"ACH" (space) message & send to 7575

عمران خان کی اپنے خلاف سازش؟

کیا یہ سمجھتے ہیں‘ عمران خان کا دماغ چل گیا ہے کہ وہ ایم آئی سکس‘ امریکہ‘ ایران اور کینیڈا کی مدد سے اسی شاخ پر آرا چلا ئے گا جس پر وہ خود بیٹھا ہے۔ سبحان اللہ! کیا شاندار تھیوری ہے۔ ایک پل کو درست مان لیں کہ اگر یہ پلان کامیاب ہو جاتا‘ تو کیا ہوتا؟ یہ لوگ جتھوں کے ساتھ پارلیمنٹ‘ وزیراعظم ہائوس اور سپریم کورٹ پر قبضہ کر لیتے تو مارشل لا لگ جاتا۔ یہی ناں؟ آگے کیا ہوتا؟ یہی کہ خیبر پی کے کی حکومت ہاتھ سے جاتی اور اٹھارہ برس کی عزت بھی۔ پھر کپتان جمہوریت کی بحالی کیلئے دوبارہ سڑکوں پر ہوتا لیکن کیا آئندہ انتخابات میں کوئی ایک بھی ہوش مند اسے ووٹ دیتا؟کوئی اس کیساتھ کھڑا ہوتا؟
یہ دھرنے عالمی ایجنسیوں اور چند ممالک کی آشیر باد سے ہوئے تو کیا ماڈل ٹائون میں گولیاں مار کر چودہ لوگوں کو شہید اور نوے لوگوں کو زخمی بھی انہی عالمی ایجنسیوں نے کروایا؟ کیا بجلی کے حالیہ ہوش ربا بل بھی انہی ممالک نے بھجوائے؟ کیا سیلاب کے بند کینیڈا نے آ کر توڑے؟ کیا چار حلقے کھولنے سے برطانیہ نے منع کیا؟ کیا وزیراعلیٰ پنجاب کو مستعفی ہونے سے ایران نے روکا؟ اگر وہ سازش تھی تو پھر یہ سب کس نے‘ کس کے کہنے پر کیا؟ اس سے بہتر سازشی تھیوری تو چھٹی جماعت کا بچہ بنا سکتا ہے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ اگر فوج کی شان میں اضافہ نہیں کر سکتے تو بے توقیری کا حق انہیں کس نے دیا؟ وہ بھی اس مخصوص پلیٹ فارم کے ذریعے ‘عسکری قوتیں جس کا خاص نشانہ ہیں۔ 
لمحہ بھر کو مان لیا ‘ڈاکٹر قادری اس سازش کا مرکزی کردار تھے۔ تو کیا وہ اتنی سی بات بھی نہ سمجھتے تھے کہ اسلام آباد میں جتھے لے کر حکومت پلٹی جا سکتی ہے تو نون لیگ سے بہتر یہ کام اور کون کر سکتا ہے۔ اگر قادری صاحب کامیاب بھی ہو جاتے تو اگلی حکومت کو نون
لیگ کیسے چلنے دیتی؟ جن لوگوں نے گلو بٹ ایجاد کئے‘ جو تھانوں حتیٰ کہ سپریم کورٹ پر حملوںکے ماہر ہیں‘ ان کے لئے قومی عمارتوں پر حملے کر کے حکومت گرانا کون سا مشکل کام ہے۔ جس کھسیانی بلی نے یہ سازشی تھیوری بنائی‘ وہ اب کھمبا نوچے کیونکہ یہ حملہ بھی ناکام گیا۔
قوم جناب آصف زرداری کے ''احسانات‘‘ کا بوجھ نہیں اٹھا پائی‘ کہ اب شہزادہ بھی میدان میں کود پڑا ہے۔ بلاول کے سیلابی دورے کے سکرپٹ میں مسکرانے کا کہیں ذکر نہ تھا۔ تاہم بلاول کو دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا کہ وہاں سیلاب نہیں آیا بلکہ معدنیات کے خزانے پھوٹ پڑے ہیں ۔ جبھی تو ان خزانوں کی چمک بلاول کے دانتوں میں صاف دکھائی دے رہی تھی۔ باقی ایکٹنگ شاندار تھی۔ خاص طور پر چار لوگوں نے جس طرح انہیں ڈیڑھ فٹ ''گہرے ‘‘پانی میں اتارنے کیلئے سہارا دیا‘ اسے دیکھ کر دلہنیں بھی شرما گئی ہوں گی۔ 
حکمران جماعت کو داد دینا ہو گی کہ یہ ایسے اعلانات کرتی ہے جن سے خبر تو بڑی بن جاتی ہے لیکن اس کے اثرات نیچے تک نہیں پہنچ پاتے۔ حضور ‘سرکاری ملازمتوں سے پابندیاں ہٹ بھی جائیں تو یہ ملیں گی کن کو؟ شریف خاندان کے امیدواروں سے بچ بھی گئیں تو وہی لوگ اہل ہوں گے جن کے پاس پرویز رشید‘ زعیم قادری اور خواجہ سعد رفیق کی چٹ موجود ہو گی۔عابد شیر علی فرماتے ہیں دھرنے والے سستی بجلی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ان سے کوئی پوچھے ‘سستی بجلی تو کالا باغ ڈیم سے مل سکتی ہے تو کیا دھرنا کالا باغ ڈیم کے خلاف
ہو رہا ہے ؟ کیا ڈیم ڈی چوک پر بننا ہے؟
چلو اس کا ہی جواب دے دیں کہ دھرنے والے سیلاب متاثرین کو بھول کر جشن منا رہے ہیں تو وزیراعظم امریکہ کس نیک مقصد کیلئے سدھار رہے ہیں؟ سیون سٹار ہوٹل میں اسی لاکھ روپے یومیہ خرچ صرف اس لئے تاکہ دو منٹ کی رسمی تقریر کی جا سکے؟ اس چار کروڑسے چار سو سیلاب متاثرین کے گھر آباد ہو سکتے تھے تو پھر اس نمائشی دورے کی کیا ضرورت؟برطانیہ کا وزیراعظم امریکہ جا کر وہاں برطانوی سفارت خانے میں رہ سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں؟
میں نے گورنر سرورکا لندن کا پانچ مرلے کا فلیٹ بھی دیکھا ہے اور گلاسگو میں دو کنال کا گھر بھی۔ اسی لئے میں نے انہیں گورنر بننے کے بعد مشورہ دیا تھا کہ اگر آپ لٹمس ٹیسٹ کے طور پر حکمران جماعت کے سامنے ایک شرط رکھ دیتے کہ میں گورنر تب بنوں گا جب آپ گورنر ہائوس کی زمین نیلام کریں گے اور میں خود اس کیلئے یورپ سے سرمایہ کار لائوں گا جو یہاں عالمی معیار کے ہوٹل‘ فن لینڈ اور یونیورسٹی وغیرہ بنائیں گے تاکہ حاصل ہونے والے کھربوں روپوں سے ملک کے قرضے اتارے جا سکیں تو اس سے حکمرانوں کی نیک نیتی کا اسی روز پتہ چل جاتا۔ یوں گورنر صاحب خود جی او آر میں چار کنال میں رہ لیتے لیکن ملک کی تاریخ میں اپنا نام تو لکھوالیتے ۔ ایسا کر لیتے تو آنکھیں تبھی کھل جاتیں اور پندرہ ماہ کرب برداشت نہ کرنا پڑتا۔
لوگ پوچھتے ہیں ‘ ایک صحافی کتنی دیر تک سچائی کا دفاع کر سکتا ہے۔ اگر کسی کو اسلام آباد کے ایک پرفضا مقام پر ریستوان بنانے کیلئے اربوں روپے کی زمین مفت مل جائے‘ یا شریف برادران کی امیج بلڈنگ کی خاطر ایڈورٹائزنگ ایجنسی بنانے کیلئے چار کروڑ مل جائیں یا پھر ایک کروڑ نقد اور ایک قیمتی گاڑی دے کر یہ کہا جائے کہ اب آپ کل سے دھرنوں میں کیڑے نکالیں گے تو ایک صحافی کیا کرے گا؟ پہلے سے موجود کروڑوں کے بینک بیلنس میں اضافہ یا حرف انکار؟ موقع پرستی یا پھر قلم کی حرمت کا خیال؟ ایک راستہ صحافت کی شان بڑھاتا ہے اور دوسرا صحافی کو حرف غلط کی طرح مٹا دیتا ہے۔یہ فیصلہ اب صحافی کو کرنا ہے ‘ اس نے قاری کی آنکھوں میں دُھول جھونکنی ہے یا اپنی عزت بچانی ہے۔
افسوس ان پر بھی ہے جو لوگ اور پارٹیاں برسوں سے کسی نہ کسی شکل میں نظام کی بہتری اور تبدیلی کی جدوجہد کر رہی تھیں، وہ بھی دم سادھے بیٹھی ہیں۔ وقت نے ثابت کیا جب کوئی بڑی تحریک شروع ہوتی ہے تو اسی طرح ایک شخص اٹھتا ہے۔آہستہ آہستہ اس کی سمت متعین ہوتی ہے۔ پھر لوگ ہمت اور حوصلہ پا کر اس کے ساتھ ملتے چلے جاتے ہیں اور یوں کارواں بن جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں ہمیں عمران خان کی نوے فیصد باتوں سے اتفاق ہے لیکن بعض اوقات وہ جو لہجہ اختیار کرتے ہیں وہ ہمیں پسند نہیں۔ میں نے کہا تو اس میں مسئلہ کیا ہے۔ آپ ایک گروپ بنا کر عمران سے مل لیں اور انہیں قائل کریں کہ بہت بڑی پڑھی لکھی کلاس صرف اس بنا پر آپ کے ساتھ چلنے کو ہچکچا رہی کہ آپ مولانا فضل الرحمن اور دیگر کا مذاق اڑاتے ہیں۔ آپ خان صاحب کو سمجھا سکتے ہیں کہ وہ جس قرآن کی آیات کا ترجمہ سناتے ہیں‘ اسی قرآن میں لکھا ہے کہ دوسروں کو برے القابات سے مت پکارو‘ تو کیا وہ آپ کی بات نہیں سمجھیں گے؟ آپ انہیں بتائیں کہ مولانا فضل الرحمن آپ پر جو بھی الزام لگائیں لیکن آپ جیسی شخصیت کو اسی انداز میں جواب دینا سوٹ نہیں کرتا تو کیا عمران قائل نہیں ہوں گے؟ کیا درگزر کرنے سے عمران کا قد مزید بڑھ نہیں جائے گا؟ آخر لوگوں نے سب کچھ عمران پر کیوں چھوڑ رکھا ہے؟ وہ گوشت پوست کا بنا انسان ہے۔ اگر اس سے کوئی غلطی ہوتی ہے تو یہ آگے بڑھ کر اسے گائیڈ کیوں نہیں کرتے؟کیوں معجزے کے انتظار میں بیٹھے ہیں؟
مجھے کسی نے پوچھا اگر دھرنوں کے پیچھے سے واقعی سازشی پلان نکل آیا تو پھر؟ میں نے کہا پھر ہمارے جوتے ہوں گے اور ان کا سر۔ نہ ہم ان کے مقلد ہیں نہ یہ ہمارے بادشاہ اور اگر عمران خان اس سازش میں کہیں دانستہ شریک نظر آئے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ نواز لیگ یا پیپلزپارٹی مقدس ثابت ہو جائیں گے۔ ان پر تو عوام ترچھی لکیر کھینچ چکے۔البتہ عمران خان نے جس طرح لوگوں کی سوچ تبدیل کی‘ انہیں جگایا‘ اس سے بڑی کامیابی اور کوئی نہیں ہو سکتی اور اس کے اثرات آئندہ الیکشن میں واضح طور پر نظر بھی آ جائیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں