میں نے اپنے گزشتہ کالم میں چودھری محمد سرور اور عمران خان کی جوڑی کو ایک اور ایک گیارہ قرار دیا تھا۔ دونوں پاکستان اور بیرون ملک یکساں مقبولیت رکھتے ہیں۔ دونوں پر کرپشن کا بھی کوئی الزام نہیں اور دونوں نے زیرو سے سٹارٹ کیا اور اپنی محنت اور عزم کی بدولت بام عروج تک پہنچے۔ چودھری سرور کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی خبروں سے جہاں بہت سے لوگ خوشی کا اظہار کر رہے ہیں ‘ وہیں کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ بھی اُٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ چودھری سرور جیسے ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے‘ پی ٹی آئی کا گراف ایک مرتبہ پھرآسمانوں کو چھونے لگے لگا۔ بالخصوص یہ خبر حکمران جماعت کے لئے بے چینی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ چودھری صاحب اگر یہ فیصلہ کر لیتے ہیں اور انہیں پارٹی میں مرکزی عہدہ بھی مل جاتا ہے تو نہ صرف برطانیہ بلکہ پوری دنیا میں مقیم پاکستانیوں کے لئے یہ شاندار خبر ہو گی۔ چودھری سرور کے عالمی کمیونٹی سے تعلقات اور اثرپذیری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ برطانیہ میں لیبر کونسلر کے طور پر اپنی سیاست کا آغاز کرنا اور پھر لیبر پارٹی سے برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے مسلمان ممبر پارلیمنٹ منتخب ہونا کوئی عام بات نہ تھی۔ جن جذبات کا اظہار چودھری سرور نے گورنر کا عہدہ چھوڑنے کے بعد پریس کانفرنس میں کیا‘ یہ جذبات کوئی نئے نہ تھے۔ وہ اسی جذبے اور لگن سے برطانیہ میں کام کرتے رہے۔ صرف اپنے کاروبار کو بڑھانے پر ان کی جدوجہد مرکوز نہ تھی بلکہ وہ پوری دنیا کے پاکستانیوں اور مسلمانوں کے مسائل کو اُجاگر کرتے رہے۔ ہائوس آف کامن میں کھڑے ہو کر وہ امریکی اور یہودی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے تو پوری دنیا کے مسلمانوں کو حوصلہ ملتا۔ انہوں نے اکیلے کشمیر‘ فلسطین‘ عراق اور افغانستان کے مسئلے پر جس قدر ٹھوس سٹینڈ لیا‘ اُتنا شاید تمام عرب ممالک کے
بادشاہوں اور صدور نے نہیں لیا ہو گا۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ ہم میں سے اکثر لوگ جو برطانیہ اور امریکہ جاتے ہیں‘ ان کی زیادہ سے زیادہ خواہش وہاں سیٹل ہونا اور اچھی زندگی گزارنا ہوتا ہے۔ کسی کو امیگریشن مل جائے تو اس کی ساری زندگی کا خواب پورا ہو جاتا ہے اور کوئی غیرقانونی طریقے سے یورپ کی سرحد پار کر جائے تو اسے بھی غنیمت شمار کرتا ہے۔ لیکن چودھری سرور وہ پہلے پاکستانی تھے‘ جنہوں نے اس سوچ اور اس ٹرینڈ کو تبدیل کیا۔ وہ بارش کا پہلا قطرہ تھے۔ ان کے بعد برطانوی پاکستانیوں کو ایک روڈ میپ میسر آ گیا اور ذہین پاکستانی کمیونٹی برطانوی سیاست میںدلچسپی لینے لگی۔ان کے بعد تو گویا برسات ہو گئی۔ کس کس کا ذکر کروں۔ خالد محمود‘ صدیق خان‘ شاہد ملک‘ رحمان چشتی‘ ساجد جاوید‘ شبانہ محمود‘یاسمین قریشی ‘ لارڈ نذیر احمد‘انس سرور ‘سعیدہ وارثی‘طارق احمد‘زاہدہ منظور‘ نوشینہ مبارک‘سجاد کریم‘امجد بشیر‘افضل خان‘بشیر احمد‘حمزہ یوسف اور محمد اصغر۔ یہ سب محمد سرور کا ہراول دستہ بنے۔ برطانیہ میں اگر پاکستانیوں یا مسلمانوں کے خلاف کوئی قوانین بنتے ہیں تو ان کی مخالفت کیلئے پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی موجودگی ازحد ضروری تھی لہٰذا یہ تمام برٹش پاکستانی نہ صرف برطانیہ بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی آوازبن گئے۔
یہ بھی سچ ہے کہ چودھری سرور سمیت لاکھوں پاکستانی بیرونی ممالک میں جتنے مرضی بڑے عہدوں پر پہنچ جائیں‘ جتنی مرضی ترقی کر لیں‘ جتنا مرضی پیسہ بنا لیں‘ فکر انہیں پاکستان کی ہی لگی رہتی ہے۔ وہ ہر دم یہی سوچتے ہیں کہ کاش ان کا ملک بھی ترقی کر سکے اور وہ واپس پاکستان آ جائیں۔ آپ کسی بھی اوورسیز پاکستانی سے مل لیں‘ آپ لندن اور نیویارک کی باتیں کریں گے تو وہ گھما پھرا کر اُسے پاکستان لے آئے گا۔ آپ پیرس کی خوشبوئوں کا ذکر چھیڑیں گے‘ وہ آپ کو دیہات کی سوندھی مٹی کی خوشبو یاد دلائے گا‘ آپ اس سے ڈزنی لینڈ کا ذکر سننا چاہیں گے‘ وہ آپ سے پرانے چھپڑوں میں نہانے کا ذکر چھیڑ دے گا اور آپ اُس سے امریکی کھانوں کا تذکرہ سننے کے مشاق ہوں گے تو وہ آپ کو سرسوں کا ساگ اورمکئی کی روٹی کا مزا سنائے گا۔ دیار غیر کے مکین ثابت کریں گے کہ وہ رہتے تو باہر ہیں لیکن دل ان کے پاکستان میں ہی دھڑکتے ہیں۔ وہ پاکستان آنا چاہتے ہیں‘ اس کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور اسی آس کو من میں بسائے دن گزارتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ جو ہمت کر کے واپس آتے ہیں‘ ان کے ساتھ ہم ایسا سلوک کرتے ہیں کہ وہ دوبارہ پاکستان آنے کا نام بھی نہیں لیتے۔ ایئرپورٹ سے لے کر ٹیکسی والے تک اور ٹیکسی سے لے کر ہوٹل تک سبھی کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس سے ڈالر نچوڑ لئے جائیں۔ نیویارک میں میرے ایک عزیز کے بچے چودہ سال کے ہونے لگے تو انہوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ بچے اس عمر کے بعد قانوناً ان کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ چاہے کوئی اپنے بچوں کی جتنی مرضی تربیت کرلے لیکن ایک عجیب سا دھڑکا سبھی کو لگا رہتا ہے۔ میرے عزیز نے جب اردگرد سے معلوم کیا اور اپنے سے پہلے واپس جانے والوں کی کہانیاں سنیں تو کانوں کو ہاتھ لگا لیا۔ کسی کو سرکاری اداروں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا‘ کوئی بھتہ مافیا کے ہتھے چڑھ گیا اور کوئی لوڈشیڈنگ‘ گیس اور پانی کی عدم دستیابی کے باعث واپس لوٹ گیا ۔ ان سب کے ساتھ وہی ہوا جو چودھری سرور اور ان کے عزیزوں کے ساتھ ہوا اور اسی لئے سابق گورنر کو یہاں تک کہنا پڑا کہ بھتہ اور قبضہ مافیا گورنر سے زیادہ طاقتور ہے۔ سوال یہ ہے کہ چودھری سرور کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کیا کرتا۔ مجھے یقین ہے کہ ننانوے فیصد لوگ ٹکٹ کٹاتے اور واپس مڑ کر دیکھنے کی ہمت نہ کرتے۔ چودھری صاحب کا یہیں رہنے اور مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ دبنگ اور حیران کن تھا۔ وہ لاکھوں اوورسیز پاکستانیوں کے نمائندے بن چکے ہیں۔ جن کے ساتھ چودھری صاحب شامل تھے‘ انہیں تو نیا پاکستان وارے میں ہی نہیں آتا ۔ اوورسیز پاکستانیوں کے لئے چودھری سرور ایسے ہیں جیسے وہ بیرون ملک قید لاکھوں پاکستانیوں کی آزادی کے لئے کسی میدان جنگ میں کود گئے ہوں۔ ظاہر ہے جو پاکستانی اپنے ملک سے دُور ہے وہ اپنے آپ کو یا تو نامکمل محسوس کرتا ہے یا دیارِ غیر کا قیدی۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ چودھری سرور کو جتنی سپورٹ اور پذیرائی بیرون ملک سے حاصل ہوگی‘ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اگر چند ماہ میں پاکستان کو جی ایس پی پلس سٹیٹس لے کر دکھا سکتے ہیں اور وہ بھی ایسے حالات میں‘ کہ نہ یہاں گیس ہے نہ بجلی تو اگر انہیں مناسب پلیٹ فارم میسر آ گیا‘ ایک ایسی ٹیم مل گئی جو ان کی صلاحیتوں کو چار چاند لگانے کا عزم رکھتی ہو تو پھر اس ملک کی تقدیر کیوں نہیں بدلے گی۔ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا چودھری سرور جاوید ہاشمی بن جائیں گے۔ میں لوگوں کے تقابل پر حیران ہوتا ہوں۔ کہاں چودھری سرور اور کہاں جاوید ہاشمی۔ مجھے کوئی بندہ بتا دے کہ سوائے ایک ڈکٹیٹر کے خلاف آواز بلند کرنے کے انہوں نے عام آدمی کیلئے کیا کیا۔ ویسے یہ کام بھی انہوں نے عام آدمی کے خلاف ہی کیا تھا کیونکہ جتنی ترقی فوجی ادوار میں ہوئی ہے‘ سیاسی حکومتوں میں نہیں ہوئی۔ بلکہ اس ملک کا بیڑہ غرق ہی سیاستدانوں نے کیا ہے۔ دوسری طرف محمد سرور ہیں‘ جن کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے۔ وہ برطانیہ جیسے ملک میں کاروبار اور سیاست دونوں میں کامیاب ہوئے جہاں ایک پائی کی رشوت اور کرپشن کرنا آسان نہیں جبکہ جاوید ہاشمی نے سوائے سیاسی آمروں کی چاپلوسی اور اُن کی لوٹ مار کے لئے راستہ ہموار کرنے کے اور کیاکیا۔ جاوید ہاشمی برائے نام ایک صدارت سے چمٹے رہنا چاہتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اُن کا نام ہی کافی ہے اس لئے انہیں کام کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ ویسے بھی وہ کرتے کیا۔ ملتان سے بار بار منتخب ہونے کے باوجود وہ ملتان کی حالت تک تبدیل نہ کرا سکے تو ان سے کون سی امید لگائی جا سکتی تھی۔ اس کے باوجود تحریک انصاف نے انہیں عزت بھی دی اور عہدہ بھی۔ یہ عہدہ اس شخص کے لئے بنا ہے‘ جو برطانیہ کی شاہانہ زندگی چھوڑ کر ایک پسماندہ ملک میں رہنے کا فیصلہ کر چکا ہے‘ جو قابل بھی ہے‘ وژنری بھی اور باصلاحیت بھی‘ میری اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف میں صدر کی کرسی پر اس شخص کا نام لکھ دیا گیا ہے‘ صرف باضابطہ اعلان کرنا باقی ہے۔