عمران خان نے تو سکول کے ننھے بچوں کو بھی جگا دیا ہے۔
میرا بھتیجا چوتھی جماعت میں پڑھتا ہے۔ چند روز قبل سکول میں اس نے اپنی کلاس کو جمع کیا ‘ کرسی پر کھڑا ہوا اور ایک ''تاریخی خطاب‘‘ کھڑکا دیا۔ہوا یوں کہ کافی دنوں سے سکول کی کمپیوٹر ٹیچر چوتھی جماعت کو زیادہ وقت نہیں دے رہی تھی‘ نہ ہی بچوں کو پریکٹس کیلئے زیادہ دیر کمپیوٹر پر بیٹھنے کا موقع دیا جاتا۔ اس سے خائف ہو کر عبداللہ نعیم نے عمران خان بننے کا فیصلہ کیا۔ دس پندرہ بچوں کو اکٹھا کیا اور تقریر جھاڑ دی جس کا متن کچھ یوں تھا۔ '' ہم یہاں اس لئے جمع ہوئے ہیں تاکہ سب کو یہ بتا سکیں کہ ہم یہ ظلم زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمارے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔ نہ ہمیں کمپیوٹر ملتا ہے نہ کمپیوٹر ٹیچر۔ جائیں تو کہاں جائیں۔ کیا ہم سکول اس لئے آتے ہیں کہ انتظار کرتے رہیں کہ کب ہمیں کمپیوٹر استعمال کرنے کو ملے گا؟ کیا ہم دوسروں سے کم فیس دیتے ہیں؟ کیا پیچھے رہ کر ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کر سکیں گے؟ ہم بچے ہیں تو کیا ہوا ۔ جب تک ہمیں ہمارا حق نہیں ملے گا ہم یہاں سے نہیں اٹھیں گے‘‘ یہ کہہ کر عبداللہ صاحب نے اپنی ڈھیلی پتلون مزید اوپر کی اور گو ٹیچر گو کا نعرہ بلند کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دیگر بچے بھی شرارتاً اور ارادتاً شریک ہو گئے اور کچھ ہی دیر میں ہر طرف گو ٹیچر گو کی صدائیں گونجنے لگیں۔ پرنسپل کو معاملے کا نوٹس لینا پڑا۔ ٹیچر کے خلاف انکوائری ہوئی تو چھوٹی کلاسوں کے بچے پھٹ پڑے جس پر متعلقہ ٹیچر کو تنبیہ کی گئی جبکہ احتجاجی بچوں کو معمولی جرمانے کا نوٹس بھیجا گیاکہ انہوں نے احتجاج کیوں کیا۔اس واقعے نے ثابت کردیا‘ آج کا بچہ بھی جاگ اٹھا ہے اور اسے اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے کی یہ طاقت اور جذبہ عمران خان نے دیا ہے۔
اُدھر ہمارے وزیراعظم فرماتے ہیں عوام نے حکومت کو پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے‘لہٰذا کوئی ان سے نہ پوچھے کہ بجلی کے بلوں پر ستر ارب کا ڈاکہ کیوں مارا گیا؟ کوئی ان سے نہ پوچھے کہ انہوں نے ڈیڑھ برس میں عوام کیلئے کیا کیا؟ ووٹوں کی جگہ ڈبوں میں ردی کیوں بھردی؟ بس ان کے بھاشن سنتے رہیں کہ انہیں پانچ سال کیلئے حکومت مل گئی ہے لہٰذا ان کا حق بنتا ہے کہ عوام کا گلا گھونٹ دیں یا انہیں سسک سسک کر مرنے پر مجبور کریں۔ کوئی ان سے نہ پوچھے کہ ان کا لیڈر احسن اقبال صرف اٹھارہ ہزار سالانہ ٹیکس کیوں دیتا ہے؟ کوئی نہ پوچھے انہوں نے سارے عہدے خاندان میں کیوں بانٹ دئیے ہیں۔ یہ ماڈل ٹائون میں رکاوٹیں ہٹانے پر جتنے مرضی بندے مار دیں‘ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھائے کہ یہ سارے سوال ان سے اب نہیں ہو سکتے کیونکہ انہیں مینڈیٹ مل چکا ہے اور جسے یہ مل جائے اسے سات خون (مثال کیلئے دیکھئے سانحہ ماڈل ٹائون)بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ملتان سانحے میں ڈی سی او نے فرمایا کہ ہم جلسہ کے شرکا پر پانی نہ پھینکتے تو زیادہ اموات ہو جاتیں۔ شکر ہے انہوں نے ان لوگوںپر جلیانوالہ باغ کی طرح براہ راست گولیاں نہیں چلا دیں ۔ اگر یہ ایسا بھی کر دیتے تو کوئی ان کا کیا کر لیتا ۔ تب بھی انہوں نے ایسا کوئی جواز گھڑ لینا تھا کہ ہم نے انہیں گولیاں اس لئے ماریں تاکہ انہیں دم گھٹنے کی اذیت ناک موت سے بچایا جا سکے۔
جاوید ہاشمی اور جن لوگوں نے تحریک انصاف پر ایم آئی سکس اور دیگر ممالک کی پشت پناہی کا الزام لگایا‘ آج ان کی وقعت صفر ہو چکی ہے۔ مجھے تو آج تک ہاشمی صاحب کی بغاوت کی سمجھ نہیں آئی۔ بغاوت تو یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنی پارٹی میں رہتے ہوئے بغاوت کا علم بلند کریں۔ ہاشمی صاحب کو آج تک یہ نظر کیوں نہ آیا کہ شریف برادران کس طرح پیسہ بنا رہے ہیں اور کس طرح بیرون ملک بھیج رہے ہیں۔ یہ بچے بچے کو پتہ ہے لیکن ہاشمی صاحب کو نظر نہ آیا۔ بغاوت کرنی تھی تو رائے ونڈ محل کے سامنے بیٹھتے اور شریف برادران سے پوچھتے کہ انہوں نے یہ محل کیسے بنایا۔ کیسے اردگرد ہزاروں ایکٹر زمینیں چھینیں۔ کیسے اپنے محل تک سڑک بنوائی۔ کیسے بعد میں زمینیں مہنگی ہونے پر بیچیں۔ یہ سارا پیسہ کدھر گیا۔ کبھی پوچھا باغی صاحب نے اُن سے؟جس طرح وہ باغی بنے ہوئے ہیں اس طرح تو منظور وٹو بھی باغی ہیں جو اب تک چھ جماعتیں بدل چکے‘ اس طرح تو ہر لوٹا باغی کہلائے گاجو ناراضی یا اچھی قیمت لگنے پر دوسری پارٹی میں چلا جاتا ہے۔
پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے لیڈر جلسوں میں اُلٹا بھی لٹک جائیں‘ اپنے جسموں سے تلواریں آر پار کر لیں یا منہ میں پٹرول بھر کر آگ نکال لیں‘ لوگوں کو مزید بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ بلاول بھٹو کا جلسہ سیاسی کم ‘ کامیڈی شو زیادہ لگ رہا تھا۔ وہی گھسی پٹی تقریریں اور وہی بیزار چہرے گزشتہ پانچ برس جو ملک کو نوچتے رہے‘ اب انہیں بلاول بھٹو کے ذریعے لوٹ مار کے نئے مواقع نظر آ رہے ہیں۔ کہا گیا بلاول بھٹو بینظیر بھٹو کا مشن آگے بڑھائیں گے؟ کونسا ؟ لُوٹو اور پھوٹووالامشن؟ اندرون سندھ میں جا کر دیکھ لیں‘ آپ ایتھوپیا اور روانڈا کے قحط کو بھی بھول جائیں گے۔ ظاہر ہے عوام کو مزید غریب کرنے کا مشن آگے بڑھایا جائے گا۔ پیپلزپارٹی نون لیگ کی طرح اپنا مذاق اڑوانے پر بضد ہے۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا اچھا ہے انہیں بھی جلسے کرنے دیں‘ یہ جتنا زیادہ عوام کے سامنے آئیں گے اُتنا ہی ایکسپوز ہوں گے۔ تیس برس سے جو جماعت عوام کو بھوک‘ننگ اور افلاس کے سوا کچھ نہ دے سکی ہو اس سے کیا اُمید لگائی جا سکتی ہے۔ انہیں ماننا پڑے گا کہ تحریک انصاف ٹرینڈ سیٹر ہے اور باقی ساری جماعتیں ٹرینڈ فالوورز۔ یہ سمجھتی ہیں کہ شاید عمران خان کے جلسوں کی کامیابی کا راز ڈی جے بٹ کا سائونڈ سسٹم ہے یا پھر وہ پارٹی ترانے ہیں جن پر عوام جھومتے ہیں۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت اس کی تبدیلی کی آواز سے ہے جبکہ باقی جماعتوں کو کرپشن کی دیمک چاٹ چکی۔ بلاول بھٹو کے جلسے میں کالی پینٹ شرٹ والی خواتین کے بارے میں کہا گیا کہ یہ سپیشل سکیورٹی سکواڈ ہے۔ کسی نے کہا شاید انہیں دیکھنے کے بہانے ہی لوگ آ جائیں۔ میں نے سوچا اگر یہ خواتین بلاول کی حفاظت کریں گی تو ان خواتین کی حفاظت کون کرے گا۔ بلاول بھٹو کے کان میں کسی نے ڈال دیا ہے کہ اگر وہ عمران خان سے زیادہ رنگ برنگاجلسہ کر لے گا تو لوگ اس کے والد سے تو بیوقوف بنتے رہے ہیں‘ اس پر بھی جان لٹانے کو تیار ہو جائیں گے۔ جلسے میں لوگوں کی تعداد جتنی مرضی ہو لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ اتنے بیوقوف تھے جو تین مرتبہ اپنی جماعت سے لٹنے کے بعد بھی اس پر مرنے کو تیار ہیں۔ یعنی گھر میں آٹا نہ ہو‘ بچوں کی فیس کے پیسے نہ ہوں‘ گھر کی بجلی گیس بند ہو تو یہ کتنی دیر تک شہیدقائدین کی تصویروں کو پوجتے رہیں گے؟ شرکا کے خوفزدہ اور متفکر چہروں پر مصنوعی جوش خود اُن بے چاروں کے دلوں کا حال سنا رہا تھا۔ ویسے بھی لیاری کی وہ گاڑیاں جلسے کی کامیابی کی گواہ ہیں جو شرکا کو لے جانے کیلئے صبح سے شام تک انتظار کرتی رہیں‘ لیکن جلسے میں جانے کیلئے وہاں کوئی نہ آیا۔ اس کے باوجود شرجیل میمن فرماتے ہیں ‘بھٹو واحد خاندان ہے جس نے جمہوریت کے لئے قربانیاں دی ہیں۔شرجیل میمن کو کوئی بتائے یہ جو آئے روز بھوک اور غربت سے خاندان خودکشیاں کر رہے ہیں ان کی قربانیاں اور خودکشیاں کس کے کھاتے میں جائیں گیـ؟ یہ اچھا ہے کہ غریب خاندان قربانی دے تو کوئی بات ہی نہیں اور سیاسی خاندان کا کوئی بندہ مر جائے تو یہ عشروں تک اس کے نام پر ووٹ لیتے رہیں اور انہیں نوٹوں میں بدل کر سوئس بینکوں میں بھجواتے رہیں۔
کیا شاندار کھیل ہے ۔جب بھی لوٹ مار کا موسم آئے‘ لندن ‘ پیرس یا دبئی کے محل میں کوئی شہزادہ بیدار ہو جائے‘ وادیٔ عشق سے نکلے‘ پاکستان آجائے ‘ بھٹو کے دو چار نعرے لگائے‘ لاشیں گنوائے‘ ہمدردیاں سمیٹے‘ عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونکے‘ حکومت بنائے اور مال اکٹھا کر کے واپس لوٹ جائے۔ یہ ہے لوٹ مار گروپ کا طریقہ ٔواردات اور یہ ہیں ان کے امپورٹڈ شہزادے!