جیتے جاگتے انسانوں کو زندہ جلانا کہاں کا اسلام ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بالکل ٹھیک سوال اٹھایا۔ مسیحی جوڑے کو جس نے بھی قتل کیا‘ بہت برا کیا لیکن وزیراعلیٰ اگر اس طرح کا بیان بھی دے دیتے کہ جیتے جاگتے معصوم لوگوں کو گولیاں مارنا کہاں کا اسلام اور کہاں کی جمہوریت ہے تو ان کے قد میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ نون لیگ کا یہ پرانا وتیرہ ہے کہ یہ مخالفین سے بدلہ لینے کیلئے پولیس کا استعمال کرتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ایس پی سکیورٹی سلمان علی خان ہے جو حکومت پنجاب کا چہیتا پولیس افسر ہے۔ اس افسر کو سیاسی مخالفین سے بدلہ لینے کیلئے صرف ماڈل ٹائون میں ہی استعمال نہیں کیا گیا بلکہ انتخابات سے دو تین روز قبل جب عمران خان کو ایلیٹ فورس کے ایک اہلکار نے لفٹر سے نیچے گرایا تب بھی ان ''جانباز ‘‘اہلکاروں کی نمائندگی سلمان علی ہی کر رہا تھا۔ انتخابات سے چار روز قبل گلبرگ میں عمران خان کا جلسہ تھا اور اس جلسے کی سکیورٹی کے لئے خصوصی طورپر سلمان علی کو ترقی دے کر ایس پی سکیورٹی بنایا گیا تھا۔ اس شخص نے اپنی ذمہ داری کس قدر احسن طریقے سے نبھائی یہ تو عمران خان کو ایک اہلکار کے ذریعے نیچے گرانے سے ہی ثابت ہو گیا تھا لیکن ماڈل ٹائون کو جلیانوالہ باغ بنا کر اس افسر نے ثابت کر دیا کہ پولیس کس طرح سیاستدانوں کی غلام بنی ہوئی ہے اور ان کی خوشنودی کے لئے نہتی خواتین اور بوڑھوں کا قتل عام تک کر سکتی ہے۔ فیس بک پر داعش کی وہ ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ درجنوں افراد کو ذبح کر کے گڑھوں میں پھینک رہے ہیں اور ایک ایک کر کے لوگوں کو کنپٹی میں گولی مار کر دریا میں پھینکا جا رہا ہے‘ لیکن جب میں ان ویڈیوز کا موازنہ سانحہ ماڈل
ٹائون یا کسی اور پولیس گردی سے کرتا ہوں تو مجھے دونوں قسم کی دہشت گردی میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔ بس اتنا فرق ہے کہ وہ لوگ اسلام اور خلافت کا نام لے کر یہ سب کر رہے ہیں اور ہمارے سیاستدان جمہوریت کا نام لے کر۔ تازہ خبر یہ ہے کہ ایس پی سکیورٹی ماڈل ٹائون سلمان علی جو گزشتہ ماہ عدالت کے احاطے سے فرار ہو گیا تھا بلکہ باقاعدہ فرار کرایا گیا تھا‘ وہ آزادانہ نقل و حرکت کر رہا ہے جو عدالتی حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ خلاف ورزی نہ اعلیٰ پولیس افسران کو دکھائی دیتی ہے نہ حکمرانوں کو نہ عدالت عظمیٰ کو۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا تھا کہ مظاہرین پر فائرنگ کرنے کا حکم ایس پی سکیورٹی سلمان علی خان نے دیا جس پر ایلیٹ کمانڈوز کی جانب سے دو سو راؤنڈ فائر کیے گئے ۔ ڈھٹائی کی انتہا دیکھیں کہ ایس پی سکیورٹی نے عدالت میں یہ بیان دیا کہ اس پر جو الزامات لگائے جا رہے ہیں‘ وہ جھوٹ ہیں اس لئے اسے بری کیا جائے یا ضمانت پر رہا رکھا جائے۔ عدالت نے تین پیشیوں پر اس کی ضمانت میں توسیع کر دی لیکن چوتھی پیشی پر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج خالد محمود رانجھا نے سلمان علی خان کی درخواست خارج کر دی ۔ عدالتی فیصلہ سنتے ہی موصوف جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے بیسیوں اہلکاروں کی موجودگی میں احاطہ عدالت سے فرار ہو گئے ۔ جب عمران خان کو دھکا دے کر گرایا گیا تھا تب بھی میں نے اس خدشے کا اظہار اپنے
کالم میں کر دیا تھا کہ ایس پی سکیورٹی کو عمران خان کے جلسے سے ایک روز قبل یہ ذمہ داری دینے کا مقصد ایک ایسی بھیانک سازش کرنا تھا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ مخالفین کا خیال تھا کہ انہوں نے جی بھر کے دھاندلی کرنی ہے‘ جو ظاہر ہے کبھی نہ کبھی بے نقاب ہو گی اور اگر عمران خان کو راستے سے نہ ہٹایا گیا تو یہ الیکشن کے بعد ان کے لئے درد ِ سر بن جائیں گے۔ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے۔ عمران خان کو اللہ نے بچا لیااور مخالفین کے خدشات کے عین مطابق عمران خان دھاندلی کے ثبوت لے کر ان کے تعاقب میں ہے اور ان کی نیندیں حرام کئے ہوئے ہے۔ دوسری طرف حکومت سابق چیئرمین نادرا طارق ملک کی طرح ہر افسر کو ایک ایک کر کے ہٹاتی جا رہی ہے چاہے اس کیلئے دھمکیوں ‘ دھونس اور ہر منفی حربہ ہی کیوں اختیار نہ کرنا پڑے۔
قدرت جب عوام سے انتقام لیتی ہے تو خواجہ آصف جیسے لوگوں کو بجلی کا وفاقی وزیر بنا دیتی ہے۔ اس سے بھی بڑا انتقام لینا مقصود ہو تو عابد شیر علی کو وزیرمملکت بنا دیتی ہے۔ یہ دونوں مل کر عوام کی جیب سے 70ارب ڈکار جاتے ہیں اور وزیراعظم عوام کو آڈٹ رپورٹ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر خود بیرونی دوروں پر نکل جاتے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم کے جاتے ہی لیسکو نے قسطوں میں بلوں کی ادائیگی کی سہولت ختم کر دی اور ظاہر ہے یہ فیصلہ وزیراعظم کے ساتھ کابینہ کے آخری اجلاس میں ہوا ہو گا۔ قسطوں میں ادائیگی کی سہولت پہلے بھی ذلیل و خوار ہو کر ہی ملتی تھی۔اب عوام اپنے گردے اور بچے فروخت کر کے ہی ادائیگی کر سکیں گے۔ خود وزیرمملکت کیا کر رہے ہیں وہ بھی سن لیجئے۔ جب بھی عابد شیر علی لاہور آتے ہیں‘ ان کے ساتھ ان کے چار چھ رشتہ دار بھی آتے ہیں‘ جن کا اس محکمے سے دور کا بھی تعلق نہیں لیکن ان سب کی فائیو سٹار ہوٹلوں میں رہائش وغیرہ کی ادائیگی لیسکو یعنی عوام کے پیسوں سے ہوتی ہے۔ لیسکو کا ہر دوسرا افسر سرکاری خزانے سے ہر دوسرے ماہ نیا لیپ ٹاپ‘ نیا موبائل نکلوا رہا ہے۔ جو جتنا زیادہ کرپٹ ہے ‘ جو عوام کی جتنی زیادہ چمڑی ادھیڑ رہا ہے اتنی زیادہ شاباش وصول کر رہا ہے اور وہ بھی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے۔ یہ ہے وہ حکمرانی‘ جس کا دفاع حکومتی بریگیڈ مسلسل کر رہا ہے۔
گزشتہ برس بھی جب سندھ میں ہر روز کئی زندگیوں کے چراغ گل ہو رہے تھے ‘پیپلز پارٹی موہنجودڑومیں جشن منا رہی تھی۔ اب بھی جب تھر میں انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ سے اپنی پیاس بجھانے پر مجبور ہیں تو سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا درانی کی فرمائش پر عوام کے پیسوں سے لاکھوں روپے مچھلی کی دعوت پر اڑائے جانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ بلاول بھٹو کبھی پاکستان کے دورے پر آئیں تو اس کا ضرور نوٹس لیں‘ ہاں یاد آیا وہ ٹویٹ تو کر ہی سکتے ہیں اگر ابا حضور نے اجازت دے دی۔
میرا اندازہ درست نکلا۔ امریکہ میں پٹرولیم کی قیمتیں بائیس فیصد تک کم ہوئیں۔جارجیا میں ایک گیلن 3.49ڈالر کا ملتا تھا جو کم ہو کر 2.79ڈالر تک آ گیا ہے۔ کچھ مقامات پر 2.65ڈالر کا گیلن بھی مل رہا ہے۔اس طرح یہ کمی بیس سے بائیس فیصد کے درمیان ہے۔ پاکستان میں پٹرول 105روپے فی لٹر تھا جو کم ہو کر 95روپے تک آیا۔ یہ کمی تقریباً گیارہ فیصد بنتی ہے۔ یہاں سے اندازہ لگا لیں کہ حکمرانوں نے تیل کی قیمت میں عالمی کمی سے بھی دس فیصد حصہ اربوں روپے کی شکل میں اپنی جیب میں رکھ لیا ہے۔ یہ زرداری صاحب کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہتے تھے‘ لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ لقب صرف زرداری صاحب تک محدود نہیں رہا‘ اس میں کئی پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔ رئوف کلاسرا صاحب نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ آخر یہ لوگ کتنا حرا م کھائیں گے کہ جس سے ان کے پیٹ کا دوزخ بھر سکے۔کلاسرا صاحب کے سوال کا جواب خواجہ غلام فرید دیتے ہیں:
کوئی بن گیا رونق پکھیاں دی
کوئی چھوڑ کے شیش محل چلیا
کوئی پلیا ناز تے نخریاں وِچ
کوئی ریت گرم تے تھل چلیا
کوئی بُھل گیا مقصد آون دا
کوئی کر کے مقصد حل چلیا
ایتھے ہر کوئی فرید مسافر اے
کوئی اَج چلیا‘ کوئی کل چلیا