کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے فراڈ کرنے میں پاکستانیوں کا کوئی ثانی نہیں۔ ایگزیکٹ تو پھر ایک ادارہ ہے‘ آج سے چھ سال قبل مئی 2009ء میں اوکاڑہ کے ایک چودہ سالہ لڑکے نے پورے پاکستانی میڈیا کی آنکھوں میں دُھول جھونک دی تھی ۔ یہ لڑکا اوکاڑہ کے ایک آڑھتی کا بیٹا تھا لیکن اس کا دماغ ایگزیکٹ کے سی ای او سے بھی زیادہ تیز چلتا تھا۔ آٹھویں پاس اس لڑکے کی زیادہ سے زیادہ مہارت تصاویر اور دستاویزات کو کمپیوٹر سافٹ وئیرز کے ذریعے تبدیل کرنا تھی جسے اس نے شہرت حاصل کرنے کیلئے کامیابی سے استعمال کیا۔ اس نے بڑا تکنیکی کھیل کھیلا اور مقامی میڈیا کو اعتماد میں لے کر بیوقوف بنانے کا فیصلہ کیا۔ اسے علم تھا کہ مقامی اخبارنویس اس کی سٹوری کے بیج بونے میں اس کی مدد کریں گے جس کے بعد ملکی میڈیا خودبخود اسے پھیلاتا چلا جائے گا اور یہی ہوا۔ اس کے والد نے مقامی سطح پر ایک تقریب سجائی اور تقریب میں یہ خبر بریک کر دی کہ چودہ سالہ عمار افضل نے انٹرنیٹ کے آن لائن عالمی مقابلے اوریکل نائن میں سب سے زیادہ نمبر لے کر پوری دنیا کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ موصوف نے دعویٰ کیا کہ ایک امریکی بینک کی اے ٹی ایم مشین کے نیٹ ورک میں گزشتہ دنوں جو خرابی پیدا ہو گئی تھی اور جسے دنیا بھر کی آئی ٹی کمپنیاں اور سافٹ ویئر انجینئرز دُور نہیں کر سکے تھے‘ وہ خرابی اس بچے نے چند منٹوں میں ٹھیک کر دی تھی۔ اس کامیابی پر موصوف نے پچیس ہزار ڈالر کیش انعام ملنے کا بھی دعویٰ کیا۔ یہ سن کر حاضرین یوں تالیاں بجاتے رہے جیسے یہ سب حقیقت ہو۔ بات یہیں ختم ہو جاتی تو بھی ٹھیک تھا لیکن موصوف کے دعوے ابھی جاری تھے۔ اس نے
کہا کہ وہ برین بینچ نامی ایک ویب سائٹ سے اوریکل کی آن لائن تیاری کر رہا تھا اور اس کے ایک پروفیسر سے اس کی شرط لگی تھی کہ وہ اوریکل میں ریکارڈ نمبر لے کر دکھائے۔ موصوف نے پروفیسر کے لئے سائمنڈ کا نام استعمال کیا۔ اس کے مطابق سائمنڈ اسے ٹھیک طرح نہیں پڑھاتا تھا جس پر اس نے دن رات خود ہی تیاری کی اور ننانوے فیصد نمبر لے کر اوریکل کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی۔موصوف کے مطابق دوسرے نمبر پر امریکہ اور تیسرے نمبر پر سپین کا طالب علم آیا۔لمبی لمبی چھوڑنے کا سلسلہ یہی ختم نہیں ہوا بلکہ اس نے اس کامیابی کے بعد امریکہ اور برطانیہ کی آپس میں کھینچا تانی کی یوں منظر کشی کی کہ دونوں ممالک چاہتے تھے کہ اتنا ذہین و فطین بچہ اس کے ہاں آئے‘ یہیں رہے‘ یہیں تعلیم حاصل کرے تاکہ ان کے ملک کا نام روشن ہو ۔ عمار افضل کے مطابق اس نے دونوں ممالک کی آپسی لڑائی کو ختم کرنے کے لئے برطانیہ کے حق میں فیصلہ سنا دیا‘ یوں امریکہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ موصوف کے مطابق برطانیہ نے اسے اس کے بہن بھائیوں اور والدین سمیت برطانیہ بلا لیا۔ نہ صرف بلا لیا بلکہ ایک برطانوی کمپنی نے اسے پچیس لاکھ روپے ماہانہ کی ملازمت بھی آفر کی‘ جو عمار افضل نے اس لئے بادل نخواستہ قبول کر لی کہ اتنی کم تنخواہ موصوف کے شایان شان نہ تھی۔ تاہم موصوف کے مطابق چونکہ اسے رہائش بھی ملی‘ شاندار
گاڑی بھی اور اس کی برطانوی یونیورسٹی کی جانب سے نوے ہزار ڈالر سالانہ فیس بھی معاف ہو گئی چنانچہ اس نے برطانیہ جانے کو ترجیح دی۔یہ دیومالائی قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ اس نے دعویٰ کیا کہ اس کے اعزاز میں برطانیہ میں ایک شاندار تقریب بھی منعقد ہوئی جس میں دنیا کی متمول ترین شخصیات شریک ہوئیں۔
یہ تمام دعوے کرنے کے بعد تقریب ختم ہو گئی اور مقامی اخبارات اور نمائندوں نے یہ طوطا کہانی اپنے اخبارات‘ ٹی وی چینلز اور نیوز ایجنسیوں کو بھجوا دی۔ بس پھر کیا تھا۔ کسی نے ایک پروگرام میں ذکر کیا تو اس کی دیکھا دیکھی دوسرا پیچھے چل پڑا۔ وہ لڑکا جسے کل تک اس کے محلے والے تک نہ جانتے تھے چند ہی دنوں میں پورے ملک میں اس کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔ میں نے یہ ناقابل یقین سٹوری سنی تو مجھے بھی اشتیاق پیدا ہوا کہ اس ''انمول ہیرے‘‘ کے بارے میں جان سکوں۔میں نے اسے کہا کہ میںنئے ٹیلنٹ بالخصوص نوجوانوں کی کامیابیوں کو اُجاگر کرتا ہوں‘ تاہم مجھے تمہارے حوالے سے کچھ شکوک و شبہات ہیں‘ تم مجھے اپنی کامیابیوں کے ثبوت بھجوا ئو ۔ اس نے مجھے اوریکل کے اوریجنل سرٹیفیکیٹ کی کاپی بھجوائی۔ میں نے یہ کاپی اپنے ایک دوست جو ایک یونیورسٹی میں اوریکل پڑھاتا تھا ‘ کو بھجوا دی۔ اس نے بتایا کہ سرٹیفیکیٹ تو بالکل اصل لگتا ہے۔ اس کے بعد اس نے مجھے چند اور کاغذات بھی بھجوائے۔ اس میں اوریکل کی پہلی دس پوزیشنوں کا ذکر تھا جس میں سر فہرست اس کا اپنا نام لکھا تھا۔ اسی طرح اس نے سٹین فورڈ یونیورسٹی جو امریکہ کی چند بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے‘ کا سرٹیفکیٹ بھی ای میل کیا جو کسی آن لائن سرٹیفیکیشن سے متعلق تھا۔ میں نے انٹرنیٹ پر ریسرچ کی اور اس طرح کے دیگر سرٹیفکیٹ دیکھے تو یہ ہوبہو ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے۔ مجھ سے پہلے پاکستان کا ہر دوسرا ٹاک شو اور اخبار اس کا ذکر کر چکا تھا اور سبھی کا خیال تھا کہ اس بچے نے پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہ بچہ وہی کچھ کر رہا ہے جو اس ملک کا ہر دوسرا سیاستدان اور فراڈیا عوام کے ساتھ کر رہا ہے۔ وہ کمپیوٹر گرافکس کے غلط استعمال کا ماہر تھا اور اس کی اسی مہارت نے سب کو بیوقوف بنا دیا۔ چونکہ سائبر کرائم سے متعلق اس وقت بھی کوئی قانون یا باقاعدہ ادارہ نہیں بنا تھا اور جو سائبر ونگ کام کر رہے تھے‘ انہیں بھی خاص عوامی پہنچ حاصل نہ تھی لہٰذا اس وقت اس کی باتوں پر سب کو لامحالہ یقین کرنا ہی پڑا۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں موصوف کے سارے دعوے من گھڑت نکلے‘ نہ کوئی اوریکل کا امتحان دیا گیا‘ نہ ہی کسی ملک یا ادارے نے موصوف کو اپنے ہاں بلایا اور انعام دیا اور یہ سارا ڈرامہ صرف اور صرف سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے رچایاگیا۔ ان دنوں پاکستان کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ پروفیشنل ارفع کریم کا ڈنکا بج رہا تھا۔ یہ بچہ شاید اس جیسی شہرت اور دولت کا خواہشمند تھا۔ لیکن اس نے یہ سب حاصل کرنے کے لئے غلط راستہ چنا۔ یہی وجہ ہے کہ ارفع کریم مر کر بھی امر ہو گئی اور اس لڑکے کی چالاکیاں اس کی زندگی میں ہی دم توڑ گئیں۔ آئی ٹی ٹاور ز اور سکولوں کے نام ارفع کریم کے نام پر رکھے جانے لگے جبکہ یہ بھائی صاحب کمپیوٹر کی چال بازیوں اور اپنے ہی بنائے گئے ریت کے محل کی دُھول میں گم ہو گئے۔
جب ہم اپنے ساتھ دنیا کی بے حسی کا گلہ کرتے ہیں‘ جب شکایت کرتے ہیں کہ امریکہ‘ یورپ اور دیگر ممالک پاکستانیوں کے نام سن کر بدکنے کیوں لگتے ہیں تو ہمیں فوراًاپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے۔ بچوں کے دودھ سے لے کر جان بچانے والی ادویات میں ملاوٹ تک ‘گدھوں کے گوشت سے لے کر جعلی ڈگریوں کی فروخت تک اور ماڈل ٹائون سے لے کر سانحہ ڈسکہ تک پولیس کی حاملہ خواتین اور وکیل رہنمائوں پر گولیوں کی بوچھاڑ اور سرعام لاشیں گرانے تک کے واقعات ہم پر لگے ایسے دھبے ہیں جنہیں مٹائے بغیر کوئی بھی ہماری عزت کرے گا نہ احترام۔
یہ تھی ایک اور ''آئی ٹی پروفیشنل‘‘ کی کہانی‘ جس نے پورے میڈیا کو تگنی کا ناچ نچا دیا ۔