جو سمجھتے ہیں تحریک انصاف ختم ہو گئی‘ وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ کیا اس سے بھی برا وقت نون لیگ اور پیپلزپارٹی پر نہیں آیا تھا۔ جیسے ہی موقع ملا‘ وہ دوبارہ قدم جماتی رہیں۔ جھٹکے سب کو لگتے ہیں‘ دیکھنے کی بات ہے کہ کون ان سے سبق سیکھتا اور اپنا احتساب کرتا ہے۔ تحریک انصاف آج بھی عوامی مقبولیت کے لحاظ سے سب سے بڑی جماعت ہے‘ اس مقبولیت کو ووٹوںمیں کس طرح ڈھالنا ہے‘ اس پر اسے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا‘ وگرنہ یہ یونہی لڑکھڑاتی رہے گی۔
بلدیاتی انتخابات کا بھی سن لیں۔ ماضی میں جھانک لیں۔ آج تک یہی ہوتا آیا ہے کہ صوبے میں وہی جماعت جیتتی ہے جس کی وہاں حکومت ہو تو پھر کیسی جیت اور کیسی ہار؟ سندھ میں پیپلزپارٹی ‘ پنجاب میں نون لیگ اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف۔حساب برابر۔ اصل بات یہ ہے کہ مقابلہ بلدیاتی انتخابات والے دن نہیں بلکہ اب شروع ہوا ہے۔ تینوں سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے صوبوں میں بلدیاتی نمائندگی حاصل ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہو گی کہ ''اوپر والے‘‘ ان نو منتخب کونسلروں کو کس قدر اختیار منتقل کرتے ہیں؟ جس صوبے نے جتنا کام کیا‘ وہ کھل کر سامنے آ جائے گا۔ پنجاب میں جو جماعت پہلے پولیس اور پٹواریوں کو الیکشن جیتنے اور اپنا کلہ مضبوط رکھنے کے لئے استعمال کر رہی ہے وہ ان چیئرمینوں اور کونسلروں کے ساتھ کیا سلوک کرے گی‘ اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ وہ جو تخت لاہور کو مضبوط رکھنا چاہتے ہیں‘ جو اسے اپنا قلعہ کہتے ہیں وہ اس قلعے کی اینٹیں اکھاڑ کر راجن پور اور مظفر گڑھ کی گلیوں میں لگانے کی اجازت اور رقم کیونکر دیں گے؟ صرف چند ماہ چند سال ٹھہر جائیں‘ یہ ٹوٹی سڑکیں‘ یہ
گلیاں‘ یہ کھلے سیوریج‘ یہ پینے کا گدلا پانی خود ہی اپنی کہانی سنائے گا۔خیبرپختونخوا پر تو ویسے بھی لوگوں کی نظریں جمی ہیں۔ عمران خان سے یہ سوال بار بار پوچھا جاتا رہے گا کہ اپنے صوبے میں کیا تبدیلی لائے۔ سندھ کی بات ہی چھوڑیں۔ جتنے گھوسٹ سکول اور گھوسٹ ملازمین سندھ میں ہیں‘کسی اور صوبے میں نہیں۔وہاں کے حالات پیپلزپارٹی درست کرنا ہی نہیں چاہتی۔کرنا چاہتی تو سابق دور میں کر چکی ہوتی۔ جہاں تک تحریک انصاف کے رہنما چودھری سرور کی بات ہے تو جتنا انہیں وقت ملا‘اس میں تھوڑا کیا یا زیادہ‘ انہوں نے ہی کیا یا پھر عبدالعلیم خان نے۔ باقی رہے محمود الرشید اور اعجاز چودھری ‘توبلدیاتی الیکشن کی مہم میں وہ تو کہیں نظر تک نہیں آئے۔ وہ اپنا حصہ ڈال لیتے تو کم از کم تحریک کی اتنی سبکی نہ ہوتی ۔
تحریک انصاف کا ووٹر آج جتنا پریشان ہے‘ کبھی نہ تھا۔ اسے سب سے زیادہ شکایت ان سے ہے جو دیگر جماعتوں سے ادھر آن ٹپکے‘ بلکہ لائے گئے۔ عمران خان کو سمجھنا ہو گا آج اس جماعت کی پوزیشن ایسی نہیں کہ یہ لوٹوں اور وڈیروں کی محتاج رہے۔اسے ایسی کوئی مجبوری درپیش نہیں اِلا یہ کہ وہ چند ''بڑے‘‘جو کسی ایجنڈے پر اس جماعت میں شامل ہیں‘ وہ ایسا چاہتے ہیں اور چاہتے رہیں گے۔ یہ خان صاحب کو دیکھنا ہے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ جس طرح اُن پر کرپشن کا ایک الزام بھی آج تک ثابت نہیں ہو سکا‘ ایسے ہی سیاستدان پارٹی میں ہر طرف دکھائی دیں تو کسی کو پارٹی کی طرف انگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہو۔ الیکٹ ایبلز کا دور گزر گیا۔ یہ جہاں فائدہ مند ہوتے ہیں‘ وہاں ان کے ''گناہوں‘‘ کا بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ بوجھ ہر سیاسی جماعت نہیں اٹھا سکتی۔ تحریک انصاف تو بالکل نہیں۔ اسے آگے بڑھنا ہے تو اپنی ساکھ اور کارکردگی پر ۔ نئے لوگوں کی اب جتنی ضرورت ہے کبھی نہ تھی۔
وہ پروفیسر ہوں‘ انجینئر یا سلجھے ہوئے عام انسان۔ فنڈز کی کمی کا مسئلہ البتہ پیش آئے گا جو اندرون و بیرون ملک پاکستانی پورا کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اصل چیز پارٹی کی بنیادیں ہیں‘ عام ورکر ہیں‘ وہ اُصول ہیں جن پر یہ پارٹی کھڑی ہے۔یہ اپنے ہی اُصول خود ہی توڑے گی تو کون ‘کب تک اس کے ساتھ چلے گا؟ نئی متبادل سیاسی جماعت مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی، یہ اور بات ہے کہ تحریک انصاف خود ہی رستہ ہموار کر دے۔
عمران خان بھی بادشاہ آدمی ہیں۔ صحافی کے سوال پرتلملانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس کی بجائے وہ میڈیا کے سامنے صرف ایک سوال رکھ دیتے تو اس کی سٹی گم ہو جاتی۔ میڈیا کا جو مخصوص حصہ لیڈروں کی ذاتی زندگی کو پبلک یا عوام کی ملکیت کہہ رہا ہے‘ جو کہہ رہا ہے سیاستدان کا کچھ بھی ذاتی نہیں ہوتا‘ اس کی صبحیں‘ اس کی شامیں میڈیا کے کیمروں کی محتاج ہوتی ہیں‘ اگر خان صاحب اس سے صرف ایک سوال کر دیتے تو ایسی صورتحال نہ بنتی۔ خان صاحب کہتے جس طرح کا ذاتی احتساب تم میرا کر رہے ہو‘ اگر ہمت ہے تو تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں کے لیڈروں کا بھی شادی یا طلاق ٹرائل کر کے دکھائو۔ چند ایک ایسے ضرور مل جائیں گے جنہوں نے علی الاعلان نہیں بلکہ ایک سے زیادہ خفیہ شادیاں کی ہوئی ہیں اور ان کے لئے الگ الگ سرکاری رہائش گاہیں وقف کی ہیںجہاں سکیورٹی پر سینکڑوں اہلکار مامور ہیں‘ جہاں گھروں کی سڑکیں کئی اطراف سے بند ہیں اور یہ سارا خرچ عوام کی جیب‘ عوام کے ٹیکس سے ہو رہا ہے تو وہ تمہیں بتائیں گے کہ نجی زندگی کو کھوجنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ پھرتمہیں معلوم ہو گا کہ آزادی صحافت کیا ہوتی ہے اور ذاتی زندگی میں مداخلت کا حق کسے کہتے ہیں۔ یہ مداخلت اتنی تو ضرور ہونی چاہیے کہ اگر کسی لیڈر کا سارے کا سارا خاندان سرکاری وسائل کا ضیاع کرے‘ بیرونی دوروں میں بلا وجہ ساتھ جائے ‘ تب تو ایسی پوچھ گچھ بنتی ہے کہ بھائی ذرا جواب دیں‘آپ کے فلاں قریبی عزیز نے ہیلی کاپٹر کا غلط استعمال کیا یا سرکاری وسائل استعمال کئے لیکن اگر کوئی سیاستدان میاں بیوی آپس میں لڑ پڑیں ا ور میڈیا یہ اعتراض کرنے لگے کہ آدھی رات کو لڑائی کے وقت ہمیں کیوں نہیں بلایا‘ ہم لائیوکوریج کرنا چاہتے تھے کیونکہ آپ قومی لیڈر ہیں‘یہ آپ کی زوجہ ہیں‘ ہم نے آپ کو سٹار بنایا تھا ‘اس لحاظ سے یہ ہمارا حق ہے کہ ہم ایسے ہر گھر کی ہر کہانی عوام تک براہ راست پہنچائیں تو ایسے میڈیا کو بندہ کیا کہے۔ یہ میڈیا خان صاحب کو سمجھا رہا ہے کہ امریکہ میں تو پیرس ہلٹن اور مائیکل جیکسن کو بھی نہیں چھوڑا گیا اور میڈیا نے ان ہالی وڈ اداکاروں کی زندگی اجیرن کر دی لہٰذا عمران خان بھی تیار ہو جائیں کہ اب ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔ کہیں سے دلیل آتی ہے کہ میڈیا ان شخصیات کو بلندی پر بھی تو لاتا ہے۔ یعنی بلندی پر لاتا ہے تو بلندی سے گرانا بھی میڈیا کا حق ٹھہرا؟ جناب عالی! یہ میڈیا کی اپنی ضرورت ہے۔ آخر کیوں میڈیا ہر کسی کو وہ کوریج فراہم نہیں کرتا جیسی عمران خان کو ملی۔ کیوں عمران خان کو دھرنے میں سب سے زیادہ ٹائم دیا گیا۔ یہ دھرنا اگر پیپلزپارٹی ‘نون لیگ یا ق لیگ کا کوئی لیڈر دیتا تو کیا اسے بھی اتنا ہی ٹائم اور اتنی ہی پذیرائی ملتی۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ چونکہ میڈیا نے جماعت کی بھرپور انداز میں سیاسی کوریج کی تو اسے لیڈروں کی ذاتی زندگی پر کچوکے لگانے کا بھی پورا حق مل گیا ہے۔ عمران خان کو چاہیے تھا کہ نوکمنٹ کر کے اگلا سوال لے لیتے لیکن کیا خیال ہے کہ ایسے سوالات کا سلسلہ یہیں رک جاتا؟
ساس بہو کے جھگڑے میڈیا کی لائف لائن بن چکے ‘ان کے بغیر اب اس کی گاڑی نہیں چل سکتی۔البتہ یہ طے ہے کہ جو میڈیا عمران خان کی ذاتی زندگی کو قومی مسئلہ ثابت کرنے پر تُلا بیٹھا ہے‘وہ کبھی بھی ''دیگر‘‘ جماعتوں کے لیڈروں کی ذاتی زندگی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا‘ کہ اسے یہ ''وارا‘‘ نہیں کھاتا!