لوٹ مار گروپ ابھی تک عمران خان کو سمجھا ہی نہیں۔ یہ عمران خان پر سکرپٹ پر چلنے کا الزام لگاتا رہا لیکن خوداس کا اپنا سکرپٹ اور سارے پلان ناکام ہو گئے۔ کیسے؟ خود دیکھ لیں۔
اس گروپ کا خیال تھا اگر عمران خان نے آزادی مارچ کا اعلان کرہی دیا تھا تو یہ عمران سے لاہور میں ہی بارگین کر لے گا۔ لیکن جب عمران نے ان کی ہر پیشکش‘ ہر لالچ کو مسترد کر دیا تو یہ لوگ اپنا پلان بی سامنے لے آئے۔ اس پلان میں جاوید ہاشمی کو آزادی مارچ کے عین روانگی کے وقت رنگ میں بھنگ ڈالنے کا ٹاسک ملا۔ تاہم عمران کی ہدایت پر چار ارکان نے ''باغی‘‘ کو منا لیا اور یوں یہ پلان فیل ہو گیا۔ اب پلان سی کے تحت کنٹینر وں کی دیواریں کھڑی کرنے کا مرحلہ شروع ہوا۔اس سے عام لوگوں میںحکومت کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑک اٹھے جس پر حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ آزادی اور انقلاب مارچ لاہور سے نکلے تو پلان ڈی سامنے لایا گیا۔ یہ اُنہی لوگوں نے ڈیزائن کیا تھا جو ماڈل ٹائون آپریشن کے تخلیق کار تھے۔ لاہور میں گلو بٹ کی شاندار کامیابی کے بعد گوجرانوالہ میں پومی بٹوں کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے مارچوں پر پتھروں‘ڈنڈوں اور گولیوں کی بوچھاڑ کر دی ۔ جب میڈیا نے پومی بٹ سے نقاب اٹھایا تو یہ پلان بھی فلاپ ہوگیا اور یہ دھرنے جیسے تیسے اسلام آباد پہنچ گئے۔ کچھ دنوں بعد جب عمران خان نے دھرنا ریڈ زون سے وزیراعظم ہائوس کے سامنے منتقل کرنے کا اعلان کیا تو پلان ای کے مطابق چودھری نثار نے دو گھنٹے کے اندر ریڈزون خالی کرانے کا حکم دیا۔ چونکہ مظاہرین پر شیل فائر کرنے کی پہل پولیس کی طرف سے ہوئی تھی اس لئے مظاہرین میں اشتعال بڑھ گیا اور دوبدو جنگ ہونے لگی۔ ساتھ ہی ساتھ میڈیا کوبھی لائیو کوریج کا خوب مزا چکھایا
گیا جس کی ابھی تک ایف آئی آر ہی درج نہیں ہو سکی۔ اسی سکرپٹ کے تحت خواجہ سعد رفیق سامنے آئے اور اپنے ہی ایک محافظ کو ٹی وی وین پر حملے سے روکنے کی یوں کوشش کی جیسے وہ بے چارا سکرپٹ سے ہٹ کر کچھ کر رہا ہو۔ اس ریاستی دہشت گردی پر پورا میڈیا حکومت کیخلاف سراپا احتجاج ہو گیا۔ جس پر پلان ایف کے ذریعے فوج جیسے ادارے کو بھی یہ کہہ کر داغدار کرنے کی کوشش کی گئی کہ دھرنے کے رہنمائوں نے آرمی چیف سے ملاقات اور مسئلے کے حل کی خود درخواست کی تھی تاہم جنرل عاصم سلیم باجوہ کے ایک ٹویٹ نے سارا پول کھول دیا۔ پھر پلان جی کے تحت سرکاری گلو بٹوں سے پی ٹی وی پر حملہ کرایا گیا۔ تاہم سکرپٹ میں چند خامیاں رہ گئیں۔ ایک تو یہ کہ جس سرکاری خاتون اینکر کو تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام لگایا گیا‘ اس خاتون کی ڈیوٹی دوپہر بارہ سے رات آٹھ بجے تک تھی۔ جبکہ یہ حملہ صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔ دوسری غلطی لائیو ٹرانسمیشن بند کروانے کی تھی۔ بڑے سے بڑا جغادری اینکر جو گزشتہ دس برس سے سکرین پر بیٹھا ہے‘ اسے بھی معلوم نہیں کہ سیٹیلائٹ اپ لنک کہاں ہوتا ہے‘ تو یہ بے چارے کس جوگے تھے۔ تیسری غلطی چودہ کیمروں کی چوری کا الزام تھااور واقعی ایسا ہوا ہوتا تو سی سی ٹی وی ویڈیو سامنے لا ئی جاتی۔ ماروی میمن اور جناب پرویز رشید نے غالباً سکرپٹ کو بغیر دیکھے فائنل کیا چنانچہ یہ پلان بھی فیل ہو گیا۔نئے پلان ایچ کے مطابق چند صحافیوں اور سیاستدانوں میں عوام کے ٹیکسوں سے کروڑوں روپے بانٹے گئے جس کے بعد وہی صحافی جو کل تک دھرنے کے قائدین کے کم از کم جائز مطالبات کے حامی تھے‘ انہیں وہ مطالبات بھی یہودیوں کی سازش لگنے لگے۔ اسی پلان کے تحت دوبارہ باغی کی مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا اور ایک ''اہم ‘‘شخصیت نے جاوید ہاشمی کی وزیراعظم سے ملاقات کروا دی۔ اس وقت عمران خان کا گراف بلندی پر تھا ‘حکومت اپنے زخم چاٹنے میں لگی تھی اور تحریک کو چوٹ پہنچانے کا اس سے بہتر موقع نہ تھا‘ چنانچہ دو پریس کانفرنسوں میں عمران خان پر جھوٹ کے ڈرون برسائے گئے لیکن اینکر کامران شاہد نے سعد رفیق کے ساتھ جاوید ہاشمی کے رابطوں کا پول کھول دیا ۔اس کے بعد گیم ایک مرتبہ پھر حکومت کے ہاتھ سے نکل گئی۔ اس دوران سیلاب آ گیا‘ جس کے بعد لوٹ مارگروپ کی چاندی ہو گئی ‘ہیلی کاپٹروں پر آنیاں جانیاں اور سیلابی پانی میں فوٹو سیشن شروع ہو گئے جو تادم تحریر جاری ہیں۔ہاں‘ ایک پلان اور بنا تھا جس پر بوجوہ عمل کی نوبت ہی نہ آ سکی اور وہ تھا پولیس کے ذریعے عمران کو قتل کرانے کا منصوبہ۔ یہ پلان بھی ماڈل ٹائون سانحہ کے ڈیزائنر ز نے بنایا تھا جو کسی پکڑ میں نہ آنے کی وجہ سے شیر ہو چکے تھے۔ان کا خیال تھا اور اب بھی ہے کہ عمران خان کی آواز کو مکمل طور پر خاموش کرنا ضروری ہے۔ اس سے ایک مرتبہ تو فسادات ہوں گے لیکن یہ جو عمران روز روز انہیں ننگا کرتا ہے‘ وہ اس عذاب سے تو نکل آئیں گے۔ یہ وہی سازش تھی جس کے بارے میں شیریں مزاری نے ٹویٹ بھی کیا تھا۔ اس ایکشن کی ذمہ داری ڈپلومیٹک انکلیو کے ایس پی کو سونپی گئی تھی۔ لیکن کالموں اور سوشل میڈیا پر یہ سازش منظر عام پر آنے کے بعد پولیس کی اعلیٰ قیادت میں کھلبلی مچ گئی۔ انہوں نے حکومت سے ہر ایکشن کے پیشگی تحریری آرڈر مانگ لئے جو نہ ملے۔ جس کے بعد پولیس افسران ایک ایک کر کے پیچھے ہٹتے گئے اور پولیس میں بغاوت حکومت کیلئے نئی سردردی بن گئی۔یوں عمران خان کو خریدنے‘ دھمکانے‘ اس کی جماعت میں پھوٹ ڈالنے کا ہر حربہ ناکام ہوگیا ۔
سوال یہ نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ جگہ جگہ پانی میں کھڑے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ جگہ جگہ پانی کیوں کھڑا ہے؟ چار برس پہلے بھی یہی وزیراعلیٰ تھے‘ یہی پانی اور یہی گلیاں اور آج بھی وہی مناظر تو پھر حکمرانی پر سوال کیوں نہ اٹھیں؟ آج جب ملک ڈوب رہا تو وزیراعظم اعلان کر رہے ہیں کہ اسلام آباد سے مظفر آباد ٹرین چلائی جائے گی۔ کیا یہ ٹرین آئندہ سیلاب سے نمٹے گی ؟ کیا اس کا سربراہ حنیف عباسی جیسوں کو بنایا جائے گا کیونکہ اُن پر کرپشن کے سب سے زیادہ الزام ہیں؟
لوگ عمران خان کے لئے نرم گوشہ کیوں رکھتے ہیں‘ اس کی وجہ خود نون لیگ اور پیپلزپارٹی کا بوسیدہ طریقہ واردات ہے۔ انتظار کیا جاتا ہے کوئی بحران سامنے آئے‘ کسی کی بچی کے ساتھ زیادتی ہو‘ کہیں آگ لگ جائے‘ کوئی خودکشی کی کوشش کر لے‘ بچوں سے بھری گاڑی کاسلنڈر پھٹ جائے یا سیلاب آجائے‘ اس کے بعد پھر وہی فوٹو سیشن‘ وہی ہمدردی کے آنسو کی نمایاں خبریں چھپوانے پر اصرار اور وہی مرنے اور زخمی ہونے والوں کیلئے معاوضوں کے اعلانات اور مجرم آزاد کے آزاد۔لوگ پوچھتے ہیں کیا یہ سب کبھی بدلے گا؟ عمران خان نے مسلسل ایک ماہ دن رات جس طرح حکمرانوں کو للکارا‘ جس طرح کرپشن کے خلاف آواز بلند کی‘ جس طرح نئے پاکستان کا نقشہ کھینچا‘ جس طرح اشرافیہ کے گرد ٹیکس کا شکنجہ کسنے کی بات کی‘ جس طرح میرٹ کو اوپر رکھنے کا عزم کیا‘ جس طرح شہریوں کو ان کے بھولے ہوئے حقوق یاد کرائے‘ جس طرح لوگوں کے شعور کے دریچے کھولے‘ جس طرح عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے سیاستدانوں کی عیاشیاں بے نقاب کیں اور جس طرح سوئی ہوئی قوم کو جگانے کی کوشش کی‘ اس سے لوگوں میں عمران خان سے توقعات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ انہیں قائد اعظم اور ذوالفقار علی بھٹوکے بعد عمران خان کی شکل میں ایک ایسا مسیحا نظر آیا ہے جو نہ صرف اس ملک کو مسائل کے گرداب سے نکال سکتا ہے بلکہ اسے ترقی یافتہ ملکوں کے برابر کھڑا بھی کر سکتا ہے۔ ان کے خیال میں دور دور تک ایسا کوئی شخص دکھائی نہیں دیتا جو سٹیٹس کو کی قوتوں کو اتنے بے باک اور دلیرانہ طریقے سے چیلنج کر سکے اور جو ملک کے تمام طبقوں کیلئے قابل قبول بھی ہو۔ عمران خان کا مقابلہ پرانے پاپیوں سے ہے جو اپنے مخالف کو شکست دینے کیلئے خوفناک ترین قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔ لوٹ مار گروپ کی تجوری میں پولیس کے ذریعے عمران کو مرتضیٰ بھٹو کے انجام سے دوچار کرنے کا پلان بدستور موجود ہے‘ عمران خان کو نقل و حرکت میں اب کہیں زیادہ احتیاط کرنا ہو گی کیونکہ اس دھرنے کے بعد وہ ملک کی ایک بادشاہی اقلیت کیلئے دردِ سراور بہت بڑی اکثریت کیلئے آخری اُمید بن چکے ہیں۔