جس فوج کی وجہ سے ہم رات کو چین کی نیند سوتے ہیں‘ اس فوج کو پارلیمنٹ میں نشانہ بنایا گیا تو وزیراعظم ڈیسک بجاتے رہے اور ساری کی ساری شاہی کابینہ خود کو محب وطن‘ آئین اور جمہوریت کا ٹھیکیدار گردانتی رہی ۔ ایک واقعہ سن لیں اور خود فیصلہ کر لیں کہ محب وطن کون ہے اور مادر ِ وطن کی بوٹیاں نوچنے والا کون؟
گزشتہ دنوں جن چھ کور کمانڈرز کی ریٹائرمنٹ کا اعلان ہوا‘ ان میں سے ایک پشاور کے لیفٹیننٹ جنرل خالد ربانی تھے۔ این ڈی یو میں ایک حالیہ تقریب میں انہوںنے ایک واقعہ سنایا۔ کہنے لگے‘ ایک دھماکے میں ایک فوجی جوان کی دونوں ٹانگیں اڑ گئیں‘ بازوبھی تن سے جدا ہو گئے ‘ یہی نہیں بلکہ دونوں آنکھیں بھی ضائع ہو گئیں۔ کہتے ہیں جب میں اس جوان سے ملنے گیا تو میں نے اسے سلام کیا اور پوچھا کیا حال ہے تو معلوم ہے اس نے کیا جواب دیا؟ اس نے کہا '' الحمدللہ سر‘ بالکل خیریت سے ہوں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے جنرل ربانی کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ جی ہاں!نہ بازو‘ نہ ٹانگیں‘ نہ آنکھوں میں بینائی‘ پھربھی صابر و شاکر اور دوسری طرف وہ جو 99ء میں فوج کو فتح کرنے کے چکر میں جیل پہنچے تو تیسرے دن مچھروں سے تنگ آ کر ڈیل کی بھیک مانگنے لگے۔ کیا قربانیاں دی ہیں انہوں نے ؟ یہی کہ ایک شوگر مل سے چار شوگر ملیں‘ ایک سٹیل مل سے چار سٹیل ملیں ‘ ایک پولٹری فارم سے دو سو کنٹرول شیڈ‘ ایک کروڑ کے گھر سے لندن کے آٹھ آٹھ سو کروڑ کے محل؟
بجلی کے بلوں پر چیخیں تو نکلنی ہی تھیں کہ ہمارے شاہی خاندان کے امریکہ میں والڈوف ایسٹوریا ہوٹل کا بل کہاں سے ادا ہوتا۔ پرویز رشید کہتے ہیں یہ پروپیگنڈا ہے تو پھر یہ جہاں بھی ٹھہرے‘ جو بھی خرچ ہوا اس کے بلوں کی کاپی کیوں جاری نہیں کر دیتے۔ اگر یہ ایسا نہیں کرتے تو پھر یہ بتا دیں کہ 21اگست کو منسٹری آف فارن افیئرز کی طرف سے دورے کیلئے چار لاکھ ڈالرز کے اجرا کا جو حکم نامہ جاری ہوا اور جس کا نمبرP(A&A)-4/I/2014ہے ‘ وہ رقم کہاں خرچ ہوئی؟ عوام کو اتنا تو بتا دیں کہ بھارتی وزیراعظم پچاس ہزار والے کمرے میں سو سکتا ہے ‘تو ہمارے وزیراعظم کو آٹھ لاکھ روپے سے کم والے کمرے میں نیند کیوں نہیں آتی؟ اب کہاں گیا سیلاب؟ کہاں گئے آئی ڈی پیز؟ کہاں گئے مگرمچھ کے آنسو؟
میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا اگر لوگوں کو اعتراض ہے کہ عمران خان اپنی تقریروں میں کسی کو اوئے کہہ کر مخاطب کرتے ہیںتو کچھ لوگ گروپ کی شکل میں جا کر انہیں مل لیں اور سمجھائیں کہ اگر وہ احتیاط کریں تو بہت بڑی پڑھی لکھی کلاس ان کے ساتھ آ ملے گی۔ مجھے دو ڈاکٹرز کی ای میل آئی کہ ہم عمران کو ملیں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ عمران سے ملے یا نہیں لیکن اتوار کو مینار پاکستان کے عالیشان جلسے میں لوگوں نے عمران میں بڑی تبدیلی محسوس کی۔ جلسے کے شرکا نے جب ڈیزل ڈیزل کے نعرے لگائے تو ان کا خیال تھا عمران اب فضل الرحمن کو رگڑا لگائیں گے لیکن عمران خان نے انکار کر کے حیران کر دیا اور کہا ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ حقیقی جمہوریت میں نہ صرف لیڈر عوام کی سمت متعین کرتے ہیں بلکہ عوام بھی اپنے لیڈر کی اصلاح کر سکتے ہیں اور بہترین لیڈر وہی ہوتا ہے جو عوام کی بات سنے‘ سمجھے اور اس پر عمل کرے۔ کیا آپ اس طرز عمل کی توقع شاہی برادران سے کر سکتے ہیں؟
لوگ تحریک انصاف کیلئے فیس سیونگ کی بات کرتے ہیں‘ میں کہتا ہوں فیس سیونگ کی ضرورت ان کو ہے جن کے ہمسایہ ملک میں تو خاتون وزیراعلیٰ کو چھیاسٹھ کروڑ کے ناجائز اثاثوں پر چار سال کیلئے جیل بھیج دیا جائے اور یہ اربوں کی کرپشن اور چودہ بندے مار کر بھی حاکم بنے رہیں۔ فیس سیونگ تو انہیں چاہیے جن کا ہمسایہ مریخ پر پہنچ چکا مگر یہ میٹرو بسوں میں سینگ پھنسائے بیٹھے ہیں۔ فیس سیونگ تو انہیں چاہیے جو 70ارب کی اوور بلنگ کریں اور ان کے عوام بل نہ دے سکنے پر خودکشیاں کر رہے ہوں۔ فیس سیونگ تو انہیں چاہیے جو سعودی عرب سے جلاوطنی کا معاہدہ نہ کرنے کا مسلسل جھوٹ پارلیمنٹ میں بھی بولتے رہیں لیکن جب شہزادہ المکرم وہ تحریری معاہدہ پاکستان آ کر سب کو دکھا دیں تو یہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگیں۔ فیس سیونگ تو انہیں چاہیے جنہوں نے طارق ملک کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے کر صرف اس وجہ سے جلا وطن کر دیا کیونکہ اس نے تین ماہ میں ساڑھے چار کروڑ ووٹوں کی تصدیق کا سسٹم تیار کر لیا تھا۔فیس سیونگ تو انہیں چاہیے جن پر گونواز گو کے نعرے لگ رہے ہیں اور جو ڈھٹائی کی بلندیوں پر بیٹھے ہیں۔ بندہ پوچھے ‘ عمران خان کو فیس سیونگ چاہیے ہوتی تو اس کا دماغ خراب تھا کہ وہ پورے ملک میں جلسے پھیلانے کا اعلان کرتا؟ وہ ان کی طرح لندن یا سعودی عرب فرار نہ ہو جاتا؟
میں لوگوں پر حیران ہوں وہ تبدیلی کا حصہ بننے کی بجائے ریموٹ ہاتھ میں تھامے اس انتظار میں ہیں کہ دھرنوں کا انجام کیا ہو گا۔ سچ تو یہ ہے کہ عمران خان آج دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیں اور کوئی بھی مطالبہ منوائے بغیر واپس آ جائیں تو بھی انہیں ناکام نہیں کہا جا سکتا کیونکہ لوگوں کو اب شعور آنا شروع ہو گیا ہے اور کسی کو اس کے حقوق پتہ چل جائیں تو اس سے بڑی کامیابی اور ہو نہیں سکتی۔
لوگ کہتے ہیں جمہوریت کو چلنے دینا چاہیے‘ جیسی بھی چل رہی ہے۔ میں نے کہا سلسلہ ایسے چلتا رہا تو پھرآج جس کی تنخواہ پندرہ ہزار ہے اس کو چند ماہ بعد بل بھی پندرہ ہزار ہی آئے گا۔ تب وہ سوچے گا کہ خودکشی کرنے کیلئے پٹرول کہاں سے لائوں۔ اللہ کے بندو‘ عقل کو ہاتھ مارو۔ ہمارے گھر کسی نوکر سے سو روپے کا گلاس ٹوٹ جائے تو ہم اسے دو تھپڑ لگا کر نوکری سے نکال دیتے ہیں لیکن خواجہ آصف کی وزارت میں قوم کے 70ارب روپے پر ڈاکہ مارا گیا اور یہ سب دندیاں نکال رہے ہیں۔ کیا یہ 70ارب اپنے ساتھ جہیز میں لائے تھے؟
پی ٹی آئی کی ایک اہم شخصیت کا فون آیا۔ تعارف اور تحسین کے بعد کہنے لگے ‘ آپ اسلام آباد آئیں تو ملاقات کا شرف دیں۔ میں نے کہا‘ مجھے خود سے اور اپنے لیڈروں سے دور ہی رکھئے‘ آپ اپنا کام کریں‘مجھے اپنا کرنے دیں۔ میں آپ کی اچھی باتوں کی حمایت اس لئے نہیں کر رہا کہ آپ کی حکومت آئے اور مجھے پاکستان ریلوے کا پی آر او ‘ہلال احمر کا چیئرمین ‘ وزیراعظم کا معتمد خاص‘ لاہور کو خوبصورت بنانے کیلئے خصوصی معاون یا پی ٹی وی میں نوکر ی دلوا دے۔ ہاں البتہ میں یہ سب اپنے بچوں کی نوکری کیلئے ضرور کر رہا ہوں لیکن میں یہ نوکری تحریک انصاف سے نہیں بلکہ اس نظام سے حاصل کرنا چاہوں گا جس نظام کا خواب ہر پاکستانی اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھا ہے۔ اگر آپ کوئی احسان کر سکتے ہیں تو ایک کام کر دیں۔آپ اپنی جماعت کو شخصیات کے سحر سے آزاد کر دیں‘جب بھی آپ کو مرکز میں حکومت ملے‘آپ ہر ادارے میں ایک ایک عمران خان بٹھا دیں‘ یوں سسٹم بھی تبدیل ہو جائے گا‘ تبدیلی بھی آ جائے گی اور نیا پاکستان بھی بن جائے گا!
پس تحریر:اگر تحریک انصاف دھاندلی پر کسی جوڈیشل کمیشن پر راضی ہو جاتی ہے تو اسے سابق چیئرمین نادرا طارق ملک کی واپسی کو اس سارے عمل سے مشروط کرناہو گا اور اگر حکومت اس معاملے میں ذرا سی بھی شرمندہ اور سنجیدہ ہے تو اسے طارق ملک کو واپس بلا کر وہیں سے کام کرنے کی آزادی دینا ہو گی جہاں سے انہیں روکا گیا تھا اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر اس کمیشن کا ککھ فائدہ نہیں ہو گا‘ سب کہانیاں ہوں گی یا دل لگی۔