پنجاب گڈ گورننس میں سب سے ''آ گے‘‘ ہے۔مثال اس کی بڑی سادہ ہے۔
خدانخواستہ آپ یا آپ کے کسی عزیز کو دل کا اٹیک ہو جائے اور وہ گوجرانوالہ ڈویژن کے کسی ضلع میں مقیم ہو۔ وہ وزیرآباد‘ گوجرانوالہ یا سیالکوٹ میں رہتا ہو تو اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ یہ گڈگورننس اس کے ساتھ کیا کرے گی‘ ذرا خود دیکھ لیں۔ جیسے ہی مریض کی حالت بگڑے گی ‘گھر والے مریض کو ایمبولینس یا کرائے کی گاڑی میں ڈال کر قریبی ڈسٹرکٹ ہسپتال لے جائیں گے جہاں ڈاکٹر مریض کا بلڈ پریشر چیک کریں گے ‘ زیادہ سے زیادہ اس کی ای سی جی کریں گے اور اس کے بعد کہہ دیں گے کہ مریض کا علاج دل کے ہسپتال میںہو گا۔ آپ چاروناچار مریض کو دوبارہ ایمبولینس میں ڈالیں گے اور قریبی شہر کے کسی دل کے ہسپتال کا رخ کریں گے ۔ اگر آپ گوجرانوالہ یا سیالکوٹ میں رہتے ہیں تو آپ وزیرآباد جائیں گے۔ یہ سفر کوئی پون گھنٹے کا ہے۔ اس دوران آپ کے مریض کی زندگی کا انحصار خالصتاً آپ کی دعائوں پر ہو گا۔ وزیرآباد پہنچنے پر آپ کو پتا چلے گا کہ یہاں دل کا ہسپتال تو موجود ہے‘ اس کی عمارت بھی کھڑی ہے لیکن اس میں ڈاکٹر ہیں نہ مشینری۔ سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے یہاں دل کے ہسپتال کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس مقصد کے لئے عمارت بھی کھڑی ہو گئی لیکن ان سے بہت بڑی ''غلطی‘‘ ہو گئی ۔ انہوں نے عمارت کے سنگ بنیاد کی جو تختی لگائی اس پر جناب شہباز شریف کی بجائے
اپنا نام لکھ دیا۔ اُن کی یہ غلطی اُن سینکڑوں یا ہزاروں مریضوں کے لئے مہنگی پڑی جو تختی لگنے سے اب تک موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ یہ تمام مریض اردگرد کے اضلاع سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں جب بھی دل کا دورہ پڑاتو وزیرآباد ہسپتال کی جانب لپکے ۔وہاں پہنچنے پر پتہ چلا کہ نئی حکومت آ چکی ہے ‘اس نے ابھی تک ہسپتال کی مشینری اور عملہ کے لئے بجٹ جاری کیا ہے نہ ہی ہسپتال آپریشنل ہے لہٰذا اپنا مریض فیصل آباد یا لاہور لے جائیں۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ آپ ایک مرتبہ پھر مریض کو ایمبولینس میں ڈالتے ہیں اور دوبارہ دعائیں شروع کر دیتے ہیں کہ مریض چلتی سانسوں کے ساتھ ہسپتال پہنچ جائے۔ فیصل آباد پہنچ کر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تو تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے۔ پورا گوجرانوالہ ڈویژن دل ہاتھ میں تھامے یہاں آیا ہوا ہے۔ منتوں کے بعد ہسپتال کے برآمدے میں آپ کے مریض کو چیک کیا جاتا ہے اور زبان کے نیچے ایک گولی رکھنے کا کہہ کر پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال لاہور کی جانب ریفر کر دیا جاتا ہے۔ ایک بار پھر آپ ہوتے ہیں‘مریض ‘ ایمبولینس اور دعائیں۔ پھر سے وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اگر آپ بہت خوش قسمت ہیں تو آپ کے مریض کو راستے میں دل کا جان لیوا دورہ نہیں پڑتا‘ آپ کے راستے میں جی ٹی روڈ بلاک نہیں ہوتی‘ کوئی کسان‘ کوئی واپڈا ورکر‘ کوئی غریب کوئی مظلوم سڑک پر میت رکھ کر احتجاج نہیں کر رہا ہوتا اور نہ ہی وی وی آئی پی روٹ لگا ہوتا ہے تو آپ بغیر کسی رکاوٹ کے پنجاب کارڈیالوجی پہنچ جاتے ہیں ۔ وہاں ایک نیا منظر آپ کا منتظر ہوتا ہے۔ ہسپتال کی بیرونی دیواروں پر بڑے بڑے بینر آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ ان بینروں پر عملے کی جانب سے پروموشن کے مطالبات ‘احتجاج اور بائیکاٹ کی دھمکیاں پڑھتے ہی آپ کو اندر کی صورتحال کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ آپ مریض کو اندر لے جاتے ہیں اور لمبی قطار کے پل صراط میں لگ جاتے ہیں۔ آپ سے کہا جاتا ہے کہ پہلے پرچی بنوا لیں۔ آپ لاکھ کہتے ہیں کہ مریض کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اسے ایمرجنسی کے طور پر دیکھیں لیکن کوئی آپ کی بات نہیں سنتا۔
جیسے تیسے کر کے آپ پرچی بنوا کر عملے کو دیتے ہیں تو آپ کو باری کا انتظار کرنے کو کہا جاتا ہے۔ آپ زیادہ شور مچاتے ہیں تو ایک نرس ماتھے پر سلوٹیں ڈالے مریض کا بلڈ پریشر چیک کر دیتی ہے۔ مزید شور ڈالتے ہیں تو آپ کو ای سی جی کی پرچی بنوانے کو کہا جاتا ہے۔ آپ پھر قطار میں لگتے ہیں۔ ای سی جی کی پرچی بنواکر عملے کو دیتے ہیں تو آپ کو ای سی جی کی باری کا انتظار کرایا جاتا ہے۔ جب ای سی جی کی باری آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ عملے کے احتجاج کا وقت ہو چکا ہے‘ اس نے مریضوں کا بائیکاٹ کر دیا ہے اور سب جیل روڈ پر احتجاج کے لئے چلے گئے ہیں۔ آپ باہر جاتے ڈاکٹروں کی منتیں کرتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر آپ کو زبان کے نیچے ایک گولی رکھنے کا کہہ کر احتجاج میں شرکت کے لئے نکل جاتا ہے اور آپ اپنے مریض کے پاس تنہا کھڑے انتظامیہ کو بددعائیں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اتنے میں کوئی آپ کو مریض نجی ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیتا ہے۔ آپ اپنے عزیز کی جان بچانا چاہتے ہیں تو فوراً کسی قریبی نجی دل کے ہسپتال چلے جاتے ہیں۔ نجی ہسپتال کے مرکزی دروازے پر ہی آپ کے مریض کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل عملہ آپ کی بات انتہائی غور سے سنتا ہے اور فوراً مریض کا ابتدائی چیک اپ کرلیا جاتا ہے۔ آپ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ آپ ٹھیک جگہ پہنچ گئے۔ اتنے میں ایک ڈاکٹر آپ کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ مریض کا بائی پاس آپریشن ہو گا‘ فوری طور پر پیسوں اور خون کا انتظام کر لیں۔ معلوم کرنے پر بتایا جاتا ہے کہ آپ فوری طور پر پانچ لاکھ روپے جمع کرا دیں تاکہ آپریشن شروع کیا جا سکے۔ آپ کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔ آپ جیبیں ٹٹولتے ہیں‘ اے ٹی ایم مشین خالی کر دیتے ہیں‘ سارا کچھ نکال کرآپ کے پاس کل پچیس تیس ہزار روپے بنتے ہیں۔ آپ عملے سے کہتے ہیں کہ علاج شروع کریں ‘ بقایا پیسوں کا انتظام جلد ہو جائے گا۔ جواب ملتا ہے ‘کم از کم دو لاکھ جمع کرائیں گے تو آپریشن شروع ہو گا ورنہ آپ مریض کہیں اور لے جائیں۔ آپ پیچھے گھر والوں کو فون کرتے ہیں۔ گھر والے ادھر اُدھر رشتہ دار‘ ہمسایوں دوستوں ‘اپنوں اور غیروںسے قرض پکڑتے ہیں اور کسی طرح دو لاکھ روپے اکٹھے کر کے آپ کو پہنچا دیتے ہیں۔ آپ یہ رقم لے کر ہسپتال جاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ آپ سے پہلے جس مریض نے رقم جمع کرائی تھی پہلے اس کا آپریشن ہو رہا ہے ‘ آپ کی باری تیسری ہے۔ یہ انتظار آپ کو بہت مہنگا پڑتا ہے۔ آپ کے مریض کا وقت پورا ہو جاتا ہے ۔آپ سائرن بجاتی ایمبولینس میں مریض لائے تھے لیکن واپس خاموش ایمبولینس میں میت لے کر چل نکلتے ہیں۔
کل پی ٹی آئی نے ''وائٹ پیپر ‘‘جاری کیا۔ ظلم ‘زیادتی ‘قتل‘ ناانصافی ‘لوڈشیڈ نگ ‘چوری ‘ڈکیتی کو پنجاب کے عوام کا مقدرقرار دیا۔ جھوٹ سفید جھوٹ۔ پنجاب گڈ گورننس میں سب سے ''آگے‘‘ ہے۔ یقین نہیں آتا تو چند منٹ کے لئے دل کے کسی سرکاری یا نجی ہسپتال کی ایمرجنسی میں جا کر دیکھ لیجئے‘ خود ہی یقین آ جائے گا۔