"ACH" (space) message & send to 7575

آزادی یا غلامی ؟

پہلے جناب خورشید شاہ سے مل لیں جو آج کل نواز لیگ ‘ یعنی آئین اور جمہوریت کے دفاع میں کھڑے ہیں۔کھڑا ہونا بھی چاہیے کیونکہ اب فرینڈلی اپوزیشن کی باری پیپلزپارٹی کی ہے۔ 
شاہ صاحب کو ریڈ زون کے سامنے تماشا تو نظر آیا مگر ایک تماشا تو وہ بھول ہی گئے۔ سابق دور میں سندھ میں اپنے علاقے سے ایک مداری کو بلایا جو کہتا تھا میں پانی سے گاڑی چلا کر دکھائوں گا۔اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے اور پورے ریڈ زون کا چکر لگا کر ثابت کیا کہ واقعی گاڑی پانی سے چل سکتی ہے۔ ٹی وی خبرنامہ میں قوم کو بیوقوف بنا لیا تو اس شخص کو نون لیگ کے فیورٹ چینل کے فیورٹ اینکر سے ملا دیا کہ جائو اب تمہاری باری ہے۔ اب یہ تماشا تم پوری قوم کو دکھائو۔ موصوف نے پورے دو پروگرام اس پر کھڑکا دئیے۔ اس وقت قوم دانتوں میں انگلیاں دبا کر بیٹھ گئی جب ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے سائنسدان نے کہہ دیا‘ ہاں پانی سے گاڑی چل سکتی ہے۔ میں لکھتا رہا‘ ڈاکٹر عطاالرحمن چیختے رہے‘ پانی سے گاڑی نہیں چل سکتی‘ خدا کے لئے پاکستان کا مذاق نہ اڑوائیں‘ دنیا دیکھ رہی ہے لیکن کسی نے نہ سنی۔ کہاں ہے وہ آغا وقار اور کہاں ہے اس کی پانی سے چلنے والی گاڑی؟ 
اب سنیں! آئین اور جمہوریت کے وفاداروں نے یہ ڈرامہ رچایا کیوں ۔ یہ شخص سندھ میں پیپلزپارٹی کی اہم شخصیت کا سفارشی تھا۔ یہ شخصیت سی این جی سٹیشن کا پرمٹ چاہتی تھی ۔ نئے سی این جی سٹیشنز پر بین لگ چکا تھا چنانچہ اس کیلئے ایک پلان بنا اور اس کے لئے ایک مستری ‘ معاف کیجئے گا ''سائنسدان‘‘ کو استعمال کیا گیا۔ سیاستدانوں اور صحافیوں کو گاڑی کی سیر کرانے کے بعد ''سائنسدان‘‘ نے مطالبہ کیا کہ اسے ایک سی این جی سٹیشن درکار ہے تاکہ وہ اپنے پراجیکٹ پر مزید ''ریسرچ‘‘کر سکے ۔ یہ شرم سے ڈوب کر مر جانے کا مقام تھا ۔ عمران خان تو آج اس قوم کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ قوم تو اُس روز بھی نہ جاگی۔ اللہ کے بندو! کچھ تو عقل کرو۔ پراجیکٹ تھا پانی سے گاڑی چلانے کا اور مانگ رہے ہو سی این جی سٹیشن۔ جو بات امریکہ اور یورپ کے سائنسدانوں کو سمجھ نہیں آئی وہ خورشید شاہ کو سمجھ آ گئی ‘ وہ آگے بڑھے اور وزارت پٹرولیم اوراوگرا کو خط لکھ کر سی این جی سٹیشن کی منظوری دلوادی اور یوں یہ مداری ایک سیاسی شخصیت کیلئے سی این جی کا پرمٹ لے کر کراچی واپس آ گیا۔ اسے سی این جی سٹیشن دے دیا اور خودورکشاپ میں پہنچ گیا۔اس کارنامے کے بعد آپ ان ''لیڈروں ‘‘سے کس قسم کے پاکستان کی توقع رکھیں گے؟
یہ بھی عجیب منطق ہے کہ فوج سیاست میں دخل نہ دے۔ مانا‘ فوج کاسیاست میں استعمال درست نہیں لیکن کیا پولیس کا استعمال جائز ہے؟ بیوروکریسی کا درست ہے؟ پولیس سے بندے مروانے ٹھیک ہیں؟ پٹواریوں سے قبضے کرانا صحیح ہے؟آخر سب کا حرف ِانکار فوج کے خلاف ہی کیوں بلند ہوتا ہے؟ یہ حرف انکار سیاسی حکمرانوں کے غلط احکامات کے خلاف کیوں نہیں ہوتا؟ جیسے آفتاب چیمہ نے کیا‘ جیسے خالد خٹک‘ محمد علی اور ڈی ایس پی خدیجہ نے کیا۔
ایک دن نون لیگ کے ایک پرانے عاشق مجھے ملے۔ کہنے لگے ‘ پچھلے چار ماہ سے لیسکو والے ذلیل کر رہے ہیں۔ ہر ماہ بل صحیح کراتا ہوں ‘ ہر ماہ بقایا جات لگ کر آ جاتے ہیں۔ میں نے شرارتاً کہا‘ اور دیں نون لیگ کو ووٹ۔ وہ مریل سی آواز میں بولے!بیٹا۔ادارے تو کوئی بھی ٹھیک نہیں کر سکتا ۔ میں نے کہا‘ ادارے ٹھیک نہیں کر سکتے تو چھنکنا بجانے آتے ہیں حکومت میں؟ یہ اچھا ہے بھئی۔ ڈگڈگی بجائو‘ قوم کو نچا ئو ‘ ساتھ ساتھ چار‘ چھ سوٹیاں بھی مارواور مال بناکر رفو چکر ہو جائو۔ 
وزیراعظم کو وہ دن بھی یاد ہوں گے جب ان کے والد محترم میاں شریف کا جنازہ تھا اور انہیں پاکستان آنے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ انہوں نے اس موقع پر وہ دُکھ ضرور محسوس کیا ہو گا جو ایک اوورسیز پاکستانی محسوس کرتا ہے۔ میاں صاحب کے ساتھ تو پرویز مشرف کی سیاسی چپقلش تھی لیکن ان ساٹھ لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کا کیا قصور ہے جو اپنے عزیزوں کی وفات پر اس لئے ملک واپس نہیں آ سکتے کیونکہ ان کا کفیل یا امیگریشن کا قانون انہیں مخصوص مدت سے قبل واپس آنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ لوگ وہاں کوئی میلہ دیکھنے گئے‘ نہ ہی سٹیل ملیں لگانے ۔یہاں کے خراب حالات انہیں وہاں لے کر گئے۔ آج آپ بیرون ملک جانے والوں کی تعداد دیکھیں ‘ ان میں صرف لیبر کلاس ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ کاروباری طبقہ‘ سبھی یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں۔ کیوں؟اگر آپ کا پاکستان اتنا ہی خوشحال ہے ‘ یہاں نوکری اور کاروبار کے اتنے ہی شاندار مواقع ہیں تو پھر یہ سب کیوں بھاگے چلے جا رہے ہیں ؟ کیوں یہ اپنے پیاروں سے جدا ہو رہے ہیں؟ کیا انہیں پوچھنے کا حق نہیں کہ آپ نے انہیں کیا دیا؟ یہی کہ جب یہ پاکستان آئیں تو ایئرپورٹ سے لے کر بھتہ خوروں تک‘ سبھی ان کی بوٹیاں بھنبھوڑنے لگیں۔ ووٹ کا حق تو آپ نے انہیں دیا نہیں۔ کیا یہ ہے وہ حکمرانی جسے بچانے کیلئے سارے دسترخوان پر اکٹھے ہو گئے ہیں؟ 
کیا یہ جھوٹ ہے کہ جس کی تنخواہ پندرہ ہزار ہے وہ بھی رو رہا ہے‘ اور جس کی لاکھوں میں ہے ‘ اس کا گزارا بھی نہیں ہو رہا ۔ نہ کسی کے گھر کھانے کو روٹی ہے نہ بل دینے کے پیسے۔ پھر بھی دھرنے میں یہ شریک نہیں ہوتے اور لحافوں میں ریموٹ تھامے دعا کر رہے ہیں کہ اللہ تقدیر بدل دے۔ کیوں بدلے ؟ تقدیرایسے بدلا کرتی ہے؟ عمران خان بھی اس قوم کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیںجس کا دل عید کی نو‘ نو چھٹیاں کر کے بھی نہیں بھرتا۔
آپ ذرا نون لیگ کے لاہور مزنگ والے جلسے کی ویڈیو دیکھ لیں کہ رانا مشہود جیسے لوگ ‘جو دیسی مرغیاں اور نمکین دنبے پھاڑنے کے عادی تھے‘ وہ ایک گھنٹہ بھی گرمی برداشت نہ کر سکے اور ہسپتال پہنچ گئے اور یہ ہزاروں لوگ جنہیںبرگر کہا جاتا تھا‘ جوگرمی‘ لُو‘ حبس ‘ آندھی اور طوفان میں بھی ثابت قدم رہے ‘ جو زہریلی آنسو گیس‘ گولیوں اورلاٹھیوںکا مقابلہ کر رہے ہیں‘ ان کی استقامت کا بھی موازنہ کر لیں‘ اور دیکھ لیں‘ کون اقتدار بچانا چاہتا ہے اور کون نیا پاکستان چاہتا ہے؟
پانچ برس پہلے کہا گیا کہ ملک میں اتنی گیس ہے کہ سو برس تک ختم نہیں ہو گی۔ پھر زرداری صاحب کے مشیر ڈاکٹر عاصم حسین نے کوئی منتر پڑھا اور ساری گیس ہوا ہو گئی۔ پتہ چلا سی این جی بھیک کی قطاروں میں ملا کرے گی۔ حکم ہوا کہ اب ایل این جی امپورٹ کی جائے گی‘ وہ زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ وہ زیادہ اچھی ہوتی ہے یا اس سے ملنے والا کمیشن زیادہ اچھا ہوتا ہے؟ زرداری صاحب سے ایل این جی کا ٹھیکہ موجودہ حکومت کے پاس آ گیا۔ اب یہ کمیشن بنائیں گے اور زرداری صاحب کو بچائیں گے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
اپنے لئے نہیں تو اپنے بچوں کے لئے ہی سوچیں ‘ایسے تماشے دکھانے والے آپ کو نیا پاکستان دیں گے یا وہ جس نے کینسر ہسپتال بنایا ؟وہ جو غریبوںکے ایک ارب ماہانہ ٹیکس سے میٹرو بس چلا رہے ہیں یا وہ جس نے عالمی معیار کی یونیورسٹی بنائی؟وہ جنہوں نے پورے ملک میں تین دانش سکول بنائے یا وہ جو خیبر پی کے تمام سرکاری سکولوں میں زندگی کی روح پھونک رہا ہے؟وہ جس کا ایک دھیلہ بھی ملک سے باہر نہیں ہے یا وہ جن کا ایک آنہ بھی ملک کے اندر نہیں ہے؟ وہ جن کے 84رشتہ دار وزارتوں اور سرکاری عہدوں کے گوشے لُوٹ رہے ہیں یا وہ جو بیس دنوں سے کھلے آسمان تلے وقت کے حکمرانوں کو للکار رہا ہے اور اگر آپ اپنے بچوں کے لئے نیا پاکستان نہیں دیکھنا چاہتے‘ انہیں پولیس‘ پٹواریوں اور ڈگڈگی بجانے والوں کی غلامی میں دینا پسند کرتے ہیں‘ تو بے حسی کا کمبل اوڑھ کر سو جائیے‘ کوئی آپ کو نہیں اُٹھائے گا۔
پس تحریر: جاوید ہاشمی کی ''تاریخی‘‘ پریس کانفرنس کس کے ایما پر کی گئی‘ کون قومی اداروں کو بدنام کرنا چاہتا تھا‘ یہ بغاوت تھی یا موقع پرستی کی بدترین مثال ۔ گزشتہ کالم میں میرا خدشہ درست نکلا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں