مائوں کو دنیا سے جانے کے بعد بھی بچوں کی فکر رہتی ہے۔
مارچ کے اوائل میں میری والدہ نے مجھے عجیب بات کہی ۔ کہنے لگیں۔ ہماری رہائشی سوسائٹی میں چند دن قبل صبح کے وقت ایک فوتگی ہوئی۔ گھر والے گورکن کو تلاش کرتے رہے جو شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔ شام کو وہ واپس آیا اور رات گئے جا کر تدفین ہوئی۔ کہنے لگیں۔ بیٹا! میں نہیں چاہتی تم لوگوں کو میری وجہ سے ایسی کوئی تکلیف ہو۔ جیسی ہی میں اس دنیا سے جائوں تم قبرستان جا کر قبر کی تیاری شروع کرا دینا ۔ ایسا نہ ہو کہ تم لوگوں کو انتظار کی تکلیف سے گزرنا پڑے۔
میں سوچتا رہا آخر وہ یہ بات کیوں کہہ رہی ہیں۔
جمعہ آٹھ مئی کی شب گیارہ بجے جب میں اپنی والدہ کے سرہانے کھڑا تھا‘ مجھے ان کی یہ نصیحت یاد آگئی ۔ دنیا کی ساری تکلیفوں‘ دکھوں اور پریشانیوں سے وہ دور جا چکی تھیں۔
کیسا عجب اتفاق ہے۔ 11اپریل کو جس روز ان کا دل کا بائی پاس آپریشن ہوا‘ یہ ان کی شادی کی سالگرہ تھی۔11مئی کو ان کا 72واں یوم پیدائش تھا۔ اس سے ایک روز قبل مائوں کا عالمی دن تھا۔ 8مئی کو سکولوں میں مائوں کے عالمی دن کے حوالے سے تقریبات ہوئیں۔ میرے نو سالہ بیٹے عفان احمد نے ہزاروں طالبعلموں کے سامنے نظم ''پیاری ماں مجھ کو تیری دُعا چاہیے‘ ‘پڑھی۔ اس کی آواز میں اللہ نے ایسا سوز رکھا ہے کہ پرنسپل ‘ اساتذہ سمیت سینکڑوں بچے سسکیوں کے ساتھ روتے رہے۔ سب کو اپنی اپنی ماں یاد آ گئی۔ جمعہ کی شام میں تازہ یخنی لے کر ہسپتال پہنچا۔ آئی سی یو سے معلوم ہوا‘ ابھی ٹھہر کر بھجوائیں۔ میں باہر آ گیا۔ برادرم رئوف کلاسرا کو ان کی حالت کے بارے میں تفصیلی پیغام بھیجا۔ والدہ محترمہ بائی پاس آپریشن کے بعد چار روز آئی سی یو میں رہیں اور پھر کمرے میں آ گئیں۔ تھوڑی تھوڑی باتیں کرتیں۔یوں لگا وہ ٹھیک ہو
رہی ہیں۔نرسوں کو بتایا۔ میرا ایک بیٹا نادرا میں ہے۔ ایک مسجد میں میرے لئے دُعا کر رہا ہے۔ تیسرا کالم لکھتا ہے۔ پھر اخبار منگوا کر مجھ سے پوچھا۔ آج کالم کیوں نہیں لکھا۔ میں اسی روز دفتر گیا اور جا کر کالم لکھ دیا۔ اگلی صبح وزٹ پر آنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کو اخبار کھول کر دکھایا ۔ یہ دیکھیں ‘ بیٹے کا کالم آیا ہے۔یہ وہ آخری چند باتیں تھیں جو طبیعت کی بہتری کے دوران انہوں نے کیں۔ اس کے بعد طبیعت ناساز ہونے پر دوبارہ آئی سی یو منتقل ہو گئیں۔ پھر ایک روز ڈاکٹر نے بتایا کہ دوبارہ سرجری کرنا پڑے گی۔ یہ آپریشن بھی ہو گیا لیکن طبیعت بحال نہ ہو سکی۔ برادرم رئوف کلاسراکو میں نے لکھا: میری والدہ کو ہسپتال داخل ہوئے مہینہ ہونے کو ہے۔ براہ کرم امریکہ میں کسی ڈاکٹر سے رابطہ کر کے بتائیں کہ وہ اتنی نیند میں کیوں رہتی ہیں۔ میں انہیں علاج کے لئے امریکہ لے جانا چاہتا ہوں‘زندگی میں واپس دیکھنا چاہتا ہوں۔ کلاسرا صاحب کا پیغام آیا ‘ انہوں نے امریکہ میں ڈاکٹر کو پیغام بھیج دیا ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ کال کرتے ہیں۔ اس وقت رات کے نو بجے تھے۔ اچانک ڈاکٹروں نے بتایا کہ فوراً خون کی دو بوتلوں کا انتظام کریں۔ میں ایک ڈونر کو بلیڈ کروانے لگا۔ ساڑھے دس بجے کے قریب پیغام آیا آپ کو ڈاکٹر بلا رہے ہیں۔ میں بھاگتا ہوا دو منزلیں اوپر پہنچا۔ آئی سی یو میں داخل ہوا تو والدہ کے کیبن کے سامنے پردہ کیا ہوا تھا۔ ایک ڈاکٹر مجھے کمرے میں لے گیا۔ کہنے لگا۔ اچانک ان کا دل دھڑکنا بند ہو گیا ہے۔ پھر بھی ہم کوشش کر رہے ہیں۔ میں سمجھ گیا مجھے ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ میں نے جلدی سے وضو کیا اور وہیں
جائے نماز بچھا کر والدہ کی آخری نماز عشا ء ادا کی ۔ چند ہی منٹ بعد ڈاکٹروں نے ان کے سفر آخرت کی تصدیق کر دی ۔ ڈاکٹر محمد سرور اور ڈاکٹر خالد حمید نے اپنی جان لڑا دی مگر اللہ کو یہی منظور تھا۔
ساری عمر وہ نماز اور صبر سے کام لینے کی تلقین کرتی رہیں۔ انہی دو چیزوں کے سہارے اپنی زندگی گزار دی۔اچھے اخلاق اور برداشت کا درس دیا۔ اب یہی میرا سرمایہ‘یہی میرا اثاثہ ہے۔
میں پچھلے چند دنوں میں یہ فقرہ کئی بار سن چکا ہوں۔ آپ نے اپنی والدہ کی بہت خدمت کی۔ اس کے جواب میں جب میں کہنے والے سے ایک سوال کرتا ہوں تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ میں پوچھتا ہوں دنیا میں کسی انسان نے کبھی کسی کو یہ کہتے سنا ہے کہ فلاں والدین نے اپنے بچے کی بڑی خدمت کی۔ جواب ملتا ہے۔ نہیں‘ یہ تووالدین کا فرض ہوتا ہے۔ تو میں پوچھتا ہوں تو پھر کیا بچوں کا فرض نہیں کہ وہ اپنے والدین کی بھی اسی طرح خدمت کریں۔ ہم جسے خدمت کہتے ہیں یا جو تھوڑی بہت ہم ان کے لئے بھاگ دوڑ کرتے ہیں‘ یہ کر کے دراصل ہم اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دے رہے ہوتے ہیں کہ شاید ہم اپنے والدین کے احسانات کا کوئی بدلہ چکا رہے ہیں۔ چاہے ہم انہیں سر پر بٹھا کر پوری دنیا کا چکر کیوں نہ لگائیں‘حقیقت میں ہم اُس ایک رات کا بدلہ نہیں چکا سکتے جو رات انہوں نے ہماری پرورش کے دوران جاگ کر گزاری ہے۔
والدین جب حیات ہوتے ہیں‘ تو ان کی قدر اس طرح محسوس نہیں ہوتی۔ ہم ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں اور خوشیوں کو یوں نظرانداز کرتے ہیں جیسے یہ معمول کی باتیں ہوں۔ یہی باتیں بعد میں دل میں ایک کسک بن کر چبھتی ہیں ۔ انسان سوچتا ہے کہ کاش! اس وقت ان کی فلاں خواہش پوری کر دی ہوتی۔ کاش انہیں فلاں وقت دُکھ نہ دیا ہوتا۔ لیکن تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
موت تو ایک اٹل حقیقت ہے جس کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا۔ آج پتہ چلا‘یہ فقرہ صرف ماں پر ہی جچتا ہے کہ ان کے جانے کے بعد خلا کبھی پُر نہ ہو سکے گا۔ اللہ تمام والدین پر اپنی رحمت کا سایہ نازل فرمائے اور والدہ مرحومہ کی چھوٹی بڑی لغزشیں معاف فرما کر انہیں جوار ِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ میری ڈھارس بندھانے جو صاحبان گھر تشریف لائے‘بالخصوص دنیا گروپ کے چیئرمین جناب میاں عامر محمود‘ جناب سلمان غنی‘ جناب ارشاد احمد عارف ‘جناب سہیل احمد اور دیگر پیار کرنے والوں کا شکریہ جن کی آمد اور تسلی کے چند الفاظ اس کڑے وقت میں حوصلے کا باعث بنے ۔آخر میں وہ نظم جو میرے بیٹے نے 8مئی کو میری والدہ کی وفات کے دن اپنے سکول میں پڑھی۔اس کے آخری تین بند جناب اسلم کولسری صاحب کے ہیں۔
پیاری ماں مجھ کو تیری دُعا چاہیے
تیرے آنچل کی ٹھنڈی ہوا چاہیے
لوری گا گا کے مجھ کو سلاتی ہے تُو
مسکرا کر سویرے جگاتی ہے تُو
مجھ کو اس کے سوا اور کیا چاہیے
پیاری ماں مجھ کو تیری دُعا چاہیے
تیری خدمت سے دنیا میں عظمت میری
تیرے قدموں کے نیچے ہے جنت میری
عمر بھر سر پہ سایہ تیرا چاہیے
پیاری ماں مجھ کو تیری دُعا چاہیے
تیری ممتا کے سائے میں پھولوں پھلوں
تھام کر تیری انگلی میں بڑھتا چلوں
آسرا بس تیرے پیار کا چاہیے
پیاری ماں مجھ کو تیری دُعا چاہیے
اُلجھے اُلجھے ہیں جیون کے سب راستے
اَن گنت مشکلیں ہیں مرے واسطے
مجھ کو تجھ سا ہی بس رہنما چاہیے
پیاری ماں مجھ کو تیری دُعا چاہیے
تیرے دم سے مری جان میں جان ہے
تیری چاہت مرا دین و ایمان ہے
مجھ کو بس اِک تیرا آسرا چاہیے
پیاری ماں مجھ کو تیری دُعا چاہیے
میرے چاروں طرف روشنی تجھ سے ہے
اور میرے جسم میں زندگی تجھ سے ہے
روشنی‘ زندگی یہ سدا چاہیے
پیاری ماں مجھ کو تیری دُعا چاہیے