ہیلی کاپٹر وں میں بیٹھ کر سیلاب کے فضائی دوروں سے مسئلہ حل ہو سکتا تو کب کا ہو چکا ہوتا!
یہ کیسی حکمرانی ہے کہ ہر سال بارشیں ہوں‘ ہر سال سیلاب آئے اور ہر سال آپ ایک ہی کام شروع کردیں۔ ہیلی کاپٹر پر چڑھیں‘ میڈیا کو ساتھ بٹھائیں‘ دو چار فضائی چکر لگائیں‘ واپس آئیں‘ ڈیزاسٹر مینجمنٹ والوں کی بریفنگ سنیں‘ لوگوں کو امداد پہنچانے اور ریلیف دینے کے احکامات جاری کریں اور اس کے بعد اگلے سال کا سیلاب آنے تک سو جائیں۔ نہ امداد متاثرین تک پہنچے نہ ہی ان کو ریلیف ملے۔ ہاں بعض کیلئے یہ سیلاب لاٹری ضرور بن جائے اور ان کے بینک اکائونٹ اور گودام بھر دے۔ یہاں تک تو ٹھیک کہ بارشیں اللہ برساتا ہے اور ہم بارشیں نہیں روک سکتے لیکن اللہ نے کب منع کیا کہ ہم بارشوں سے جمع ہونے والا پانی استعمال نہ کریں۔ کون نہیں جانتا کہ یہی پانی جو ہر سال لاکھوں عوام کو تنکوںکی طرح بہا دیتا ہے‘ان کی فصلوں‘ جمع پونجی اور ان کے ارمان تک کو بہا لے جاتا ہے ‘ یہی پانی اگر چھوٹے بڑے ریزروائر بنا کر سٹور کر لیا جائے تو ہم اس آفت کو بجلی میں بدل سکتے ہیں۔ اس میں کون سی راکٹ سائنس ہے جو مجھے یا آپ کو معلوم ہے لیکن ان کی کھوپڑیوں میں نہیں گھس پاتی؟ کیا یہ سب ان کو معلوم نہیں جو الیکشن کے دوران مسکین شکلیں بنا کر ووٹ مانگتے ہیں اور اقتدار میں آتے ہی گلوبٹ بن جاتے ہیں۔ کیا ان اقدامات کی اُمید ہم ان سے لگائیں جو ملک کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کی طرح چلا رہے ہیں یا وہ جو نیا پاکستان چاہتے ہیں‘ جو چہروں میں نہیں سسٹم پر یقین رکھتے ہیں؟
سوال یہ ہے جب سیلاب‘ زلزلہ اور ڈینگی ان کی اپنی کمائی کا سامان بن جائیں گے تو یہ نیا پاکستان کیوں بنائیں گے؟ پرانے پاکستان کے یہ ''لیڈر‘‘ جب بیرون ملک جاتے ہیں تو ان کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔ نہ کوئی وی آئی پی پروٹوکول‘ نہ کوئی پٹواریوں اور کلرکوں کا جلوس۔ انسانوں کی طرح ایئرپورٹ سے نکلتے ہیں‘ راستے میں سگنل آتا ہے تو رُکتے ہیں‘ زیبرا کراسنگ پر ٹائر آ جائے تو گاڑی میں پوری نواز یا زرداری کابینہ ہی کیوں نہ بیٹھی ہو‘ چالان سے نہیں بچ سکتی۔ یہی لوگ اپنی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں تو بادشاہ بن جاتے ہیں‘ ایئرپورٹ پر اترتے ہی ایسا غل غپاڑہ مچاتے ہیں جیسے کوئی پینڈو شہر سے بارات لے کر واپس گائوں پہنچے یا پھر افریقہ کے جنگلوں کا کوئی نیزہ بردار گروہ حملہ آور ہو جائے۔ گئے ہوتے ہیں بھیک سے توندیں بھرنے اور واپسی پر چالیس چالیس گاڑیوں میں یوں فراٹے بھرتے ہیں جیسے مریخ پر پاکستان کا جھنڈا گاڑ کر آئے ہوں۔
ابھی تو ماڈل ٹائون کی سڑکوں پر گرنے والا خون گلے پڑا ہوا تھا‘ اب اسلام آباد کے ہسپتال سے غائب ہونے والی تیرہ لاشوں کی روحیں بھی ان کا پیچھا کریں گی۔ کل خواجہ سعد رفیق فرماتے ہیں ایک طرف شاہ محمود قریشی سے مذاکرات جاری ہیں تو دوسری طرف ہم عمران خان کی گالیاں سن رہے ہیں‘ اس طرح مذاکرات کیسے کامیاب ہوں گے؟ موصوف اپنا پیر بھول گئے جو کل تک دھرنوں والوں کی گردن پر رکھا ہوا تھا۔ ایک طرف ان پر بارہ بور کے برسٹ برسائے جا رہے تھے‘ دوسری جانب مذاکرات آفر کر رہے تھے۔ایسا لگتا ہے کہ بعض سیاسی برائیوں اور خاص طور پر جھوٹ بولنے میںبھی نون لیگ کی اجارہ داری ہے۔ اس میں یہ پیپلزپارٹی کو بھی پیچھے چھوڑ چکی۔
کچھ نیک لوگ مسلسل عمران خان میں کیڑے نکالنے میں لگے ہیں لیکن اس کی اچھی باتیں ان کے کانوں میں نہیں گھستیں۔ وہ اللہ سے مدد مانگتے ہوئے اپنا خطاب شروع کرتا ہے تو کوئی علامہ یہ نہیں کہتا کہ وہ اللہ کا نام لیتا ہے۔ وہ قرآن کی آیت سناتا ہے تو کسی مولانا کو سنائی نہیں دیتی۔ وہ حدیث بیان کرتا ہے تو کسی مفتی کو پتہ نہیں چلتا۔ ہاں اگر پارٹی ترانے چل پڑیں تو فوراً بول اٹھتے ہیں‘ وہ دیکھو بے حیائی پھیلا رہا ہے‘ وہ دیکھو ناچ گانا ہو رہا ہے۔ انہی لوگوں کو پنجاب اور سندھ یوتھ فیسٹیول کے وقت سانپ سونگھ گیا تھا جب وہاں رقص کے باقاعدہ مقابلے ہوئے تھے؟ مذہب کی آڑ میں تنقید کرنے والے یہ تو بتائیں جب قرآن میں سود کو اللہ اور اس کے رسول ؐ کے خلاف اعلان ِجنگ قرار دیا گیا ہے تو پھر یہ لوگ سود کیوں ختم نہیں کرتے؟ کیا انہیں یہ آیت معلوم نہیں یا پھر یہ کرنا نہیں چاہتے یا کر نہیں سکتے؟ انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ میاں نواز شریف جلاوطنی کے دوران لندن کی ایک شاہراہ پر پیدل چل رہے تھے توایک یورپی مسلمان نوجوان نے ان کا راستہ روک لیا اور کہا آپ مسلمان ہیں‘ حکومت میں بھی رہے ہیں تو آپ نے سود کے خلاف اقدامات کیوں نہیں کئے؟ اقدامات کیا کرنے تھے‘ حکومت میں آ کر انہوں نے اپنی صاحبزادی کو ایک سو ارب روپے کی اُس سکیم کا مالک بنا دیا جو خالص سود پر چلتی ہے اور اگر ساری سکیمیں سود کھا کر ہی چلانی ہیں تو سارے کا سارا بجٹ عالمی بینک میں رکھ کر سو جائیں اور سود کھاتے جائیں ‘ پھر حکومت‘ الیکشن اور پارلیمنٹ کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ ملک دو چار اکائونٹنٹوںکے حوالے کر دیں اور ان کا سربراہ اسحاق ڈار صاحب کوبنا دیں‘ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
یہی حال وزیراعلیٰ پنجاب کا ہے۔ وہ اخوت کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب پر بڑا اعتماد کرتے ہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے اخوت کے ذریعے ہزاروں خاندانوں کو اربوں روپے کے بلاسود قرضے دئیے جو ننانوے اعشاریہ نو فیصد لوگوں نے واپس بھی کئے‘ اب وہ اخوت بینک بنا کر یہ سکیم پورے ملک میں پھیلانا چاہتے ہیں اور انہوں نے برسوں سے اس بینک کی درخواست بھی دے رکھی ہے مگر زرداری صاحب نے منظور کی اور نہ ہی موجود حکومت انہیں گھاس ڈالنے پر آمادہے۔ کیوں ؟ اسی لئے کہ کہیں آئی ایم ایف ناراض نہ ہو جائے؟تو پھر مذہب کی آڑ میں تنقید کرنے سے پہلے یہ اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے ؟
یہ ایسی لولی لنگڑی جمہوریت میں ان کی جان کیوں پھنسی ہے‘ یہ چودھری نثار علی خان اور چودھری اعتزاز احسن کے درمیان تلخ کلامی سے آشکار ہو چکا۔ اس کے بعد جس طرح اس ایشو پر مٹی ڈالی گئی اور پھر جس طرح سب نے اس انوکی ٹائپ مقابلے کی تحسین کی ‘ اسے دیکھ کر سب کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ یہ ہے لوٹ مار کا وہ کھیل جسے یہ جمہوریت کا نام دے کر بچانے کی کوشش میں لگے ہیں اور جب کوئی تیسرا کھڑا ہوتا ہے تو انہیں اپنے ٹھوٹھے پر ڈانگ لگتی محسوس ہوتی ہے اور وہ انہیں یہودیوں کا ایجنٹ اور ملک دشمن دکھائی دیتا ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں دھرنے کا انجام ‘ اس کا فائدہ کیا ہو گا۔ میں کہتا ہوں دھرنے نے قوم کی آنکھیں کھول دیں‘ کیا یہ کم ہے؟ عمران خان اور ڈاکٹر قادری کو چاہیے کہ وہ علامتی دھرنا جاری رکھیں لیکن اپنی زیادہ توجہ سیلاب اور دھاندلی کی تحقیقات پر مرکوز رکھیں۔مڈ ٹرم الیکشن کا اعلان فوری ہونا چاہیے۔بائیو میٹرک سسٹم لازمی شامل کیا جائے۔ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے روایتی نہیں بلکہ مضبوط کمیشن قائم ہو۔نون لیگ اپنے سرکاری گلوبٹوں کو سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے بھیجے مگر خدشہ وہی ہے کہ یہ ساری امداد خود ہڑپ کر جائیں گے۔ میاں نواز شریف کو آج نہیں تو کل استعفیٰ دینا ہی ہو گا مگر وزیراعلیٰ پنجاب نے تو خود کہا تھا انہیں ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو استعفیٰ دیں گے۔
کبھی کبھی تو خیال آتا ہے‘ اس قوم کے ساتھ صحیح ہو رہا ہے کیونکہ جو لوگ ایک پلیٹ بریانی کے عوض اپنا ووٹ بیچ دیں‘ ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ پھر سوچتا ہوں ان حکمرانوں کا تو سب کچھ لندن‘ سوئٹزرلینڈ میں پڑا ہے‘ ہمارا سب کچھ یہیں ہے‘ ہم نے تو یہیں جینا اور یہیں مرنا ہے‘ ہمارے ساتھ سعودی عرب نے ڈیل کرنی ہے نہ امریکہ نے۔ بچانا ہے تو صرف اللہ کی ذات نے‘ ہمارے ایمان اور ہماری جدوجہد نے۔ اگر عمران خان کوئی غلطی کر رہا ہے تو وہ بہت کچھ اچھا بھی تو کر چکا ۔ اگر ہم اکٹھے ہو جائیں‘ تو اسے اس کی غلطیوں پر ٹوک بھی سکتے ہیں اور اسے درست سمت میں موڑ بھی سکتے ہیں کہ اسی کا نام جمہوریت ہے اور یقین کیجئے‘ یہی کام اگر میاں نواز شریف کرتے یا آصف زرداری‘ تو عوام ان کو بھی سر آنکھوں پر بٹھالیتے لیکن کیا کریں کہ وہ عوام پر ظلم تو کر سکتے ہیں مگر دل جیتنا انہیں نہیں آتا۔ عوام اپنے حقوق سے آگاہ ہوں‘ انہیں شعور آ جائے‘ وہ بیدار ہو جائیں‘ یہ قوم واقعی ایک قوم بن جائے‘ یہی عمران خان اور ہر لیڈر کا کم از کم مشن ہونا چاہیے۔ انسان کا کام کوشش کرنا ہے‘ وہ صراط مستقیم کی دُعا اور اس پر چلنے کی کوشش کرسکتا ہے ‘ کامیابی دینا اور سیدھے راستے پر چلانا اللہ کا کام ہے۔ جو ہمارا کام ہے وہ ہم کریں اورجو اللہ کا ہے‘ وہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ہم عمران خان پر یقین نہ کریں‘ اللہ پر تو کر لیں‘ ہم عمران خان کے لئے اپنی پارٹی چاہے نہ بدلیں‘ خود کو تو بدل لیں کیونکہ اللہ اُسی قوم کی حالت بدلتا ہے جو اپنی حالت بدلنے کے لئے میدان میں نکلتی ہے ‘یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرتا ہے۔