"ACH" (space) message & send to 7575

ہم اذیت ناک موت مرنا چاہتے ہیں!

دھرنے‘ نے قوم کو جگا دیا‘ یہ بات عمران خان آج کہہ رہے ہیں اور میں یہ بات دھرنے کے پانچویں روز لکھ چکا ہوں۔ بائیس اگست کا میرا کالم پڑھ لیں۔ ابھی دھرنا پوری طرح جم نہیں سکا تھا لیکن میں نے عمران خان کی چند تقریروں سے دھرنے کا نچوڑ نکال لیا تھا ۔کالم کا پہلا جملہ ہی یہ تھا کہ کیا عمران خان کی یہ کامیابی معمولی ہے کہ اس نے سوئی ہوئی قوم کو جگا دیا ہے۔ اس روز شام کو مجھے اسلام آباد سے دنیا ٹی وی کے رپورٹر کا فون آیا کہ اسلام آباد میں دنیا اخبار ڈھونڈنے سے نہیں مل رہا اور انہوں نے دھرنے کے شرکا میں میرے کالم کی ہزاروں فوٹو کاپیاں تقسیم ہوتے دیکھی ہیں ۔ اسی شام نیوز بلیٹن میں یہ فوٹیج دنیا ٹی وی پر دکھائی گئی کہ لوگ ایک دوسرے سے کالم کی فوٹو کاپیاں لے کر پڑھ رہے ہیں۔ میںنے یہ بھی لکھا کہ عمران خان جو مطالبات کر رہے ہیں یہ کامیابی اس سے کہیں بڑی ہے اور اگر وہ کوئی مطالبہ بھی منوائے بغیر واپس آ جائیںتو وہ ناکام نہیں ہوں گے۔ یہ سب بتانے کا مقصد اپنی تعریف نہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ دھرنوں سے لاکھ کیڑے نکال لیں‘ لاکھ لندن پلان اور عالمی ایجنسیوں کی سازشیں ڈھونڈ لیں اور دھرنوں کی فنڈنگ سے لے کر دھرنے کے شرکا کی کردار کشی تک جو چاہیں کر لیں‘ یہ حقیقت اب جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ لوگوں کو ان کا حق ملے یا نہ ملے‘ وہ اپنے حقوق سے آگاہ ہو چکے ہیں‘ وہ بیدار ہو چکے ہیں اور جو قوم جاگ جائے ‘ وہ لٹیرے سیاستدانوں کیلئے خطرہ جان بن جاتی ہے۔عوام کا جاگنا دراصل حکمرانوں کی موت ہے‘ اسی لئے وہ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس کے جواب میں دلیل دی جاتی ہے کہ یہ لوگ تو استعفیٰ لینے اور انقلاب وغیرہ لانے گئے تھے‘ تب انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم قوم کو جگانے جا رہے ہیں۔ تو بھائی اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی ٹیم بلوچستان میں چاندی ڈھونڈنے جاتی ہے لیکن وہاں ہیروں اور قیمتی 
جواہرات کے خزانے تلاش کر لیتی ہے تو کیا یہ اس کی نسبتاً بڑی کامیابی شمار نہیں ہو گی؟ کئی مرتبہ انسان توقعات سے بڑھ کر پا لیتا ہے تو کیا وہ اس کامیابی سے لا تعلقی اختیار کر لے؟
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ڈاکٹر قادری کے دھرنا ختم کرنے پر تحریک انصاف والے افسردہ کیوں ہیں۔ کیا اٹھارہ سال قبل عمران خان نے ان کے ساتھ مل کر تحریک شروع کی تھی ؟ تحریک انصاف کو اللہ اور خود پر بھروسہ کرنا ہو گا۔ اگر اتحاد کر کے ہی آگے بڑھنا تھا تو پھر یہ نون لیگ کے ساتھ اتحاد کر کے چند وزارتیں بھی لے سکتے تھے جو ظاہر ہے تحریک کا اصل مقصد ہے نہ ہونا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ اگر ثابت ہو جاتا ہے کہ قادری صاحب نے پیسے لے کر ڈیل کی ہے تو پھر اس سے قادری صاحب تو رہی سہی حمایت کھو ہی دیں گے لیکن اس سے نون لیگ یا پیپلزپارٹی کیسے پوِتّر ثابت ہو جائیں گی؟ حقیقت یہی ہے کہ اب ان جماعتوں کے لیڈروں کی اہمیت مزاحیہ خاکوں سے زیادہ نہیں رہی۔
یہ بھی اچھا ہوا کہ ان دھرنوں کی وجہ سے بہت سے چہرے پہچانے گئے۔وہ جو عشروں سے تبدیلی کے لئے لکھ رہے تھے‘ بول رہے تھے جب تحریک انصاف نے تبدیلی کا آغاز کیا تو انہوں نے ان کا مذاق ٹھٹھا اڑانا شروع کر دیا ۔ جب یہ عمران خان کی ذات میں ایک دھیلے کی کرپشن اور سیکنڈل تلاش نہ کر سکے تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ عمران خان کے اردگرد روایتی لوگ ہیں‘ ان کے ہوتے تبدیلی کیسے آئے گی‘ اسی لئے ہم عمران کا ساتھ نہیں دے رہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ عمران کے ارگرد روایتی سیاستدان موجود ہیں تو پھر نواز شریف اور آصف زرداری کن فرشتوں کے حصار میں ہیں؟ چلو یہاں کم از کم پارٹی لیڈر تو کرپشن ‘ خاندانی سیاست اور اقربا پروری کے الزامات سے پاک ہے لیکن یہ دونوں جماعتیں اور ان کے لیڈر تو آزمائے ہوئے ہیں اور تیس برس سے لوٹتے چلے آ رہے ہیں۔ اگر یہ ''دانشور‘‘ملک سے مخلص ہوتے تو ایک تھنک ٹینک بناتے اور تحریک انصاف کے ساتھ گریٹ ڈیبیٹ کر کے اس کی اصلاح کا کام کرتے لیکن کیا کریں کہ کروڑوں روپے ‘ چمکیلی گاڑیاں‘ سرکاری عہدے ‘ مراعات اور فوائد سمیٹنے کا یہ بہترین وقت تھا‘ چنانچہ بیشتر نے بہتی گنگا میں اشنان کرنا بہتر سمجھا۔
اور تو اور سراج الحق صاحب نے کیا کیا۔دھرنے والوں سے مذاکرات کرنے سے قبل انہیں چاہیے تھا کہ وہ نون لیگ سے کہتے پہلے ان کے جینوئن مطالبات پورے کرو پھر ہم دھرنے اٹھوانے جائیں گے۔ جو مطالبات دھرنے والوں کے تھے وہی سراج الحق صاحب کے ہیں تو پھر انہوں نے حکمرانوں پر کیوں دبائو نہ ڈالا۔ وہ 21نومبر سے اپنی الگ تحریک شروع کرنے والے ہیں تو یہ سب اکٹھے ہو کر تحریک کیوں نہیں چلا سکتے۔ جب ملک ایک ہے‘ مقصد ایک ہے تو پھر اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد کیوں؟
دیگر تحریکوں اور گروپوں کو چاہیے تھا کہ وہ بھی ان دھرنوں میں شریک ہوتے‘ چاہے اپنے الگ جلسے کرتے ‘ چاہے دو دن کے لئے جاتے لیکن شریک تو ہوتے‘ یہ احتجاج ریکارڈ کرانے کا بہترین موقع تھا۔ وہ ڈاکٹر کہاں گئے جو پنجاب حکومت سے آئے روز لاٹھیاں کھاتے تھے‘ کیوں وہ اس احتجاج میں شریک نہیں ہوئے؟ وہ اساتذہ کہاں گئے جو آئے روز مال روڈ پر دھرنا دیتے ہیں اور وہ کلرک ایسوسی ایشنیں کہاں گئیں‘ وہ نرسیں کہاں گئیں‘ این جی او کی تنظیمیں کہاں گئیںجوانسانی حقوق کا شور مچاتی ہیں‘ اس موقع پر سب کو سانپ کیوں سونگھ گیا۔ کیا عمران خان نے اپنا الگ پاکستان بنانا تھا۔کیا انہوں نے نیا پاکستان اپنے ساتھ لے جانا تھا۔ دھرنے والوں نے بارشوں‘طوفان‘گرمی‘ حبس‘‘شیلنگ‘فائرنگ‘بھوک ‘ پیاس‘بیماریاں اور سختیاں برداشت کیں‘ ان کے لیڈر چند مربع فٹ کے کنٹینروں میں رہے اور دوسری طرف دانشوروں کے لیڈر تھے جو چار روز کیلئے امریکہ بھی جاتے ہیں تو خانساموں اور ملازموں کا جہاز بھر کے ساتھ لے جاتے ہیں۔
کتنی بد قسمتی ہے کہ چیف جسٹس کی آزاد عدلیہ تحریک کی سوچ سمجھ کر حمایت کی جانی چاہیے تھی لیکن سب نے بلا سوچے سمجھے اس کی حمایت کی اور آج پچھتا رہے ہیں اور آج جب دھرنے اور تبدیلی کی حمایت کا وقت آیا تو ہاتھ کھینچ لیا۔حقیقت یہ ہے کہ ان دھرنوں سے عوام کو جو ملا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو نون لیگ اور پیپلزپارٹی نے اپنے تین تین ادوار میں عوام کو دیا ہے۔ جو لوگ قادری صاحب کے جانے پر مذاق ٹھٹھا اڑا رہے ہیں ‘ یا تنقید کر رہے ہیں وہ اتنا ہی مذاق اور ٹھٹھا حکمران لیگ اور پیپلزپارٹی کا کیوں نہیں اڑاتے جنہوں نے ملک نوچ لیا ہے ۔ صرف اس لئے کہ ان کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہیں؟
آج لوگوں کو یہ سوال کرنا چاہیے کہ ان حالات میں کیا ہونا چاہیے لیکن لوگ ہر بات میں یہی پوچھتے ہیں کہ کیا ہو گا؟ لوگوں نے صحافیوں کو پنڈت اور جوتشی کیوں سمجھ لیا ہے۔جو ڈاکٹر قادری کے دھرنا سمیٹنے پر مذاق اڑاتے ہیں میں ان کو ایک مثال دیتا ہوں مجھے وہ اس کا جواب لا دیں۔ لاہور پریس کلب کے سامنے ایک خانہ بدوش نما خاندان بچوں سمیت کئی برس سے فٹ پاتھ پر ڈیرہ ڈالے ہوئے تھا۔ اس فیملی کے دو تین بچے یہیں پیدا ہوئے اور یہیں بڑے ہو گئے لیکن انہیں انصاف نہ ملا۔ اس فیملی کی کسی نے زمینیں ہتھیا لی تھیں اور ان کے مردوں کو ہلاک کر دیا تھا‘ یہ لوگ بینر لگا کر جھگی میں برسوں فٹ پاتھ پر احتجاج کرتے رہے لیکن کسی نے نہ سنی۔ بارش‘ گرمی‘ طوفان سب میں یہ ثابت قدم رہے۔ شہبا ز شریف صاحب کے موجودہ دور میں اس فیملی کو پولیس کے ذریعے اٹھوا کر نا معلوم مقام پر پہنچا دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسلام آباد دھرنوں کے پیچھے سازش تھی تو اس دھرنے کے پیچھے کیا تھا جوسات برس تک کسی حکمران‘ کسی عدالت اور کسی سیاستدان کو نظر ہی نہ آیا اور جب موجودہ صوبائی حکمرانوں کی اس پر نظر پڑی تو انہیں غائب کر دیا گیا۔ 
جس حساب سے لوڈشیڈنگ اور بجلی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں‘ اووربلنگ کے ڈاکے مارے جا رہے ہیں ‘ ایک روز عوام اپنا بل کیا‘اپنا دل‘ اپنا گھر اور اپنے آپ کو بھی جلانے پر مجبور ہو جائیں گے اور تاریخ ثابت کرے گی کہ عمران خان کی سول نافرمانی کی کال بالکل ٹھیک تھی۔لیکن مجھ سمیت ہر شخص نے بزدلی دکھائی کہ کہیں ہمارے میٹر نہ کاٹ لئے جائیں۔ ہو سکتا ہے اکثریت اگر سول نافرمانی کر دیتی تو حکومت دبائو میں آ جاتی لیکن کیا کریں کہ ہم مسئلے کا مستقل حل چاہتے ہی نہیں ‘ہم سسک سسک کر اذیت ناک موت مرنا چاہتے ہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں