
آئیں‘ا ب ذرا جسٹس (ر) ریاض کیانی سے مل لیں۔ اگر ہم جنوری2009ء میں جائیں تو یہی جسٹس (ر) ریاض کیانی ہمیں نون لیگ کو سیاسی فوائد دیتے ہوئے ملیں گے۔ لاہور میں احد ملک کا ایک پلازہ کلمہ چوک پر زیر تعمیر تھا۔ اس کی دس منزلیں تعمیر ہو چکی تھیں اور تمام فلورز کی دکانیں اور دفاتر فروخت ہو چکے تھے۔ اس سے بہتر موقع نہ تھا کہ اس پلازے پر بدلے کا ڈرون گرایا جائے۔ شہباز شریف وزیراعلیٰ بنے تو سب سے پہلے احد ملک سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔نون لیگ کو داد دینی پڑے گی کہ یہ جو کام بھی کرتے ہیں اسے قانونی اور جمہوری رنگ دے کر کرتے ہیںکہ پکڑے نہ جائیں۔ اگر صرف اسی ایک پلازے کے خلاف ایکشن ہوتا تو کہا جاتا کہ سیاسی بدلہ لیا جا رہا ہے چنانچہ پکا کام کیا گیا اور جسٹس (ر) ریاض کیانی کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا ۔کمیشن نے لاہور میں گیارہ سوپلازوں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی جس کے بعد طے شدہ حکمت عملی کے مطابق سکروٹنی کر کے سیاسی مخالفین کے پلازوں کی فہرست تیار کی گئی اور سب سے پہلے یوسف احد کے پلازے کی مسماری شروع کی گئی جن کے والد 2002ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کی ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور بعدازاں اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ قاف میں شامل ہوگئے۔ اس طرح بیس مزید پلازوں کو جزوی یا مکمل طور پر مسمار کیا گیا لیکن ایم ایم عالم روڈ پر شریف خاندان کے قریبی رشتہ دار اور فین روڈ پر رانا ثنا اللہ کا غیر قانونی پلازہ نہیں گرایا گیا ۔ یہ ہے قانون ‘ آئین اور جمہوریت کا من پسند استعمال اور یہ ہیںجسٹس (ر)ریاض کیانی۔
کہتے ہیں گیدڑ کی موت آئے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے‘ حکمرانوں کا گھیرا تنگ ہوا ہے تو انہوں نے جوابی جلسوں کا فیصلہ کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے اگر آپ طاقت آزما سکتے ہیں تو ہمارے پاس بھی طاقت ہے۔ حضور کون دعویٰ کرتا ہے آپ کے پاس طاقت نہیں ہے؟ طاقت ہے تبھی تو چودہ شہیدوں کا پرچہ درج نہیں ہو سکا۔ طاقت ہے تو دوبارہ گنتی کا مطالبہ نہیں مانا گیا۔لیکن منصف ذرا یہ تو بتائیں جب نون لیگ سڑکیں بلاک کرتی ہے تب قانون کہاں ہوتا ہے؟ اگر عدالت عظمیٰ کے باہر جنگلے پر سکھانے کے لئے کپڑے لٹکانا جرم ہے تو پھر 17جون کو چودہ لاشیں گرانا کون سا انصاف تھا؟ وہ کسی کو کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ حقوق اگر ان دھرنوں سے متاثر ہو رہے ہیں تو لاہور میں گزشتہ روز مسلم لیگ نون نے رعونت کا مظاہرہ کرنے کے لئے جو جلسہ کیا ‘ کیااس سے گزر گاہ بند نہیں ہوئی‘ کیا اس سے شہری حقوق متاثر نہیں ہوئے؟ اس سڑک پر دو ہسپتال ہیں‘ ان کے مریضوں پر کیا بیتی‘ کسی کو معلوم ہے؟
لوگ کہتے ہیں عمران خان اور ڈاکٹر قادری ایک ہو جائیں گے۔ میں پوچھتا ہوں انہیں ایک کیوں نہیں ہونا چاہیے؟ کیا ماڈل ٹائون میں مرنے والے اس ملک کے شہری نہ تھے اور کیا عمران خان دھاندلی کا جو مسئلہ اٹھا رہے ہیں اس کا تعلق مریخ سے ہے؟
حالت یہ ہو چکی کہ ٹاک شوز میں نون لیگ کا کوئی ترجمان منہ کھولنے لگے تو لوگ آواز بند کر دیتے ہیں یا چینل بدل لیتے ہیں۔ کل ایک ٹاک شو میں دانیال عزیز نے دھرنے میں شامل خواتین اور بچوں کی بے عزتی کرتے ہوئے کہا کہ ریڈ زون میں دھرنے کیلئے لاہور سے اسلام آباد دس ہزار عورتیں لائی گئیں۔ کیا اس سے شرمناک انداز تخاطب ہو سکتا ہے؟ کیا یہ ہے وہ اخلاقیات جس کا درس نون لیگی قوم کو سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں؟
قدرت کا فیصلہ لکھا جا چکا ہے۔ عمران خان حکومت کا پیچھا چھوڑتے ہیں یا نہیں لیکن یہ طے ہو چکا کہ ماڈل ٹائون کی سڑکوں پر گرنے والا خون شریف حکومت کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ اس سے قبل کہ سب کچھ لپیٹ دیا جائے‘ حکمران شہیدوں کی فریاد سن لیں کیونکہ قادری صاحب نے اعلان کر دیا ہے کہ کفن ایک ہے اور کفن پوش دو!