"ACH" (space) message & send to 7575

فصل کاٹنے کے د ن

بہادری کس بات کی؟ حکمران جماعت کے پاس ضمنی الیکشن لڑنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ ٹریبونل جج کو انہوں نے ڈرا دھمکا کر دیکھ لیا۔کردار کشی بھی کر لی ‘جب کوئی تیر بھی نشانے پر نہ لگا تو عوام کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلانے کا اعلان کر دیا۔ اب ان حلقوں میں گھر گھر جا کر پہلے تو لیپ ٹاپ کے لولی پاپ دینے کی پیش کش کی جائے گی اور مخالفت میں ووٹ دینے پر عبرت کا نشان بنانے کا کہا جائے گا۔ پوری انتظامی مشینری اور وفاقی اور صوبائی وسائل ان حلقوں میں جھونک دئیے جائیں گے۔ ن لیگ ایک مرتبہ پھر انتظامی مشینری اور الیکشن پراسیس کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈنڈی مارنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ ان حلقوں میں جیتنا تحریک انصاف سے زیادہ حکمران جماعت کی عزت بے عزتی کا مسئلہ بن چکا ہے۔ لاہور کو مسلم لیگ ن اپنا قلعہ مانتی ہے۔ اگر دوبارہ انتخابات میں یہاں تحریک انصاف تھوڑے مارجن سے بھی جیت جاتی ہے تو نون لیگ کے ٹائی ٹینک میں ہونے والا یہ سوراخ جلد ہی اسے ڈبو دے گا۔ 
دوسرا چیلنج جو مسلم لیگ نون کو درپیش ہے وہ ضرب عضب کا پھیلتا ہوا سلسلہ ہے ۔ یہ طالبان اور ایم کیو ایم کے بعد پیپلزپارٹی کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے کو ہے۔ گزشتہ روز سابق وزیرپٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ موصوف نے سابق اور موجودہ دور میں جو بیج بوئے تھے‘ اب وہ اژدہے بن کر ان کے پیچھے لگے ہیں۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے ایک اور ''سپوت‘‘ قاسم ضیا نیب کی حراست میں ہیں اور جوڈیشل ریمانڈ پر جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔ 
ڈاکٹر عاصم کا اس سے سادہ اور آسان تعارف کیا ہو گا کہ وہ سابق صدر زرداری صاحب کے قریبی ساتھی ہیں ۔کیا اب یہ بتانے کی ضرورت باقی ہے کہ موصوف نے کیاگل کھلائے ہوں گے؟ قاسم ضیا کی گرفتاری پر لاہور کی جیل روڈ پر نامعلوم ''سول سوسائٹی‘‘ کی طرف سے چند بینر لگائے گئے جن پر لکھا تھا کہ پیپلزپارٹی کے لیڈروں کے ساتھ انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ یہ وہی سول سوسائٹی ہے جو نظریہ ضرورت کے تحت بلوں سے باہر نکلتی ہے اور ریاست اور جمہوریت بچانے کا راگ الاپنے لگتی ہے۔ پیپلزپارٹی بھی حیران ہے کہ حکومت نون لیگ کی ہے اور ان کے ساتھ تو میثاق جمہوریت میں یہ طے پایا تھا کہ اپنے اپنے عہد اقتدار میں ایک دوسرے کو نہیں چھیڑیں گے‘ تو پھر یہ کون سی ہوا چل پڑی ہے کہ بلاامتیاز پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی ہے۔ یہ کیسی سول سوسائٹی ہے جو چاہتی ہے کہ سیاستدان کروڑوں اربوں کے غیر قانونی ٹھیکے دیں‘ معیشت کو نقصان پہنچائیں اور سارا پیسہ لانچوں اور ماڈل گرلوں کے ذریعے ملک سے باہر منتقل کر دیں اور جب ان کے خلاف ایکشن ہو تو یہ ریاست اور جمہوریت بچانے کے ڈھول بجانے لگیں۔ 
یہ طے ہو چکا کہ پیپلزپارٹی کے بعد نون لیگ کی باری ہے۔ اب ہر اس فرد‘ گروہ اور جماعت کی باری ہے جو دہشت گردوں کا ساتھی ہے۔ جس کو نہیں یقین آتا وہ آج آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا بیان پڑھ لے جس میں انہوں نے صاف کہا ہے کہ'' دہشت گردوں کو پناہ دینے والوں کو بے نقاب کیا جائے گا‘‘۔ وہ اب اپنی خیر منائیں جو کالعدم تنظیموں کی معاونت سے انتخابات کی مہم چلاتے رہے اور وہ بھی‘ جو دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ ذرا سولہ دسمبر کا دن یاد کر لیں جب ڈیڑھ سو بچوں کو بے دردی سے گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔ ہم انہیں نہیں بھولے۔ قوم نہیں بھولی۔ جنرل راحیل انہیں نہیں بھولے۔ کیسا منظر ہے کہ آج سارے کرپٹ لوگ چوہوں کی طرح ادھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔ یہ ابہام اب دور ہو چکا کہ یہ آپریشن صرف ایک سیاسی جماعت تک محدود رہے گا۔ ہر وہ جماعت جس کے عسکری ونگز کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں اور جس
کے لیڈر کسی نہ کسی سطح پر کرپشن کے ذریعے ملک کو نقصان اور دہشت گردوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ ان کا بھی احتساب ہو گا۔ یہ آپریشن بلا تفریق جاری ہے۔ جو یہ سمجھ رہے تھے کہ صرف طالبان ہی ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور طالبان کے خاتمے کے بعد یہ آپریشن ختم ہو جائے گا‘ وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ ممکن ہے جب ضرب عضب آپریشن شروع ہوا ہو تب عسکری قیادت کا یہی خیال ہو اوراسی منصوبہ بندی کے تحت شمالی وزیرستان میں کارروائی کی گئی ہو لیکن بعد میں جب انٹیلی جنس کی جانب سے ہوش ربا اطلاعات سامنے آئیں تو اس آپریشن کا دائرہ کار پورے ملک تک وسیع کر دیا گیا۔ ان رپورٹس میںیہ واضح تھا کہ دہشت گرد آسمان سے نہیں ٹپک پڑتے‘ وہ آتے تو باہر سے ہیں لیکن انہیں لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے میں اپنے لوگوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ دہشت گردوں کی رہائش‘ انہیں موبائل فون ‘ اور اسلحے کی فراہمی اور ٹارگٹ تک پہنچانے کی پوری ذمہ داری اپنے لوگ انجام دیتے ہیں اوریہی انہیں مالی طور پر آکسیجن فراہم کمرتے ہیں ‘اس نیٹ ورک کے خاتمے تک یہ آپریشن اب رکنے والا نہیں اور اس آپریشن کے بغیر ملک سے دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کے بعد اب پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ سابق صدر ملک سے ویسے ہی غائب ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ملک بچانے کی بجائے زرداری صاحب کو بچانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ خود ان کے کمالات بھی چند دنوں میں سامنے آنے والے ہیں۔
پچھلے دنوں فوج نے اپنے اندر سے احتساب کا آغاز کر کے تمام سیاستدانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ آپریشن کسی ایک جماعت یا گروہ کے خلاف ہے۔ اب کوئی بھی فوج کی طرف انگلی اٹھا کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں اور وہ اس آپریشن کو جانبدار ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ ان کی منطق بڑی عجیب ہے۔ وہ سمجھتے ہیں جو بندہ جنرل راحیل شریف‘ فوج اور ضرب عضب کو سراہ رہا ہے‘ وہ انہیں اقتدار میں آنے کی ہلہ شیری دے رہا ہے۔ ایسوں کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے اور ایسا وہی سوچ سکتا ہے جس کی ہمدردیاں پاکستان نہیں‘ بھارت کے ساتھ ہیں ۔ 
کل یوسف رضا گیلانی ‘امین فہیم‘ اویس مظفر ٹپی، ثاقب سومرو اور منظور کاکا کی گرفتاری کے آرڈر بھی آ گئے ہیں۔ یہ تو آغاز ہے۔ ستمبر اب ستمگر بننے والا ہے ۔ ان کے لئے بھی جو اس ملک کو پرایا مال سمجھ کو لوٹتے رہے اور ان کیلئے بھی جو دہشت گردوں کو دودھ پلا کر جوان کرتے رہے۔ یہ سمجھتے تھے کہ دہشت گردی میں فوجی اور عام لوگوں مرتے رہیں گے اور یہ خود بلٹ پروف کاروں میں مزے سے گھومتے رہیں گے۔ یہ خود جمہوریت کی آڑ میں ملک کا بیڑہ غرق کریں گے اور عوام اور فوج کو جنازے اٹھانے پر لگائے رکھیں گے۔ معاف کیجئے۔ وہ وقت اب گزر گیا۔ اب بیج بونے کے نہیں‘فصل کاٹنے کے دن ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں