اگر آپ کو پتہ چلے کہ کل کوئی ڈاکو آپ کا گھر لُوٹنے آئے گاا ور اس کا حلیہ اور اس کی عمر اتنی ہو گی تو آپ کیا کریں گے؟ حفاظتی انتظامات کریں گے یا بھنگ پی کر سو جائیں گے؟ظاہر ہے بچائو کیلئے ہاتھ پائوں ماریں گے۔ تو پھر جب وزارت داخلہ کی طرف سے پنجاب حکومت کو یہ مراسلہ چار روز قبل جاری ہو چکا تھا اور یہ خبر بھی چھپ چکی تھی کہ ایک خودکش بمبار واہگہ بارڈر پریڈ پر حملہ کرنے والا ہے تو پھر اس سانحے سے بچائو کے لئے کیا کیا گیا۔ یہ ذمہ داری تھی کس کی؟ انٹیلی جینس کا جو کام تھا وہ اس نے کر دیا‘ اب ذمہ داری وزارت داخلہ پنجاب‘ پولیس اور کچھ حد تک رینجرز کی تھی۔ رینجرز کی ذمہ داری اتنی تھی کہ خودکش بمبار کو پریڈ ایونیو میں داخلے سے روکے‘ وہ اس نے پوری کر دی اور رینجرز کا جوان محمد رضوان خودکش بمبار کو روکتے ہوئے شہید بھی ہو گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اسے یہاں پہنچنے سے کس نے روکناتھا؟ یہاں میں پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم قادری اور سابق وزیرقانون رانا ثنا اللہ کے وہ بیانات آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا جو انہوں نے گزشتہ روز چینلز کو دئیے۔ یہ دونوں اصحاب ایک دوسرے سے بڑھ کر اس کوشش میں تھے کہ خود کو پاک و صاف ثابت کر کے ذمہ داری کسی طرح فوج اور رینجر زپر ڈال دی جائے۔ بندہ پوچھے‘ کیا واہگہ کے راستے میں فوج نے ناکے لگا کر کھڑے ہونا تھا؟ کیا بارڈر کے قریبی دیہات میں تلاشی کا کام فوج نے کرنا تھا؟ کیا پنجاب میں دہشت گرد تنظیموں کی مانیٹرنگ فوج نے کرنی تھی؟ یہ اچھا ہے‘ جب مرکز میں بھی بھائی
اور پنجاب میں بھی بھائی کی حکومت ہو تو ذمہ داری فوج پر ڈال دو اور جب اسی مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہو اور رحمن ملک کی طرف سے پنجاب حکومت کو ایسا مراسلہ آئے تو پنجاب اور وفاق ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیں۔ دوسرا پہلو یہ اچھالنے کی کوشش کی گئی کہ یہ حملہ ضرب ِعضب کا ردعمل تھا۔ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ضرب عضب آپریشن کیوں کیا گیا؟ یعنی فوج اپنی جانیں بھی قربان کرے‘ اس دھرتی کو دہشت گردوں سے بھی پاک کرے اور یہ خود جنوبی پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے ساتھ مل کر انتخابی مہمیں چلاتے رہیں‘ دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرتے رہیں اور جب یہی دہشت گرد کہیں حملہ کردیں تو یہ اپنے کالے کرتوت چھپاتے ہوئے ساری ذمہ داری عسکری قوتوں پر ڈالنا شروع کر دیں‘ کیا ایسی جمہوری حکومت کا کسی نے اچار ڈالنا ہے جو وطن کے محافظوں کے لئے اپنے سینے میں بغض رکھتی ہو۔اب جبکہ داعش کا یہاں خطرہ بڑھ رہا ہے‘ وزیراعظم آئندہ چھ ہفتوں کے دوران چار ممالک کے دوروں کا پروگرام بنا چکے۔ ان کے ساتھ کتنے خانسامے اور کتنے ملازم جائیں گے‘ کون کون سی ڈشز پکیں گی‘ کہاں قیام ہو گا‘ کون کون سے رشتہ دار ساتھ جائیں گے‘ذاتی کاروباری ملاقاتیں کس کس سے ہوں گی‘ یہ سارا کچھ طے ہو رہا ہو گا لیکن اس ملک اور
اس کے عوام کیلئے نہ حکمرانوں کے پاس وقت ہے نہ وژن ۔
حکومت عوام کو ماموں بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے ضائع نہیں جانے دینا چاہتی۔ ہفتے کے روز یہ اعلان کیا گیا کہ حکومت نے پٹرولیم کی ریکارڈ قیمتیں کم کر کے تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل کے اس دور میں یہ حکمران کس کو بیوقو ف بنا رہے ہیں؟حکومت تو ایسے کریڈٹ لے رہی ہے جیسے شریف برادران نے اپنی جیب سے پیسے دئیے ہوں۔ اب ذرا حقیقت سن لیں۔ یہ قیمتیں پوری دنیا میں کم ہوئیں جس نے پوری دنیا میں لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ لیبیا میں جون سے اب تک تیل کی پیداوار تین گنا زیادہ ہوئی ہے۔ اسی طرح یکم اکتوبر کو سعودی عرب نے خام تیل کی برآمدی قیمت گزشتہ پانچ برسوں میں ریکارڈ حد تک کم کی ہے۔ اس کے علاوہ تیل برآمد کرنے والے چند اور عرب ممالک نے اپنا منافع کم کیا ہے تاکہ تیل کی زیادہ سے زیادہ سپلائی برقرار رکھی جا سکے۔ جبکہ ہمارے ہاں حکومت چھلانگیں لگا رہی ہے جیسے اس نے پوری دنیا میں تیل کی قیمتیں کم کرا دی ہوں۔ اصل بات جو چھپائی گئی وہ یہ تھی کہ دیگر ممالک میں قیمتیں بیس فیصد سے زیادہ کم ہوئیں جبکہ پاکستان میں عام آدمی کو صرف دس سے بارہ فیصد فائدہ پہنچایا گیا۔ حکومت نے اپنی جیب میں کتنا منافع رکھا‘ یہ اس نے نہیں بتایا۔ حکومت ایک اور لطیفہ سنا رہی ہے کہ اگر دھرنے والے نہ ہوتے تو قیمت مزید کم ہوجاتی۔ کس طرح ؟یہ نہیں بتایا۔ یہ ایسا ہی بیان ہے جیسے خواجہ آصف صاحب نے چند ہفتے قبل کہا تھا کہ دھرنے والے نئے ڈیموں کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یعنی ڈیم ڈی چوک یا شاہراہ دستور پر بننا تھا؟ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ موجودہ حکمرانوں کا وژن ییلو کیب سکیم اور لیپ ٹاپ وغیرہ سے آگے کا نہیں ہے۔ یعنی یہ پڑھے لکھے ماسٹر ڈگری ہولڈرز کو سود پر قرضے دے کر ڈرائیوری پر لگانا چاہتے ہیں ۔ نہ سی این جی ہے نہ کاروبار ہے‘ نہ سیر و سیاحت ہے تو پھر یہ گاڑیاں حاصل کرنے والے ان سے کون سا تیر چلا لیں گے؟ ویسے کوئی یہ تو بتائے کہ وزیراعظم کی بزنس یوتھ لون سکیم کا کیا بنا؟ کتنے لوگوں کو قرضے ملے‘ کتنوں نے کاروبار شرو ع کیا؟ کسی کو معلوم ہے؟ اب خبر آئی ہے کہ وزیراعظم ٹرانسپورٹ سکیم بھی شروع ہونے والی ہے۔ اللہ خیر کرے۔
فیس بک پر وہ کچھ ہو رہا ہے جو شاید کسی کے وہم و گمان میں نہ ہو۔ ایسے ایسے گروپ بن چکے ہیں جن کو وزٹ کرتے ہوئے بھی کراہت ہوتی ہے لیکن ہمارے بچے‘ ہمارے پڑھے لکھے نوجوان بچے بچیاں ان کو لائک بھی کر رہے ہیں‘ ان میں کمنٹ بھی کر رہے ہیں اور ان میں وقت بھی گزار رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل برطانیہ میں دو پاکستانی خواتین ہم جنس پرستوں نے شادی کی تھی۔ اب ایسے گروپ لاہور اور دیگر بڑے شہروں کے نام پر قائم ہو چکے ہیں۔ ان صفحات کو ہماری جو یوتھ وزٹ کرتی ہے‘ اگر ان کے اکائونٹ کی معلومات کو دیکھا جائے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لاہور‘ ملتان‘ اسلام آباد کی بڑی سرکاری یونیورسٹیوں کے بچے بچیاں ایسے بیہودہ صفحات کے نہ صرف باقاعدہ ممبرز ہیں بلکہ ان میں ہونے والی مصروفیات کا حصہ بھی بن چکے ہیں۔ لڑکوں نے لڑکوں کے لئے نمبر چھوڑے ہوئے ہیں اور لڑکیوں نے لڑکیوں کے لئے۔ ان صفحات پر جنسی موضوعات پر بحث جاری ہے اور تصاویر وغیرہ کا تبادلہ بھی ہو رہا ہے جو نوجوان نسل کی تباہی اور بالآخر معاشرے کی بربادی پر منتج ہو گا۔ یہیں سے بچے نشہ اور دیگر جرائم کی طرف بھی متوجہ ہو رہے ہیں۔ ایف آئی اے سائبر ونگ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ والدین جن کے یہ بچے ہیں‘ وہ جاگیں اور اپنے بچوں کو وقت دیں ‘کمپیوٹر سیکھیں اور ان کے اکائونٹس پر نظر رکھیں۔ بدنصیبی یہ ہے کہ والدین اولاد کو مادی سہولیات دینا کافی سمجھتے ہیں۔ یہ اتنا نہیں سوچتے کہ اگر اولاد ہی تباہ ہو گئی تو باقی کیا بچے گا؟