جو کہتے ہیں کہ دھرنوں سے کیا فائدہ ہوا‘ وہ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کا استعفیٰ ملاحظہ فرما لیں۔ اگر دھرنے نہ ہوتے‘ اگر حکمران خاندان کی شاہانہ سیاست کو بے نقاب نہ کیا جاتا تو کیا ایسا ہوتا؟ شاید کبھی نہیں۔ مریم نواز صاحبہ کی قرضہ سکیم کی بطور چیئرپرسن تعیناتی کیخلاف ایک شہری نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس کا فیصلہ آنے سے ایک روز قبل انہیں مجبوراً استعفیٰ دینا پڑا۔ آخری سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ڈپٹی اٹارنی سے سوال کیا تھا کہ '' کیا یہ عہدہ خاندانی افراد میں ہی رہنا ضروری ہے جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ چیئرپرسن فوکل پرسن ہیں اور یہ کوئی اختیار نہیں۔ اس موقع پر جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ تو کیا میں اپنے باورچی کو فوکل پرسن قرار دے کر عہدے پر لگا سکتا ہوں، کل وزیراعظم کسی اَن پڑھ شخص کو اس عہدے پر تعینات کردیں تو کیا ہوگا‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مرض صرف شریف خاندان کو ہی لاحق نہیں بلکہ ایک دو کو چھوڑ کر تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں خاندانوں اور شخصیات کے قبضے میں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ خاندان اپنے بیٹوں بھتیجوں کو اتنے بڑے عہدے کیوں الاٹ کر دیتے ہیں؟کیا عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ان کی ذاتی جاگیر ہے جو یہ مال ِغنیمت سمجھ کر سمیٹنے میںلگے ہیں؟ شریف خاندان کے درجنوں کاروبار ہیں۔ کیا یہ چاہیں گے کہ ان کی فیکٹری میں کوئی مینیجر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے بیٹے کو اپنی جگہ نامزد کر دے؟ کیا یہ ایسے نوجوان کو اپنی فیکٹری میں کسی مینیجر کی جگہ سنبھالنے کی اجازت دیں گے جس کی اہلیت صرف اس کا اپنے والد سے خونی رشتہ ہونا ہو؟یہ ایسا کبھی نہیں چاہیں گے اور اگر یہ اپنی ذاتی فیکٹریوں میں موروثی کلچر پسند نہیں
کرتے ‘اگریہ وہاں میرٹ کے خلاف کوئی تقرری نہیں ہونے دیتے تو پھر یہ سو سو ارب کی سکیموں پر اپنے رشتہ داروں کو کیوں بٹھا دیتے ہیں ‘ صرف اس لئے کہ یہ ان غریب ‘کمزور اور بے زبان عوام کا پیسہ ہے جنہیں عمران خان نے زبان دینے کی کوشش کی ہے۔ چلیں یہ تو سربراہ کی بات تھی لیکن اگر سکیم کو دیکھا جائے تو کوئی نہیں جانتا کہ کتنے لوگوں کو قرض ملا اور کتنے لوگ قرض حاصل کرنے سے رہ گئے۔ زیادہ تر یہی دیکھا گیا کہ جو شخص بھی قرض اپلائی کرنے گیا‘ یا تو اس کی ٹھیک طرح سے بات نہیں سنی گئی یا پھر اس کے سامنے اتنی کڑی شرائط رکھی گئیں کہ وہ منہ لٹکا کر واپس آ گیا۔ حال ہی میں لانچ کی گئی ایک اور ٹیکسی سکیم میں بھی ایسی ہی شرائط رکھی گئی ہیں۔ جب کوئی گاڑی کا فارم بھر کر متعلقہ افسر کو پیش کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اسے پونے دو لاکھ روپے ایڈوانس بھی دینا ہوں گے جس کا پہلے کہیں ذکر ہی نہیں۔ اس طرح اگر پانچ لاکھ افراد بھی اس سکیم میں اپلائی کرتے ہیں تو دو ہزار روپے کی ناقابل واپسی رقم کی وجہ سے حکومت کو ایک ارب روپے مل جائیں گے لیکن گاڑی کس خوش نصیب کو ملے گی یہ خدا جانتا ہے یا دینے والے۔ اس قسم کی سکیموں کے قابل عمل ہونے کے بارے میں بھی عدالتوں کو نوٹس لینا چاہیے کیونکہ یہ عوام کے پیسوں سے چلتی ہیں اور زیادہ تر سکیمیں بعد میں ڈیفالٹ کر جاتی ہیں اور بھگتنا پھر عوام کو ہی پڑتا ہے۔ اس وقت بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وفاقی وزیر مملکت عابد شیر علی، پنجاب کے وزیر خوراک بلال یاسین اور حمزہ
شہباز شریف سمیت خاندان کے منظور نظر 84 لوگ اہم حکومتی عہدوں پر فائز ہیں۔بیشتر محکمانہ تقرریوں کے وقت نہ تو اخبارمیں کوئی اشتہار دیا گیا‘ نہ کوئی بورڈ تشکیل پایا اور نہ ہی کوئی انٹرویو ہوا۔ جو کام مریم نواز صاحبہ نے عدالت کاحکم آنے کے ڈر سے کیا ہے‘ اگر وہ اپنے ضمیر کی آواز پر پہلے ہی کر دیتیں تو ہم انہی سطور میں ان کی تعریف کررہے ہوتے۔ اب بھی وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنے رشتہ داروں کو اعلیٰ عہدوں سے فارغ کریں اور میرٹ پر قابل لو گ لگائیں۔ مجھے سو فیصد یقین ہے وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ جو جماعت ہی ایک فرد کے نام پر بنائی گئی ہو اس میں خاندان حکومت نہیں کرے گا تو کون کرے گا۔ مسلم لیگ (ن) میں 'ن‘ کا لفظ نواز شریف صاحب کے نام کا پہلا حرف ہے۔ ظاہر ہے یہ اس لئے کیا گیا تاکہ اس جماعت پر ایک ہی خاندان کی اجارہ داری رہے اور کوئی اس میں اعلیٰ عہدے پر آنے کا سوچ بھی نہ سکے۔یعنی نام مسلم لیگ کا اور حکمرانی اور موج میلہ شریف خاندان کا۔
ایسی خاندانی حکمرانی پر جب عمران خان جیسا کوئی بھی شخص انگلی اٹھائے گا تو ظاہر ہے اس کے وارنٹ گرفتاری ہی جاری ہوں گے۔ فرض کرلیں کہ تحریک انصاف کے چند بپھرے ہوئے نوجوان پی ٹی وی میں داخل ہو بھی گئے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں عمران خان نے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔ کیا عمران خان کا دماغ چل گیا تھا کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی سیاست کا گلا دبا دیں۔ یہ کہتے ہیں عمران خان نے اشتعال انگیز الفاظ استعمال کئے تو سوال یہ ہے کہ کیا اس سے بھی سنگین الفاظ زرداری صاحب کیلئے استعمال نہیں کئے جاتے رہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب ماضی میں سپریم کورٹ پر نون لیگ کے چند سیاستدان اور کارکن حملہ آور ہوئے تو کیا نون لیگ کے صف اول کے لیڈروںکوگرفتار کیا گیا تھا اور کیا پی ٹی وی اور پارلیمنٹ سپریم کورٹ سے بھی زیادہ معزز ہے ؟ حقیقت ہے کہ عمران خان کی گرفتاری سے نہ صرف یہ تحریک زور پکڑے گی بلکہ اس کا شدید ردعمل حکومت کیلئے خطرہ بن جائے گا۔حکومت تحریک کو جتنا دبائے گی یہ اتنا ہی پھیلے گی۔ لاہور سے روانگی سے قبل جس طرح تحریک انصاف کو دبانے کی کوشش کی گئی‘ جس طرح کنٹینر لگائے گئے تب بھی حکومت کو باور کرایا گیا لیکن اس کی عقل میں نہیں سمایا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد احتجاج اور دھرنے چھوٹے بڑے شہروں میں پھیل جائیں گے اور نظام زندگی معطل ہو جائے گا۔مظاہرین ردعمل میں بڑی شاہراہیں‘ چوک اور چوراہے بند کرنے کی کوشش کریں گے‘ اہم سرکاری مقامات اور دفاتر کے سامنے دھرنا دے دیں گے‘ہر شہر ہر گائوں میں ایک وقت میں چار چار جلسے اور جلوس منعقد ہو رہے ہوں گے‘ بچے‘ خواتین اور بوڑھے سبھی ان میں شریک ہو جائیں گے اور ان سب کو میڈیا کے باون سے زائد نیوز چینل براہ راست کور بھی کر رہے ہوں گے تو حکومت کیلئے یہ سب سنبھالنا تو دُور کی بات برداشت تک کرنا مشکل ہو جائے گا۔دوسری طرف ماڈل ٹائون میں چودہ لوگوں کے قتل پر جن شخصیات کے خلاف دو ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں‘ انہیںگرفتار کرانے کیلئے لواحقین کی تحریک کو نیا جوش میسر آ جائے گا۔ اس طرح یہ تحریکیں مختلف زاویوں سے حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی اور صورتحال حکومت کے قابو سے یکسر نکل جائے گی۔تحریک انصاف کا پلڑا ایک مرتبہ پھر بھاری ہو جائے گا اور وہ ایسے تمام مقاصد حاصل کر لے گی جو وہ چار مہینے دھرنا دے کر بھی حاصل نہ کر سکی تھی۔ اس ساری صورتحال سے بچنے کیلئے کیا یہ بہتر نہیں کہ حکمران خود اپنا احتساب شروع کر دیں‘ وہ نوشتہ دیوار پڑھ لیں اور ان تجاویز کو مان لیں جو ہر پاکستانی کی آواز ہیں۔اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے اُن عرب ممالک پر ایک نظر ڈال لیں جہاں ان سے بھی بڑے بادشاہ چند برس قبل تک جاہ و جلال کے ساتھ حکمرانی کر رہے تھے لیکن آج اُن کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنے والوں کے بارے میں خواجہ غلام فرید نے کہا تھا:
تیرے تھیں لکھاں چنگیرے چل گئے
تخت شاہی چھوڑ مٹی رَل گئے
پور کتنے مالکاں دے گل گئے
رہ گیا مالک بڑا اللہ کبار
خبردارو خبردار و خبردار