گورنر محمد سرور نے جو چارج شیٹ نون لیگ کی حکومت کے خلاف سنائی‘ یہ تمام حکومتوں پر ایسے ہی فٹ آتی ہے۔ بھتہ خوری تو اب کہیں پروان چڑھی ہے لیکن عام آدمی عام سہولتوں کے لئے تب بھی ایسے ہی ایڑیاں رگڑتا تھا جیسے آج رگڑ رہا ہے۔ چودھری سرور کبھی گورنر ہائوس سے نکلتے اور بجلی گیس کا بل ٹھیک کرانے کی کوشش کرتے تو انہیں پتہ چلتا‘ عوام کے ساتھ ہوتا کیا ہے۔ جو کچھ انہوں نے سترہ ماہ میں محسوس کیا‘ اگر وہ عام آدمی کا بھیس بدل کر شہر میں نکلتے تو یہ سب ایک مہینے بلکہ ایک ہفتے میں ہی جان سکتے تھے۔ مجھے چودھری سرور کے ایک قریبی دوست نے بتایا کہ وہ سرکاری اداروں کی نج کاری کے بھی خلاف تھے۔ بالخصوص ان اداروں کی نج کاری جو منافع میں چل رہے ہیں اور جو ادارے نقصان میں چل رہے ہیں ‘ ان کے بارے میں بھی ان کا خیال تھا کہ انہیں منافع بخش بنانا ہی حکومت کا کام ہے نہ کہ ان کی قیمت لگا کر انہیں سر بازار نیلام کرنا۔یہ ان کا ڈومین نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ ان تحفظات کا اظہار ڈھکے چھپے کرتے رہے۔
قوم چودھری صاحب کو کیسے بتائے یہ حکومت نج کاری کے نام پر کرنا کیا چاہتی ہے۔ باقی چھوڑیں‘صرف سوئی ناردرن کو ہی لے لیں۔2006ء میں بھی اسے پرائیویٹائز کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کی یونین نے احتجاج وغیرہ کر کے اسے بچا لیا۔ 2010ء میں اس وقت دوبارہ کوشش کی گئی جب سینیٹر وقار احمد خان پرائیویٹائزیشن کمیشن کے کرتا دھرتا تھے۔ تب بھی یہ خواب پورا نہ ہوا۔ اب جبکہ شریف برادران تیسری مرتبہ حکومت میں ہیں‘ ایک مرتبہ پھر یہ ادارہ نشانے پر ہے۔ ہر حکومت کی طرح یہ حکومت بھی اس کی نج کاری کیوں چاہتی ہے‘ اس کی کچھ وجوہات ہیں اور یہ وجوہات وہ سیاستدان ہیں جو بڑے پیمانے پر گیس چوری میں ملوث ہیں۔یہ چاہتے ہیں یہ ادارہ سرکاری ہاتھوں
سے نکل جائے تاکہ ہر آنے والی حکومت انہیں تنگ کرنے کی کوشش نہ کرے ۔وہ آرام سے گیس چوری کرتے رہیں او ر کروڑوں اربوں کی ادائیگیاں روکے رکھیں ۔ اگر عام صارف گیس کا دو ماہ کا بل نہ دے تو اس کا میٹر تین ہزار روپے عدم ادائیگی پر کاٹ دیا جاتا ہے لیکن میرے ہاتھ کچھ ایسی تفصیلات لگی ہیں جنہیں پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کروڑوں اربوں روپے کے نادہندہ آرام سے گیس استعمال کر رہے ہیںا ور ان کے میٹروں کو کاٹنا تو درکنار‘ انہیں ہاتھ تک نہیں لگایا جاتا۔ ان نادہندگان میں پہلی کیٹیگری ان آٹھ سی این جی سٹیشنز کی ہے جو سولہ کروڑ اسی لاکھ روپے کی گیس چوری میں ملوث ہیں اور ان میں سے دو ایسے ہیں جو مسلم لیگ نون کے ایک معروف ایم این اے کے ہیں اور روز ہمیں ٹی وی پر بڑے بڑے بھاشن دے رہے ہوتے ہیں۔ دوسری کیٹیگری ایسے کمرشل اداروں‘ فیکٹریوں وغیرہ کی ہے جو 69کروڑ چالیس لاکھ روپے کے نادہندہ ہیں جنہوں نے گیس چوری کا جدید طریقہ ڈھونڈا ہے جسے بائی پاس کہتے ہیں۔ یہ فیکٹری میں زمین میں گہری ڈرلنگ کرتے ہیں اور فیکٹری میں آنے والے گیس کنکشن کے ساتھ اسے جوڑ دیتے ہیں۔ ضرورت کے مطابق ایک یا دونوں راستے استعمال کرتے ہیں۔تیسری کیٹیگری میںسیمنٹ‘ فرٹیلائزرز اور دیگر 134کمرشل ادارے شامل ہیں جو گیس چوری اور میٹر ٹیمپرنگ میں ملوث ہیں۔ ان کے ذمہ 45کروڑتیس لاکھ روپے کی رقم واجب الادا ہے ۔ چوتھی کیٹیگری چار بڑے مگر مچھوں کی ہے جن میں سے دو ٹیکسٹائل ‘ایک شیشے اور ایک کیمیکل کا کارخانہ چلاتا ہے ۔یہ 35کروڑ اسی لاکھ روپے کے نادہندہ ہیں۔ جب بھی ان کے خلاف
کارروائی کی کوشش کی گئی‘ سفارشیں آڑے آ گئیں۔پانچویں کیٹیگری میں پرائیویٹائزیشن کمیشن اور فرٹیلائزر سیکٹر شامل ہے۔ان کی طرف ایک کھاتے میں صرف دو کروڑ اسی لاکھ روپے کی رقم واجب الادا ہے لیکن ''فرض شناس‘‘افسران یہ رقم وصول کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے۔ چھٹی کیٹیگری میں دس ایسے آئی پی پیز ایسے ہیں جن کی طرف 13ارب روپے کے بقایا جات ہیں۔ یہ ایک طرف تو مہنگی بجلی پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں دوسری جانب اربوں روپے بھی ہڑپ کئے بیٹھے ہیں۔ یہی پیسہ پھر حکومت عام صارفین پر مختلف طرح کے ٹیکس لگا کر وصول کرتی ہے اور اپنا خسارا پورا کرتی ہے۔ ساتویں اور آخری کیٹیگری میں رہی سہی کسر واپڈا اور پیپکو نے نکال دی ہے جو گزشتہ برس فروری تک سوئی ناردرن کے سترہ ارب چون کروڑ روپے کے نادہندہ تھے یعنی دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت۔
میرا صرف ایک سوال ہے کہ ایک عام آدمی کا کیا قصور ہے جو دس بیس ہزار کی تنخواہ میں گزارا کرتا ہے اور اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح
ان اداروں کے پیٹ بھی بھر رہا ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی بندہ دو ماہ بجلی یا گیس کا بل ادا نہ کر پائے تو اس کا نام سول نافرمانوں کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ اس کا میٹر کاٹ دیا جاتا ہے اور اسے قسطیں تک کرانے کی سہولت نہیں دی جاتی۔کمپنی میں کام کرنے والے عام میٹر ریڈر کا حال بھی برا ہے۔ اس کے لئے کرپشن کے دروازے خود کمپنی نے کھولے ہیں تاکہ وہ خود بھی مال بنائے اور افسروں کو بھی کھلائے۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ ایک میٹر ریڈر کو گیس کے میٹر چیک کرنے کا کتنا معاوضہ ملتا ہے؟ ڈھائی روپے۔ جی ہاں ایک گھر کی میٹر ریڈنگ کے صرف ڈھائی روپے۔ بالفرض ایک ریڈر ایک ماہ میں چھ ہزار میٹرز کی ریڈنگ لیتا ہے تو اس کا کل معاوضہ پندرہ ہزار روپے بنتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے کوئی پیسے نہیں ملتے۔ اگر اس نے گلبرگ آفس سے نکل کر قصور یا شیخوپورہ جا کر ریڈنگ لینی ہے تو اس کے لئے پٹرول اور کرایہ بھی اپنے پاس سے لگا کر جانا ہے۔ میٹر ریڈر اوور ایج ہو جائے تو اسے ایک سال کی ایکسٹینشن بھی نہیں ملتی لیکن گزشتہ برس اس ادارے کے سربراہ کو دو برس کی ایکسٹینشن مل گئی اور لوگ منہ تکتے رہ گئے۔ کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز کے ملازمین سالہا سال سے کم ترین اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں اور اعلیٰ افسران کے ٹھاٹھ باٹھ ہی ختم ہونے کو نہیں آتے۔ کبھی گیس کنکشن بغیر سفارش کے ایک ماہ میں مل جاتا تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ کنکشن کے لئے کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ پانچ برس کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران اگر کوئی الیکشن آ جائے تو دُور کی بات۔ پھر تو ریوڑیوں کی طرح کنکشن بانٹے جاتے ہیں۔ لوگوں کی مشکلات دور کرنے کیلئے فاسٹ ٹریک کنکشن شروع کیا گیا۔ اس کی کل فیس اکتیس ہزار روپے بنتی ہے اور کنکشن لگنے کا کم از کم وقت چھ ماہ ہے۔ اس کے باوجود لوگ یہ کنکشن بھی وقت پر حاصل نہیں کر پاتے۔ پندرہ بیس برس سے کام کرنے والے سپرنٹنڈنٹ ملازمین کو آفیسر گریڈ ون میں ترقی دینے کی بجائے باہر سے آفیسر بھرتی کئے گئے جس سے ملازمین میں بددلی پھیل گئی۔ ایسے میں کہ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو کون دل لگا کر کام کرے گا ۔ بجائے اس کے کہ اس ادارے کے ان مسائل کو ختم کیا جاتا اور نادہندگان کو سلاخوں کے پیچھے پھینکا جاتا‘ ہر حکومت اس مرغی کو ایک ہی مرتبہ ذبح کر کے سارے انڈے نکالنا چاہتی ہے۔
چودھری محمد سرور کو میں کیسے بتائوں کہ ابھی انہوں نے دیکھا ہی کیا ہے۔ یہ تو ایک ادارے کی بات تھی۔ ہم آئے روز سرکاری اداروں کے سکینڈل دیتے رہتے ہیں لیکن مجال ہے کسی کے کان پر جوں تک رینگتی ہو۔ بات زیادہ سے زیادہ کمیٹی کے قیام پر منتج ہوتی ہے۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے کسی کو معلوم نہیں۔ چودھری صاحب نے کہا ہے کہ وہ نہ اپنی پارٹی بنا رہے ہیں نہ تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں‘ تو سوال وہی ہے کہ پھر وہ کیسے ان مسائل کے خلاف جنگ لڑیں گے جن کا اظہار انہوں نے گورنری چھوڑنے کے بعد کیا ہے۔میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ چودھری سرور اگر تنہا چلنے کی کوشش کریں گے تو وہ مخالفین کا آسان ہدف ہوں گے۔ انہوں نے گورنری چھوڑکر اور حاکم وقت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھا کر لوگوں کے دل جیت لئے ہیں۔ وہ اپنے عزائم کو کس طرح پورا کرنا چاہتے ہیں‘ کس طرح اس ملک کے ادارے اور اس کا نظام ٹھیک کرنا چاہتے ہیں‘عوام ان کی وطن واپسی پر یہ جاننے کے متمنی ہیں۔ دھرنے کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری بھی مسائل کا روناروتے رہے۔ ان کی بھی باتیں سچی تھیں۔ وہ بھی بیماری کی تشخیص کر چکے تھے لیکن عین آپریشن کے دوران وہ بھی مریض کو آپریشن تھیٹر میں تڑپتا چھوڑ کر چلے گئے۔ چودھری محمد سرور سے ہمیں اُمید ہے کہ کم از کم وہ ایسا نہیں کریں گے۔