ایک انگریز پاکستان کی سیر کو آیا‘نہر سے گزر رہا تھا کہ اس نے چند گوالوں کو وہاں رُکے دیکھا۔ وہ اپنے اپنے کین میں موجود دودھ میں پانی ملا رہے تھے۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ آخر گوالوں کو دودھ میں پانی ملانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اسے بتایا گیا کہ وہ زیادہ منافع کمانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ اپنے قیام کے دوران انگریز بہت سے لوگوں سے ملا اور تقریباً ہر شخص نے اس سے یہی گلہ کیا کہ اسے یہاں خالص دودھ نہیں ملتا؛ حتیٰ کہ اس کے کروڑپتی میزبان بھی اسے یہی بتاتے رہے کہ پاکستان میں خالص دودھ نایاب ہے ۔ لوگ دگنے پیسے دینے کو تیار ہیں پھر بھی انہیں خالص دودھ نہیں ملتا۔ انگریز حیران ہوا اور ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔ کاش !میں اس ملک میں رہ سکتا تو کاروبار کرتا۔ اس سے پوچھا گیا‘ کونسا کاروبار؟ کہنے لگا: میں خالص دودھ بیچتا اور ڈھیر سارا منافع کماتا۔
یہ تو دودھ کی بات تھی‘ اس ملک میں تو صاف پانی بلکہ پانی ہی نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ آج مہنگے داموں منرل واٹر خریدنے پر مجبور ہیں لیکن یہ کتنے لوگ ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ دس بیس فیصد۔ اسی فیصد لوگ پانی خرید کر پینا افورڈ نہیں کر سکتے۔ کسی کا اتنا بجٹ ہے ہی نہیں کہ وہ مہینے کے تین چار ہزار صرف پینے کے پانی کے لئے خرچ کر سکے۔ حکمرانوں کی ترجیحات نرالی ہیں۔ وہ موٹر وے‘میٹرو اور انڈرپاسوں سے آگے کی سوچ ہی نہیں رکھتے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ کوئی زندہ رہے گا تو موٹر وے اور میٹرو پر سفر کرے گا۔ جب ہردوسرا شخص غلیظ پانی پی کر ہیپاٹائٹس اور پیٹ کی بے شمار بیماریوں کا شکار ہو جائے گا تو اسے کیا لگے کہ اس کے شہر میں جدید ٹرینیں چلنے والی ہیں یا پھر کسی سڑک پر ٹریفک سگنل ختم کر کے اسے سگنل فری کیا جا رہا ہے۔ پانی انسان کی
بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔آئین کی رُو سے حکومت پابند ہے کہ عوام کو بنیادی حقوق اور سہولتیں مہیا کرے۔ یہ عوام سے ٹیکس اسی لئے لیتی ہے۔ بدلے میں کیا کرتی ہے؟خالی بیانات اور بے کار قسم کے دعوے؟ اس ساری صورت حال میں مختلف ادارے اور لوگ انفرادی طور پر معاشرے کی بہتری میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ اس کا فائدہ اس طرح نہیں ہو سکتا جس طرح حکومت کر سکتی ہے لیکن اپنی اپنی استطاعت کے لحاظ سے یہ مختلف قسم کے کارخیر انجام دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک رمضان چشتی صاحب ہیں۔ کوئی تین سال قبل خدا نے ان کے دل میںخیال ڈالا کہ غریب اور متوسط طبقے کے لئے صاف پانی کا بندوبست کیا جائے تاکہ وہ بیماریوں سے بھی بچ سکیں اور اضافی اخراجات سے بھی ۔اس مقصد کے لئے انہوں نے داتا نگر ،بادامی باغ کے علاقے میں صاف پانی کے حصول کیلئے سات سو فٹ گہرا بور کرایا۔ خطیر سرمائے سے امریکہ اور برطانیہ سے جدید ترین ساز و سامان منگوایا اور صاف پانی کی چھ ٹونٹیاں لگوا دیں۔ لوگوں کو پتہ چلا تو ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے ۔ یہ کم پڑیں تو مزید چھ لگوا دیں۔ وہ بھی کفالت کرتی نظر نہ آئیں تو پونے انچ کی چھ ٹونٹیوں کو سوا انچ کرا دیا۔ ان میں ایک ٹونٹی پندرہ سکینڈ میں بیس لٹر کا کین بھر دیتی ہے۔ صبح پانچ بجے سے لوگ پانی بھرنا شروع ہوتے ہیں اور رات دس بجے تک مسلسل پانی بھرتے رہتے ہیں۔ روزانہ یہاں سے ایک لاکھ لٹر پانی بھرا جاتا ہے۔ بجلی کمیاب ہونے کے سبب دو
جنریٹر رکھے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ چھت پر ہزار گیلن کی ٹینکی بنا دی گئی ہے ، جبکہ نیچے تین ہزار گیلن کا سٹاک ہے ۔ دونوں ٹینکیاں خالی ہونے پر خود کار طریقے سے بھر جاتی ہیں۔ رمضان المبارک میں شفاف پانی کے اس مفت مرکز سے ڈیڑھ لاکھ لیٹر روزانہ پانی بھرا جا رہا ہے۔ پانی کا معیار پی سی ایس آئی آر لیبارٹری سے منظور شدہ ہے۔ اس عمدہ ترین پانی کی بلا رکاوٹ فراہمی کے لئے انجینئر، آپریٹر ،گارڈ سمیت پانچ ملازمین رکھے گئے ہیں۔ دو دن کے بعد ٹینکیوں کی صفائی کی جاتی ہے ۔قرب و جوار سے ہر روز سینکڑوں، ہزاروں لوگ گاڑیوں وغیرہ پر یہاں سے پانی بھرنے آتے ہیں۔ بادامی باغ کا تجربہ کامیاب رہا تو انہوں نے جوڑے پل، کینٹ کے گندے ،آلودہ پانی سے رہائشیوں کو نجات دلانے کا منصوبہ بنایا۔ کچھ وقت ضرور لگا لیکن ایک بڑے فلتھ ڈپو والی جگہ کو منہ مانگی قیمت پر خریدا گیا۔ حسب ضرورت باہر سے بہترین مشینری منگوائی گئی اورپہلے پراجیکٹ سے کہیں زیادہ رقم خرچ کر کے روزانہ تین لاکھ لیٹر کی گنجائش والا یونٹ نصب کروا دیا جس کے بعد قرب و جوار سے لوگ روزانہ اوسطاً ایک لاکھ لیٹر پانی لے جا رہے ہیں۔ پراجیکٹ کے لئے آٹھ بندے بھرتی کئے گئے ۔ کام اس خوبصورتی اور مہارت سے کرایا گیا جیسے کوئی اپنے گھر کیلئے محنت کرتا ہے۔ یہ پراجیکٹ انہوں نے اپنے بچوں کی مدد سے مکمل کیا جو انجینئر‘ ڈاکٹر اور آرکیٹیکٹ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے رمضان چشتی نے نیکی کا کتنا بڑا کام کیا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح داتا نگر بادامی باغ میں صاف پانی کا شدید فقدان تھا۔ ناقص سیوریج کی وجہ سے زیر زمین پانی بھی آلودہ تھا جس سے بڑے ہی نہیں بچے بھی تیزی سے مختلف امراض کا شکار ہو رہے تھے۔ خاص طور پر ہیپا ٹائٹس کا مرض اس علاقہ میں تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اب علاقے کے مکین یہاں سے روزانہ کین یا برتنوں میں اپنے حصے کا صاف پانی مفت لے رہے ہیں اور رمضان صاحب کو صدق دل سے دعائیں دے رہے ہیں اور کیوں نہ دیں کہ اگر لوگوں کو پینے کا صاف پانی مل جائے تونوے فیصد بیماریاں خود بخود ختم ہو سکتی ہیں۔ لوگ دل‘ جگر اور گردے کی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ یہ بات رمضان چشتی جیسے لوگوں کو سمجھ آ گئی لیکن ان حکمرانوں کو سمجھ نہ آ سکی جو اس ملک کو لوٹ مار کی سرزمین سمجھتے ہیں اور اربوں روپے لوٹ کر بیرون ملک بھجوا دیتے ہیں۔ جدید ممالک میں لوگ بیماریوں کا شکار اس لئے کم ہوتے ہیں کہ وہاں صاف پانی‘ صاف ہوااوراشیائے خورونوش اپنے اصل رُوپ میں دستیاب ہیں۔ ہماری صورتحال یہ ہے کہ یہاں پینے کے صاف پانی کا تصور ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے نئے یونٹ کااضافہ کیا ہے۔ پہلے لوگ چودہ نلکوں سے پانی لیتے تھے اب ان کی تعداد بیس ہو گئی ہے جبکہ بیس لیٹر کی بوتل پندرہ سکینڈ میں بھر جاتی ہے۔لوگ روزانہ ہزاروں لیٹر فی گھنٹہ پینے کا صاف پانی اپنے کین میں بھر کر لے جا رہے ہیں۔پی سی ایس آئی آر کی رپورٹ کے مطابق اس پلانٹ کے پانی کا عالمی معیار ٹی ڈی ایس 145 ہے اور اس پلانٹ کے سارے پانی کے ٹینک سٹین لیس سٹیل کے ہیں ۔ رمضان چشتی کہتے ہیں کہ محض 50پیسے فی لیٹر ادائیگی سے شہریوں کو شفاف ترین پانی مہیا کیا جا سکتا ہے ۔ حکومت ان کے ساتھ اس نیکی میں شریک ہو جائے تو وہ لاہور اور دیگر شہروں کو انتہائی جدید مشینری اور کم خرچ کے ساتھ صاف اور شفاف پانی فراہم کر سکتے ہیں۔
ہر بڑا کارنامہ کسی ایک چھوٹی سی کوشش سے شروع ہوتا ہے۔ رمضان چشتی اپنی محدود استطاعت کے باوجود دو پلانٹ بنا کر نیکی کی اس بلندی پر پہنچ گئے ہیں جس کا حکمران اور ارب پتی اشرافیہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ چشتی صاحب چاہتے تو حکمرانوں کی طرح وہ بھی لوٹ مار کر کے اپنا پیسہ باہر بھجوا دیتے لیکن جس انسان کو علم ہو کہ اس نے پلٹ کر اپنے رب کی طرف جانا ہے اور اسے ایک روزاپنے مال ‘ اپنے منصب اور اپنے جاہ و جلال کا حساب دینا ہے‘ وہ شخص کبھی بھی دنیا کی رنگینیوں میں نہیں کھو سکتا۔ وہ ہمیشہ مخلوق خدا کی بہتری کے لئے اپنا مال اور اپنی توانائیاں خرچ کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر رمضان چشتی جیسا عام آدمی سینکڑوں لوگوں کو بلا معاوضہ صاف پانی مہیا کر سکتا ہے تو حکومت اور دیگر مخیر حضرات اور ادارے ایسا کیوں نہیں کر سکتے‘انہیں کیا مسئلہ ہے۔اگر دیگر صاحب ثروت بھی رمضان چشتی کی طرح سوچنا شروع کر دیں تو اس ملک کی حالت بدل سکتی ہے۔ پانی اللہ کی نعمت ہے اور اس دور میں صاف پانی غریبوں کو مفت مہیا کرنا ایک عبادت۔ کاش یہ عبادت ہر صاحب ِمال کے نصیب میں آ سکے۔