یوم پاکستان پر سات سال بعد مسلح افواج کی پریڈ نے دلوں کو گرما دیا۔ عرصے بعد پوری قوم ہم آواز نظر آئی۔ بچپن کے وہ دن یاد آ گئے جب ہم بھی والدین کے ساتھ پریڈ دیکھنے جایا کرتے تھے۔ اس وقت اس طرح کی دہشت گردی کا کوئی خدشہ تھا نہ خوف۔ تئیس مارچ اور چھ ستمبر کے دن کا پورا سال انتظار رہتا۔ جنگی ترانوں اور ملی نغموں سے فضا گونجتی تو ایک عجیب خوشی کا احساس ہوتا۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کے باعث گزشتہ سات برس سے یہ قومی دن خاموشی سے منائے جاتے رہے۔ دہشت گردی کی ممکنہ کارروائیوں کے خدشے کے باوجود یہ پریڈ منعقد کرنا شاندار فیصلہ تھا جس پر مسلح افواج کی جتنی بھی توصیف کی جائے‘ کم ہے۔ گزشتہ روز عوام نے فوج کے ساتھ مل کر دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں کو یہ پیغام دیا کہ تم چوہوں کی طرح بلوں میں سے نکل کر جتنے مرضی خودکش دھماکے کرا لو‘ دہشت گردی کو جائز قرار دینے کے لئے دین سے جتنی مرضی تاویلیں لے آئو اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو مارکر اسے جہاد کانام ہی کیوں نہ دے لو‘ یہ قوم تم سے ڈرنے والی نہیں ہے۔ اس فوج کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بھائی شبیر شریف بھی اسی مٹی پر قربان ہوئے تھے ‘ وہ بھی دشمن کے سامنے نہیں جھکے‘ ان کا بھائی بھی نہیں جھکے گا‘ ان کی قوم بھی نہیں جھکے گی۔ یہ قوم اب جاگ چکی ہے۔ یہ پاک فوج کے خلاف لکھنے‘ بولنے اور لڑنے والوں کو پہچان چکی ہے اور اس کا ثبوت اس نے گزشتہ روز جوق در جوق نکل کر دے دیا ہے۔
جو سمجھتے تھے کہ پشاور سکول میں دہشت گردی کے بعد پاکستانی عوام ڈر جائیں گے‘ گھروں میں بند ہو جائیں گے اور اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے نہیں ہوں گے‘ وہ کل کا دن ملاحظہ فرما لیں جب اسلام آباد‘ لاہور اورملک کے دیگر حصوں میں لوگ اس طرح نکلے جیسے انہیں کسی دہشت گرد کا کوئی خوف ہی نہ رہا ہو۔ نہ ان کے پاس بلٹ پروف گاڑیاں تھیں نہ بلٹ پروف جیکٹیں۔ ان میں بچے بھی تھے‘ خواتین بھی اور بوڑھے بھی۔ 65ء کی جنگ کے دوران بھی لوگ ایسے ہی جذبات لے کر نکلے تھے۔ یہ اپنے فوجی بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے اور ان کو میدان میں ڈٹے رہنے کی طاقت فراہم کرتے تھے۔ آج ملک پھر حالت جنگ میں ہے اور وہی جذبہ پھر بیدار ہو چکا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو سات آٹھ برسوں میں اپنے پچاس ساٹھ ہزار ساتھیوں‘ رشتہ داروں کو لحد میں اُتار چکے ہیں اور جن کے کاروبار‘ جن کے چولہے اور جن کی معیشت کو دہشت گردی نے برباد کر کے رکھ دیا ہے‘ اس کے باوجود یہ خطرہ مول لے کر صرف اس لئے باہر نکلے تاکہ دہشت گردوں کو یہ بتا سکیں کہ انہیں اپنے وطن سے کس قدر محبت ہے اور اس کے لئے وہ اپنا تن ‘ من اور دھن سب کچھ قربان کر سکتے ہیں۔ لاہور میں گلبرگ مین بلیوارڈ پر لاکھوں افراد نے جہاں سکیورٹی فورسز کا حوصلہ بڑھایا وہاں دہشت گردوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا جو سمجھتے تھے کہ انہوں نے ہمارے ہر میدان کو ویران کر دیا ہے۔
پشاور سکول سانحے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر گھر سے ایک بچہ فوج کے لئے وقف کرنے کا اعلان کر دیا جاتا تاکہ دشمن کو پیغام ملتا کہ وہ ایک سکول پر حملہ کر کے بچوں کو جس فوج میں جانے سے دور رکھنا چاہتے ہیں‘ اس قوم کا ہر دوسرا بچہ بڑا ہو کر فوجی بنے گا۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ آرمی سکولوں کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے فوج میں جا سکیں۔ پشاور سکول سانحے کے بعد دہشت گردوں کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح وہ نئی نسل میں ایک خوف پیدا کر دیں گے اور یہ خوف انہیں
جذبۂ جہاد سے دُور کر دے گا لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ اس کا الٹا اثر ہو گا۔ آپ جس بچے سے بھی پوچھیں وہ یہی کہے گا کہ وہ پاک فوج میں جانا چاہتا ہے۔ جہاد کی اہمیت ہم جیسے دنیادار نہیں سمجھ سکتے۔ذرا اس حدیث کی فضیلت کو سمجھیں جسے حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا''مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ہاں خیر (جنت) پا لینے والا کوئی شخص بھی دنیا میں لوٹنے کو پسند نہیں کرے گا اگرچہ اس کے بدلے میں اسے پوری دنیا اور اس کا تمام تر سازو سامان دے دیا جائے سوائے شہید کے (کہ وہ لوٹنے کی تمنا کرے گا)کیونکہ شہید نے شہادت کی فضیلت دیکھی ہے اس لیے وہ تمنا کرے گا کہ دنیا میں لوٹے اور پھر بار بار (اللہ تعالیٰ کے راستے میں) قتل ہو‘‘۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:اگر میری اُمت کے لیے (اس امر میں) دشواری نہ ہوتی (یا یوں فرمایا کہ لوگوں کے لیے دشواری نہ ہوتی) تو میں پسند کرتا کہ کسی بھی ایسے لشکر سے پیچھے نہ رہوں جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد پر نکل رہا ہو لیکن میں اتنی سواریاں نہیں رکھتا جن پر تمام لوگوں کو سوار کرکے (ساتھ)لے جاسکوں او ر نہ ہی سب لوگ اپنے پاس سواری (کی گنجائش) رکھتے ہیں اور ان کے لیے میرے (جانے کے بعد) پیچھے رہنا دشوار ہوگا۔ (راوی کہتے ہیں یااس سے ملتی جلتی کوئی بات فرمائی)اور میں پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کروں یہاں تک کہ قتل کردیاجائوں پھر
زندہ کیا جائوںپھرقتل کیا جائوں پھر زندہ کیا جائوں پھر قتل کیا جائوں۔
میں نے جہاد سے متعلق صرف دو احادیث نقل کی ہیں۔ اگر جہاد کے فضائل کا تذکرہ کروں تو صفحات بھر جائیں لیکن تذکرہ ختم نہ ہو۔ جس طرح اپنے بیوی بچوں اور مال و دولت کو چھوڑ کر فوجی جوان محاذ جنگ پر لڑتا ہے‘ اس کی عظمت و رفعت کا اندازہ ہمیں ہو نہیں سکتا اور جو مقام اور جو مرتبہ شہید کو ملتا ہے‘ اگر ہمیں اس کا معمولی سا بھی ادراک ہو جائے تو ہماری بھی ایک ہی خواہش ہو‘ ہم دوبارہ دنیا میں لوٹیں‘ ہم دوبارہ شہید کئے جائیں۔ کاش اس یوم پاکستان پر ہم اس سرزمین کی قدر کر سکیں جس کیلئے پاک فوج اور دیگر اداروں کے جوان اور عام شہری اپنے خون کا نذرانہ دے رہے ہیں۔
اس زمیں کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا
ارض پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا
نظم و ضبط کو اپنا میر کارواں جانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو
یہ زمیں مقدس ہے ماں کے پیار کی صورت
اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت دولت یقیں لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو
میر کارواں ہم تھے ، روح کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنواں تھے ، اصل داستاں تم ہو