اسے شرمناک کہیں ‘ڈھٹائی کی انتہا یا مکافات عمل کہ تین سال قبل اکتوبر میں جو لوگ منتخب صدر کے خلاف گو زرداری گو کی تحریک چلا رہے تھے ‘ آج جب ان کے اپنے خلاف ویسے ہی نعرے لگ رہے ہیں تو انہیں مرچیں لگنا شروع ہو گئی ہیں۔کیا یہ عوام کو پاگل سمجھتے ہیں کہ تین سال قبل جو نعرہ نون لیگ کیلئے حلال تھا‘ وہ تحریک انصاف کیلئے حرام ہو گیا۔ یہ بادشاہت نہیں تو اور کیا ہے کہ گونواز گو کے نعرے لگانے پرلیگی ایم پی اے سیلاب زدگان کو مارنے کو دوڑتا ہے ‘ مریم نواز اسے شاباش دیتی ہیں‘ ملتان میں میڈیکل کے طالبعلم کا گلا گھونٹا جاتا ہے اور گجرات میں پانچ افراد کے خلاف گو نواز گو کی وال چاکنگ پر مقدمات درج کر لئے جاتے ہیں۔ اگر گو نواز گو کہنے یا لکھنے پر مقدمات درج ہونے چاہئیں تو پھر ان لوگوں کے خلاف بھی درج کریں جنہوں نے اکتوبر 2011ء میں حکومت مخالف تحریک شروع کی اور جناب شہباز شریف نے توگو زرداری گوتحریک ملک بھر میں پھیلانے کااعلان کیا تھا۔ اس تحریک کا پہلا میدان ڈی جی خان میں سجا تھا۔ جس میں میاں نواز شریف بھی شریک ہوئے تھے ۔ اسی تحریک کے تحت لاہورمیں چھبیس نومبرکوبڑی ریلی نکالی گئی اور چار دسمبر کو فیصل آباد میں بڑا احتجاج ہوا۔چوہدری نثار نے تویہاں تک کہا تھا کہ یہ پیپلزپارٹی بھٹو خاندان کی نہیں، زرداری کی ہے ، جو ملک بیچ دے گا، قوم ملک بچانے کیلئے اٹھ کھڑی ہو۔مزید فرمایا تھا کہ زرداری صاحب کی بداعمالیاں اور بے کرداریاں مشرف سے بھی کہیں زیادہ ہیں تو چودھری صاحب‘ اگر ایسا ہی تھا تو پھر آپ نے زرداری صاحب کو چھوڑ کر پرویز مشرف کو کیوں نشانے پر رکھ لیا‘ زرداری صاحب کی بد اعمالیاں زیادہ تھیں تو پھر آج آپ اپنے محلات میں اُن کی چالیس چالیس ڈشوں سے تواضع کیوں کر رہے ہیں؟ اسی لئے کہ انہوں نے ملک لُوٹا ہے؟ اگر آج زرداری صاحب سے جپھیاں ہی ڈالنا تھیں تو پھر اس وقت قوم کو نورا کشتی کے ذریعے بیوقوف کیوں بنایا؟کیا عمران خان کا قصور یہی ہے کہ وہ منافقت کے پردے چاک کر رہا ہے؟
کیا حکمران روٹی کو چوچی کہتے ہیں‘ وہ اتنے سادہ ہیں کہ انہیں اب پتہ چلا ہے‘ اس ملک میں گھروں میں ایک سے زائد میٹر لگے ہوئے ہیں اور یہ حکمرانوں کو تب پتہ چلا جب عمران خان کے زمان پارک والے گھر سے تین میٹر برآمد ہوئے ۔ میرے ساتھ چلیں‘ میں آپ کو صرف لاہور شہر کے ہر تیسرے گھر میں دو‘ دو چار چار میٹر لگے دکھا سکتا ہوں ‘ایسے کارخانے‘ ایسی کوٹھیاں بھی دکھا سکتا ہوں جہاں ایک بھی میٹر نہیں لگا ہوا لیکن کام چل رہا ہے۔ یہ کام کیسے چل رہا ہے کیا حکومت کو معلوم نہیں؟ میرے ایک نون لیگی دوست کے گھر بھی دو میٹر لگے ہیں۔ میں نے ان کے سامنے معاملہ رکھا تو بولے۔ وہ تو پہلے کے لگے ہیں‘ ہم تو اس گھر میں اب آئے ہیں۔ ماشا اللہ ‘کیا دلیل ہے۔ میں نے کہا ‘عمران خان ایسی کوئی دلیل دے تو قبول کریں گے؟ یاد رہے کہ یہ وہی نون لیگ کے عاشق ہیں جن کے گھر کے بل میں تین ماہ سے مسلسل بقایا جات لگ کر آ رہے تھے اور وہ کوشش کے باوجود درست نہیں کرا سکے تھے۔ کل بتا رہے تھے اب چوتھے ماہ پھر بقایا جات لگ کر آ گئے ہیں۔ میں نے کہا اور دیں نون لیگ کو ووٹ ۔ تو موصوف کا جواب وہی تھا۔ بیٹا ادارے تو کوئی بھی ٹھیک نہیں کر سکتا۔ میں نے کہا ادارے نہیں ٹھیک کرنے تو پھر گنے چوسنے آتے ہیں حکومت میں؟
کیا لوگ بھول گئے کہ گزشتہ برس بجلی چوروں کے خلاف بڑی تیزی سے جو کریک ڈائون مہم شروع کی گئی‘ اس کی ہوا کیوں نکل گئی تھی؟ ہر دوسرے کارخانے کا مالک نون لیگی نکلتا تھا‘ چنانچہ حکمرانوں کو لینے کے دینے پڑ گئے کیونکہ یہی لوگ الیکشن مہم میں پیسہ لگاتے تھے اور انہی کے خلاف ایکشن شروع ہو گیا تھا۔ عابد شیر علی نے کرپٹ ایس ڈی اوز اور ایکسیئنز کے نام واپڈا دفاتر میں آویزاں کرنے کا اعلان کیا تھا تو بھائی کہاں ہیں وہ نام اور لسٹ ؟ ہمیں بھی تو بتائو۔ نہیں پتہ تو مجھ سے سن لو۔ این ٹی ڈی سی میں ہر دوسرا افسر نجی کمپنی بنا کر مال بنا رہا ہے لیکن یہ کرپٹ انہیں کیوں نظر آئیں گے۔ہاں اگر کسی ایس ڈی او کا تعلق تحریک انصاف سے نکل آیا تو اسے ضرور قابو کر لیں گے۔ ان کے اپنے بندے چاہے کیمروںکے سامنے تھانوں سے اپنے ارکان اسمبلی کو چھڑا لیں لیکن تحریک انصاف یا عام آدمی کے گھر دو میٹر نظر آ جائیں‘ تو ان کا میٹر گھوم جائے گا اور یہ اس پر ایٹم بم گرانے کو بھی تیار ہو جائیں گے۔
ساری باتیں چھوڑیں‘ یہ بتائیں کہ فیصل آباد میں گورنر سرور سے جو طالبعلم ملنا چاہتا تھا‘ وہ تو گو نواز گو کے نعرے نہیں لگا رہا تھا‘ اس پر کیوں تشدد کیا گیا؟ یہی گورنر سرور جب برطانیہ میں تھے تو انہیں کوئی خطرہ نہیں تھا‘ یہاں یہ تقریب میں شریک تھے تو پوری یونیورسٹی بند کرا دی حتیٰ کہ اس کے اندر موجود بینک بھی جہاں اس بے چارے نے داخلہ فارم جمع کرانے تھے اور اسے گھسنے نہیں دیا جا رہا تھا۔ حکومت تو یہاں گونواز گو کے نعروں سے پریشان ہو رہی تھی لیکن اب گونواز گو کی بازگشت امریکی صدور تک پہنچ گئی ہے۔ وزیراعظم اور ان کے شاہی قافلے کے والڈوف ایسٹوریا ہوٹل میں قیام کا واحد مقصد یہی تھا کہ امریکی صدر کے ساتھ تصویر کھنچوا سکیں ۔اس کے لئے اوباما صاحب کو درخواست بھی بھیجی گئی جس پر اوباما نے انکار کر دیا ‘ دوسرے لفظوں میں کہہ دیا'گو نواز گو‘۔
وزیرآباد میں سیلاب زدگان پر حملہ کرنے والے ایم پی اے توفیق بٹ توتلی زبان میں فرماتے ہیں کہ ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں۔ ہماری جماعت پاکستان کے قیام میں شریک رہی ہے۔ ماشااللہ۔ یعنی توفیق بٹ صاحب کے مطابق پاکستان 1985ء میں بنا تھا۔ کیونکہ مسلم لیگ نون تو تبھی بنی تھی اور اگر اسے پاکستان سے منسوب کرنا تھا تو پھر مسلم لیگ کے ساتھ قائد اعظم ہی لگا لیتے‘ نون کیوں لگایا؟ کیا محمد علی جناح یا قائد اعظم کا نام نون سے شروع ہوتا ہے؟ قائداعظم اور مسلم لیگ کا نام بیچ کر خود یہ لوگ ارب پتی بن گئے اور محمد اسلم جناح جو غالباً قائد اعظم کا قریب ترین رشتہ دار ہے ‘ کراچی میں مفلسی کا زہر پی رہا ہے۔ اس کی بیوی کینسر کی مریضہ اور بیٹی ذہنی معذور ہے ۔ انہیں مالک مکان نے فلیٹ خالی کرنے کا نوٹس دے دیا ہے۔ یہ فیملی اگر قائداعظم کی بہت قریبی نہ بھی ہو ‘ تب بھی یہ اس ملک کا آئینہ اور حکمرانوں اور اشرافیہ کے منہ پر طمانچہ ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ اس کی بیوی کا فوری طور پر کینسر کا علاج کرائیں۔ ملک ریاض انہیں چھوٹا سا گھر لے دیں ‘ کوئی ادارہ اس کی ذہنی معذور بیٹی کی پرورش کا ذمہ لے لے ۔کسی اور کے سینے میں دل ہے تو اسلم جناح کو باعزت روزگار دلا دے اور براہ کرم اس خاندان کی اجتماعی خودکشی کا انتظار نہ کیا جائے ۔ ان کی لاشوں کی قیمت لگانا بہادری نہیں بلکہ اصل بہادری زندگی میں ان کے کام آنا ہے۔
لوگ کہتے ہیں پچاس دن کے دھرنے سے عمران نے کیا پایا۔ میں کہتا ہوں اس نے کھویا کیا؟ مجھے برطانیہ سے لے کر امریکہ تک کے اوورسیز پاکستانیوں کے فون آئے۔ ان کا کہنا تھا عمران نے ہمارے بچوں کو جو سیاست کے نام سے چڑتے تھے‘ ایک نئی تحریک دے دی۔ انہیں عمران اور دیگر روایتی لیڈروں میں ایک واضح فرق یہ نظر آیا ہے کہ عمران غلطی کرتا ہے تو اسے تسلیم کرتا ہے لیکن دوسرے سیاستدان غلطی کرتے ہیں تو اس پر اصرار بھی کرتے ہیں اور یہی ان کی تباہی کی اصل وجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں اس ملک میں اگر آپ کسی سے کہیں کہ اس نے کچھ نہیں کرنا ‘ اسے دس مربع زمین مل جائے گی اور اسے بس کھانا پینا اور موجیں اڑانی ہیں ‘ تو نوے فیصد لوگ اس پر تیار ہو جائیں گے۔ لیکن عمران خان جو گھر بیٹھے اربوں کما سکتا ہے‘ لوگوں کو ان کے حقوق کا شعور دلانے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ اس کی یہی ادا سب کا دل لبھا گئی ہے۔
خدا جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت سے نوازتا ہے۔ لندن پلان کا الزام لگانے والے کل بھی امریکہ اور عرب ممالک کے آستانے پر جھکتے تھے‘ آج بھی مشکل میں انہی سے مدد مانگتے ہیں اور عمران خان جس نے 1996ء کی پہلی تقریر کا آغاز ''ایاک نعبدُ و ایاک نستعین‘‘ سے کیا تھا‘ آج اٹھارہ برس بعد بھی اپنے خطاب کا آغاز انہی مبارک الفاظ سے کر رہا ہے کہ اے اللہ ‘ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں توقوم ایسے لیڈر پر کیوں فخر نہ کرے ؟