کل جس وقت عمران خان لاہور میں بھٹہ چوک پر خطاب کے دوران دس ماہ کی معصوم بچی کو لپک کر اٹھا رہے تھے ‘ مجھے وہ منظر یاد آ گیا جب بائیس برس قبل وہ ہاتھ میں ورلڈ کپ لہرا رہے تھے اور پوری دنیا انہیں خراج تحسین پیش کر رہی تھی۔ آج بھی منظر وہی تھا‘ بس ورلڈ کپ کی جگہ دس ماہ کی پیاری سی بچی تھی۔ لوگ بھی وہی تھے اور جوش خروش پہلے سے کہیں زیادہ۔ یہ صرف ایک معصوم بچی نہ تھی بلکہ اس قوم کا مستقبل تھا جسے بچانے کے لئے عمران خان اٹھارہ برس سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آپ ذرا اُن والدین کا حوصلہ اور ہمت دیکھئے جو اس کھچا کھچ بھرے مجمعے میں اپنی بچی لائے اور اسے اعتماد کے ساتھ عمران خان کے ہاتھوں میں دے دیا۔ اس عمل کے ذریعے انہوں نے ثابت کر دیا آج والدین اپنی نئی نسل کے مستقبل کے لئے کتنے فکر مند ہیں اور اگر وہ اپنے بچوں کے مستقبل کی ذمہ داری کسی کے ہاتھ میں دینا چاہتے ہیں‘ تو وہ عمران خان ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ کپتان انہیں اور ان کے بچوں کو ہرگز مایوس نہیں کرے گا۔
کل پورا دن لیگی حکمران احتجاج کی کمزوریوں کو تلاش کرتے رہے۔ پہلا الزام میٹرو بس بند کرنے کا لگایا۔کوئی ان سے یہ پوچھے کہ جب پتہ تھا احتجاج ہو رہا ہے تو میٹرو بس چلائی کیوں تھی اور اگر کل چلانی تھی تو پھر جب گزشتہ ماہ تحریک انصاف کا مینار پاکستان میں جلسہ ہوا تھا تو اس روز کیوں بند کی تھی؟ کیا صرف اس لئے کہ لاہور کی بڑی آبادی میٹرو بس میں بیٹھ کر مینار پاکستان جلسے میں نہ پہنچ جائے؟ میٹرو بس پر ایک ارب روپے ماہانہ سبسڈی دی جاتی ہے۔ کیا یہ پیسے عوام کی جیب سے جاتے ہیں یا حکومتی وزیروں کی جیبوں سے جو اسے جب چاہے بند کر دیں اور جب سیاسی فائدہ ملے تو کھول دیں۔ دوسرا الزام یہ لگایا کہ ایک ایمبولینس میں بچہ ہسپتال نہ جانے دیا گیا جس سے وہ جاں بحق ہوا۔ یہ انتہائی افسوس
ناک تھا لیکن انسانی جانوں پر سیاست ناقابل قبول۔ اس طرح تو آئے روز حکمرانوں کے وی وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے جو ایمبولینسیں روکی جاتی ہیں‘ ان میں مرنے والوں کے خون کا حساب کس سے مانگا جائے گا؟ کل تک جو تحریک انصاف کو یہ الزام دیتے تھے کہ انہیں لاشیں چاہئیں تاکہ وہ سیاست کر سکیں تو کل حکمران اور اس کے ترجمان کیا کر رہے تھے؟ سرگودھا‘ وہاڑی اور سندھ کے ہسپتالوں میں جو بچے آکسیجن اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے روزانہ مر رہے ہیں‘ ان کا خون کس کی گردن پر آئے گا؟ کیا عوام کو اتنا ہی بیوقوف سمجھا ہوا ہے کہ وہ تین مہینے قبل کی باتیں بھول جائیں کہ جب ماڈل ٹائون میں کسی کو ادویات اور کھانا لے جانے کی اجازت نہ تھی۔ بچے تک سکول جا سکے نہ لوگ نوکریوں پر۔اس دوران ادارہ منہاج القرآن کے ایک سینئر بزرگ کو دل کا دورہ پڑا لیکن حکمرانوں نے انہیں ماڈل ٹائون سے نکال کر کسی ہسپتال لے جانے کی اجازت نہ دی اور وہ وہیں انتقال کر گئے۔کل جناب پرویز رشید فرما رہے تھے کہ ہم نے بھی تحریکیں چلائیں مگر کبھی کوئی جان ضائع نہ ہوئی۔ بالکل درست۔جب آپ تحریکیں چلاتے ہیں تو کوئی جان نہیں ضائع ہوتی لیکن جب آپ حکمرانی کرتے ہیں تو ماڈل ٹائون میں بارہ مرد اور دو خواتین کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔کمال ہے‘ اس وقت آپ کو افسوس کیوں نہیں ہوا جیسے کل محسوس ہو رہا تھا؟
جو کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے شہر بند کر کے لاہور کے عوام کو تکلیف پہنچائی‘ انہیں چودہ اگست سے قبل کا ایک ہفتہ کیوں بھول گیا جب لاہور کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا تھا اور ان کنٹینروں کے نیچے سے
بچے‘ بوڑھے اور عورتیں کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگ رینگ کر گزر رہے تھے۔ راوی کے پل پر کروڑوں افراد نے وہ مناظر دیکھے جب معذور افراد تک کوبھی راستہ نہ دیا گیا اور تو اور شیخو پورہ سے لاہورآنے والی کئی ایمبولینسیں گھنٹوں شور مچاتی رہیں‘ مریض تڑپتے رہے‘ انسان تو انسان‘ لاشوں تک کو لاہور کی حد پار کرنے کی اجازت نہ ملی اور کئی میتیں لاہور جنازے کیلئے نہ پہنچ پائیں۔
کل لاہور کی صورتحال ایسی تھی جس کی مثال نہیں ملتی۔ ہر کوئی پرجوش‘ پر اعتماد اور پر عزم دکھائی دے رہا تھا۔ لوگ ایک دن کیا‘ اپنی جان‘ اپنا مال ‘سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھے کہ شاید اس طرح وہ نئے پاکستان میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ میں نے سڑک کنارے ایک بوڑھے شخص سے پوچھا کہ وہ احتجاج کیوں کر رہا ہے۔ کہنے لگا میری ایک دن کی دیہاڑی ماری گئی لیکن اس افسوس سے زیادہ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ میں ایک عظیم مقصد کی خاطر یہ قربانی دے رہا ہوں۔ میں نے تمام دور ‘ تمام لیڈر دیکھے ہیں‘ قائد اعظم کے بعد مجھے کوئی بھی ایسا لیڈر نظر نہیں آیا جس کی بنیاد سچ پر کھڑی ہو۔ ایک رکشے والے سے پوچھا‘ کیا اسے آج کی دیہاڑی جانے پر افسوس ہے تو وہ پھٹ پڑا۔ کہنے لگا پہلے ہم کون سا نوٹوں کے محل بنا رہے ہیں۔ بجلی ہے نہ گیس‘ بچوں کی فیسوں کے پیسے ہیں نہ ادویات کے‘ جس دن دیہاڑی لگتی ہے تب کون سا گھر میں عید ہو جاتی ہے۔ آئے روز ٹریفک وارڈن ہم جیسے رکشہ ڈرائیوروں کا چالان کرتے ہیں‘ تھپڑ مارتے اور بے عزتی کرتے ہیں لیکن حکمرانوں کو یہ نظر نہیں آتا۔ کہنے لگا‘ جو عمران خان کر رہا ہے‘ حکمرانوں کا یہی علاج ہے اور وہ ایسے ہی ٹھیک ہوں گے۔نئے پاکستان کے لئے وہ اپنی ایسی ہزار دیہاڑیاں ‘ اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہے۔
کیسی بات ہے۔ وہ ‘جنہیں یہ برگر کرائوڈ کہتے تھے‘ حکمرانوں نے ان کے خلاف پولیس بھی استعمال کر لی‘ نون لیگ کے گلوئوں سے بھی لڑوا دیا‘ ان پر گولیاں بھی چلا لیں‘ پتھر اور ڈنڈوںسے ان کے سر بھی پھوڑلئے‘ تھانے اور جیلیں بھی بھرلیں لیکن یہ کیسے برگر اور ممی ڈیڈی نکلے جو اپنا حق لینے سے باز ہی نہیں آ رہے؟ جو ہر قیمت پر نیا پاکستان چاہتے ہیں۔ ایسا پاکستان جس میں ہر کسی کو عزت ملے ‘ ہر کسی کی بات سنی جائے‘ ہر کسی کا خیال رکھا جائے‘ لوگوں کو ان کے حقوق ملیں۔ جسے یہ برگر کرائوڈ کہتے تھے‘ان کے اپنے بچے بھی ایسے ہی ہیں‘ یہ وہ نئی نسل ہے جسے اس پاکستان میں اپنا مستقبل مکمل طور پر تاریک نظر آتا ہے۔ ان کے لئے حکمرانوں نے دو ہی راستے چھوڑے ہیں‘ وہ ملک چھوڑ جائیں یا پھر یہاں دو خاندانوں یا دو سیاسی جماعتوں کی غلامی کریں۔ کل تک حکمران ان دونوں راستوں پر خوش تھے۔ لیکن عمران خان نے نوجوانوں کو جگا کر حکمرانوں کی اس ساری خوشی پر پانی پھیر دیا۔ اب نوجوان باہر جانے کی بجائے اس ملک کو باہر جیسا بنانا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے حکمران چاہتے ہیں کہ سارے ذہین نوجوان ملک سے باہر چلے جائیں تاکہ یہاں صرف وہ کمزور اور ان پڑھ جاہل رہ جائیں جو ان کے اشاروں پر چلتے رہیں‘ انہیں خاموشی سے ووٹ دیتے رہیں اور اپنے حقوق مانگنے کی جرأت نہ کریں۔
ہر طرح کی سازشوں میں ناکامی کے بعد نون لیگ کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھاکہ وہ اپنے گلوئوں کو تحریک انصاف کے جھنڈے اور مفلر دے کر جلوسوں میں گھسا دے تاکہ یہ لوگ جو بھی منفی عمل کریں‘ اس کا الزام براہ راست تحریک انصاف پر لگا دیا جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ کل یہ سازش بھی ناکام ہو گئی۔ لیگی گلوئوں کے ذریعے صحافیوں اور خواتین سے بدتمیزی کرانے کے باوجود عوام کے دل میں حکمرانوں کیلئے ہمدردی پیدا نہ ہوئی۔ لوگوں نے دکانیں اور ٹرانسپورٹ اپنی خوشی سے بند رکھیں اور اس امر کا اعلان کر دیا کہ وہ دھاندلی ‘ کرپشن اور دھونس سے پاک پاکستان چاہتے ہیں۔ یہ بھی ثابت ہو گیاکہ لاہور اب عمران خان کا قلعہ ہے۔ حکمران کل کے لاکھوں کے ہجوم میں چھوٹے چھوٹے بچوں اور خواتین کو دیکھیں‘ نوجوانوں کا جذبہ دیکھیں۔یہ جذبہ پٹواریوں کو جلسے کیلئے خریدنے والوں کو عجیب تو لگے گالیکن کیا کریں کہ حکمرانوں کیلئے اب یہی نوشتہ دیوار ہے اور یہ جذبہ انہیں عمران خان جیسے دبنگ لیڈر نے دیا ہے۔ اب انہیں چاہیے کہ عمران خان کو خریدیں‘ اُس کی قیمت لگائیں اور یہ قیمت میں انہیں بتا دیتا ہوں‘ یہ قیمت ہے جوڈیشل کمیشن کا قیام‘ دھاندلی کی تحقیقات‘ انتخابی اصلاحات‘ چار حلقوںمیں گنتی‘ بیرون ملک چھپائی گئی رقوم کی واپسی اور اقربا پروری کا خاتمہ ۔ اگر حکمران یہ سب نہیں کر سکتے تو پھر اپنے انجام کا اور اس وقت کا انتظار کریں‘ جب صرف لاہور ہی کیا‘ پورا ملک کھلے گا بھی عمران خان کی کال پر اور بند بھی کپتان کی ایک آواز پر ہو گا!