جو لوگ تحریک انصاف پر وی آئی پی کلچر کے فروغ کا الزام لگا رہے ہیں اور جو عمران خان پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ پارٹی کو آرگنائز نہیں کرتے اور خود وی آئی پی کلچر کا مظاہرہ کرتے ہیں ‘وہ تیس نومبر کا جلسہ دیکھ لیں ۔ ملتان کے جلسے کی بھگدڑ کے بعد تحریک انصاف نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اب جلسے میں سٹیج پر جانے والے افراد کو خصوصی پاس جاری کئے جاتے ہیں اور انتظامات بھی بہتر ہوتے ہیں۔ تیس نومبر کو جب دو خواتین سٹیج پر جانے کیلئے آگے بڑھیں تو پی ٹی آئی کی سکیورٹی نے انہیں روک کر خصوصی پاس طلب کئے۔ خواتین خصوصی اجازت نامے نہ دکھا سکیں جن پر انہیں آگے نہ جانے دیا گیا اور عام لوگوں میں بیٹھنے کی ہدایت کی گئی۔ دونوں خواتین نے برا منایا نہ ہی سکیورٹی والوں سے جھگڑا کیا بلکہ چپ چاپ جا کر عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ یہ دونوں خواتین کون تھیں؟ جی ہاں‘یہ دونوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سگی بہنیں علیمہ خان اور نورین خان تھیں۔ کیا آپ گمان کر سکتے ہیں کہ ایسا کبھی نون لیگ‘ پیپلزپارٹی یا ق لیگ میں ممکن ہو۔ کیا ان روایتی جماعتوں کے سربراہوں کا کوئی بھائی‘ بیٹا یا کزن اس طرح سٹیج پر جانے کی کوشش کرتا اور اسے اجازت نامے کی وجہ سے روکا جاتا تو کیا وہ رک جاتا اور کیا وہ ایسے سکیورٹی والوں کو اٹھا کر پاتال میں نہ پھینکوا دیتا؟ تحریک انصاف میں لاکھ خامیاں ہوں گی‘ لیکن اس کی اچھی بات یہ ہے کہ یہ اپنی برائیوں پر اصرار نہیں کرتی‘ نون لیگ کی طرح ان پر ڈٹ نہیں جاتی۔
آج کل ٹی وی پر عمران خان کے خلاف بڑا پراپیگنڈا کیا جا رہا
ہے کہ انہوں نے گیارہ مئی کی الیکشن والی رات نتائج کو قبول کر لیا تھا اور اس پارٹی کے قائدین نے نون لیگ کو مبارکباد بھی دی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ اسی وقت کہہ دیتے کہ الیکشن جعلی ہوا ہے تب تو واقعی یہ ثابت ہو جاتا کہ عمران خان ایک سازش اور الزام برائے الزام کی سیاست کر رہے ہیں اور الیکشن نتائج کو قبل از وقت اور بغیر ثبوت کے ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ جب عمران خان صحت یاب ہوئے اور آہستہ آہستہ انہیں اطلاعات ملیں‘ ثبوت آنے لگے ‘ حقائق سامنے آئے تو تب جا کر معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ تو زبردست دھاندلی ہوئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ الیکشن والی رات گیارہ بجے حکمران جماعت کی طرف سے جو وکٹری تقریر کی گئی اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہمیں دو تہائی اکثریت دلوائو۔ سوال یہ ہے کہ جب پانچ بجے ووٹنگ مکمل ہو چکی تھی تو پھر قائدین کس سے مخاطب ہو رہے تھے۔ یہی سوال عمران خان کئی مرتبہ پوچھ چکے ہیں لیکن تحریک انصاف کے خلاف جاری پراپیگنڈا مہم میں یہ جملہ نہیں دکھایا جا رہا۔ صرف اس نکتے پر غور کرلیں تو سارا قصہ سمجھ آ جائے گا۔
نون لیگ اور اس کی دیگر حلیف جماعتیں جس طرح تحریک انصاف پر تنقید کر رہی ہیں‘ اس سے تو یوں ظاہر ہوتا ہے جیسے نہ نون لیگ نے آج تک کوئی جلوس نکالا‘ نہ جلسہ کیا ‘ نہ سڑکیں بلاک کیں‘ نہ کوئی پہیہ جام کی اپیل کی‘ نہ جلائو گھیرائو کیا‘ نہ شہر بند کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سابق دور میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف پنجاب میں جتنے بھی جلسے جلوس نکلے‘ ان میں نون لیگ پیش پیش تھی۔ پنجاب میں جن تاجر تنظیموں کو ساتھ ملا کر سابق حکومت کے خلاف لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر ہڑتالیں کی جاتیں‘ آج انہی تاجر تنظیموں کے ذریعے یہ کہلوایا جا رہا ہے کہ ہڑتالیں اور احتجاج معیشت کو تباہ کر دیں گے حالانکہ لوڈشیڈنگ آج بھی اُسی طرح ہے‘ جس طرح سابق دور میں تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ لاہور میں فیروز پور روڈ پر نون لیگ کے مقامی دفاتر بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ جب بھی زرداری صاحب کی حکو مت کے خلاف کوئی دبائو ڈالنا مقصود ہوتا‘ فیروز پور روڈ پر موجود ان دفاتر سے سینکڑوں لڑکے بالے اکٹھے ہو کر سڑک پر آ جاتے‘ ٹائر جلاتے اور پتھرائو کرتے جس پر شہر کو آنے اور جانے والی ہزاروں
گاڑیاں ایمبولینسوں سمیت پھنس جاتیں لیکن انہیں کسی پر رحم نہ آتا۔ مریض مرتے رہتے‘ طالبعلم اور نوکری پیشہ ذلیل ہوتے لیکن احتجاج نہ رُکتا۔ حکمران جماعت کے جو لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح شہر بند کرنا اور احتجاج کرنا پاکستان دشمنی ہے ‘ میں انہیں زیادہ دُور نہیں لے جاتا‘ پانچ برس قبل جب عدالت کی طرف سے شریف برادران کی نا اہلی کے حوالے سے اُن کے خلاف فیصلہ آیا تو ملک کے مختلف شہروں میں نون لیگ کے کارکنوں نے مظاہرے شروع کر دئیے ۔ جبکہ وکلاء نے بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا۔ راولپنڈی سکس روڈ پر ن لیگ کے کارکنوں نے عدالتی فیصلے کے خلاف احتجاج اورنعرے بازی کی اورٹائر جلا کر ٹریفک بلاک کر دیا۔فیصلہ آتے ہی لاہور میں بھی لیگی کارکنان سڑکوں پر نکل آئے ،مشتعل افراد نے ٹائر جلائے اورہنگامہ آرائی کی۔ ہنگامہ اتنا زیادہ تھا کہ صورت حال سے نمٹنے کیلئے گورنر ہائوس اور ایوان وزیر اعلیٰ پر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔مسلم لیگ ن سندھ کی جانب سے بھی صوبے بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے درجنوں وکلاء ایم اے جناح روڈ پر نکل آئے جس کے نتیجے میں ایم اے جناح روڈ پر ٹریفک کا نظام معطل ہو گیا۔ ٹنڈو محمد خان اور دیگر علاقوں میں نامعلوم افراد کی طرف سے ہوائی فائرنگ کے واقعات بھی ریکارڈ ہوئے۔ فائرنگ سے شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا اور تجارتی مراکز بند ہوگئے ۔ کوئٹہ میں بھی ن لیگ کے کارکنوں نے ٹائر جلا کر احتجاج کیا اور ٹریفک معطل کردی۔ ایبٹ آباد میں ن لیگ کے مشتعل کارکنوں نے فوارہ چوک پر شاہراہ ریشم بلاک کردی اور راولپنڈی میں لیگی کارکنوں نے شہزاد ٹاؤن کے تھانے کی عمارت کو نقصان پہنچایا ۔ ان ہڑتالوں اور احتجاجوں کے ذریعے لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ، فیصل آباد سمیت صوبے کے مختلف شہروں کی بڑی مارکیٹیں بند کرائی گئیں اورکاروبار زندگی معطل کر دیا گیا حالانکہ نون لیگ کے خلاف فیصلہ حکومت یا عوام کی طرف سے نہیں بلکہ عدالت کی طرف سے آیا تھا جس کی توقیر کی جانی چاہیے تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت اگر یہ سب نوراکشتی کے تحت جائز تھا‘ اس وقت یہ ان کیلئے جمہوری اور آئینی حق تھا تو اب تحریک انصاف کیلئے غیر جمہوری اور پاکستان دشمنی کیسے ہو گیا؟ کیا صرف اس لئے کہ تحریک انصاف پیپلزپارٹی کی طرح فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا نہیںکر رہی؟ اگر نون لیگ کے مطابق 2009ء میں پنجاب حکومت کا خاتمے غلط فیصلہ تھا‘ گورنر راج غلط تھا‘اگر اس وقت یہ فیصلہ نون لیگ کو ملنے والے مینڈیٹ کے خلاف تھا اور اس فیصلے کے خلاف احتجاج‘ پہیہ جام‘ شٹر ڈائون اور کاروبار زندگی معطل کرنا جائز تھا تو پھر اگر گیارہ مئی کو تحریک انصاف کا مینڈیٹ چوری ہوتا ہے‘ اگر وہ دھاندلی کی تحقیقات اور حلقے کھولنے کا مطالبہ کرتی ہے اور ہر ادارے میں اپنا مسئلہ لے جانے کے باجود اسے انصاف نہیں ملتا اور تنگ آ کر وہ احتجاج ‘ ریلیوں اور شہر بند کرنے کا اعلان کرتی ہے تو یہی کام تحریک انصاف کے لئے حرام ‘ پاکستان دشمنی ‘ قانون شکنی اور نون لیگ کے لئے حلال‘ جائز اور مقدس کیسے ہو گیا؟ ایک ہی چیز ‘ ایک کے لئے زہر اور دوسرے کے لئے دوا کیسے بن گئی؟ کوئی بتائے گا؟