معلوم نہیں لوگ کیوں اشتیاق احمد کو ایوارڈ اور اعزاز دلانے پر تُلے ہیں۔ آج جو لوگ انہیں ایوارڈ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں یہ سب اس وقت کہاں تھے جب اشتیاق احمد حیات تھے اور قلم کی مزدوری میں مگن تھے۔ اس وقت کتنے لوگوں نے اس بارے میں آواز اٹھائی۔ کتنے لوگ بینر اور کتبے لے کر سڑکوں پر آئے۔وہ جو بلدیاتی انتخابات میں ایک پلیٹ بریانی‘ گلاب جامن اور پانچ سو روپے کے لئے گھروں سے ووٹ دینے نکل آتے ہیں‘ وہ سب اس وقت کیوں سوئے رہے جب اشتیاق احمد ان کی مسلسل قلمی خدمت میں مصروف تھے۔ آخر ہر بندہ ہمیں جانے کے بعد ہی کیوں یاد آتا ہے۔ ایوارڈ‘ میڈل اور اعزازات کا فائدہ انسان کی زندگی میں ہوتا ہے نہ کہ اس وقت جب وہ منوں مٹی تلے چلا جائے۔ قابل اور مستحق انسان کو اس سے حوصلہ اور ہمت حاصل ہوتی ہے اور وہ مزید لگن اور محنت سے کام کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں ایوارڈز اور اعزازات کا میرٹ کیا ہے۔ سوائے فوج کے ادارے کے کون سا ادارہ اور شعبہ ایسا ہے جہاں ترقیاں اور میڈل میرٹ پر ملتے ہوں۔ یہ اعزاز صرف پاک فوج کو حاصل ہے جہاں کہیں زیر زبر ہونے لگے تو ایک زبردست ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے‘ جو ہر چیز کو اپنی اصل حالت میں واپس لے آتا ہے۔ باقی کون سا ایسا ادارہ ہے جہاں اس قدر ایمانداری اور نیک نیتی موجود ہو۔ جس بیوروکریسی کے ہاتھ میں ایوارڈز کے معاملات ہوتے ہیں‘ کیا وہ اشتیاق احمد جیسے عظیم لکھاری کی اہمیت سے ذرہ بھر بھی واقف ہے؟
جب اشتیاق صاحب ان ایوارڈز اور اعزازات کے میرٹ پر پورے ہی نہیں اُترتے تھے تو پھر کیسا ایوارڈ اور کیسا اعزاز۔ ویسے بھی انہوں نے کیا کیا تھا جو انہیں ایوارڈ یا اعزاز دیا جاتا۔ ادبی‘ جاسوسی ناول لکھنا اور مسلسل لکھتے رہنا کون سا ایسا کارنامہ ہے جس پر انہیں نامزد کیا جاتا یا ان کی قومی سطح پر تحسین کی جاتی۔ اشتیاق احمد کو ایوارڈز لینے کا کوئی شوق نہ تھا۔ یہ شوق ہم جیسے تماش بینوں کو ہے لیکن ہمیں یہ کام ان کی زندگی میں کرنا چاہیے تھا۔ہمیں اس کا اتنا ہی شوق تھا تو انہیں ایوارڈ لینے پر آماد ہ کرتے،انہیں سمجھاتے کہ بھئی آپ کیوں صفحوں پر صفحے کالے کرتے جا رہے ہیں۔ کیوں بچوں ‘ نوجوانوں اور بزرگوں کو ادھر اُدھر وقت ضائع کرنے کی بجائے کتابیں پڑھنے پر لگا رہے ہیں‘ کیوں ان میں مطالعے کی عادت پکی کر رہے ہیں۔ یہ کام چھوڑیں اور وہ معرکے سر کریں اور وہ تیر چلائیں جو سابق سپیکر فہمیدہ مرزا، چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک، وزیر داخلہ رحمن ملک، صدر زرداری کے سیکرٹری سلمان فاروقی ‘ بینظیر سپورٹ پروگرام کی فرزانہ راجہ، امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی، چیئرمین بیت المال زمرد خان ‘ سابق مشیر شرمیلا فاروقی اور سابق صدر کے صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے چلائے تھے۔ جس طرح ان لوگوں نے اپنے اپنے شعبے اور
اپنے اپنے پیشے سے ''انصاف‘‘ کیا تھا ‘ ویسا ''انصاف‘‘ اشتیاق احمد کرتے تو ان کا ڈرائنگ روم ایوارڈوں سے بھر جاتا۔ لیکن لوگوں کو کون سمجھائے کہ اشتیاق احمد تو اس میرٹ پر پورا ہی نہیں اترتے تھے۔ یہاں ترقی اور ایوارڈ پانے کیلئے انسان میں چند چیزیں اشد ضروری ہیں مثلاً یہ کہ وہ جھوٹ بولتا ہو‘ بے ایمان ہو‘ بددیانت ہو‘ کرپٹ ہو‘ لوگوں کا حق مارتا ہو‘ وقت ضائع کرتا ہو اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ اپنے کام میں خیانت کرتا ہو۔ اشتیاق احمد میں ان میں سے ایک بھی ''خوبی‘‘ نہیں تھی تو پھر ہم کیوں اشتیاق احمد کی روح کو پریشان کرنے میں لگے ہیں۔ جو بندہ اپنی زندگی میں ایوارڈ اور اعزازات کے پیچھے نہیں لگا‘ مرنے کے بعد لکڑی کے یہ ایوارڈ اور کاغذ پر چھپے چند کلمات اس درویش کو کیا دے سکیں گے اور اگر میڈیا کے شور مچانے پر حکومت نے بادل نخواستہ ایوارڈ دے بھی دیا‘ تو کیا یہ ایوارڈ جا کر ہم ان کی قبر پر لگائیں گے تاکہ لوگ دیکھیں کہ کتنی اچھی حکومت ہے کہ مرنے کے بعد بھی بندوں کی کتنی قدر کر رہی ہے اور اسے کتنا عظیم انسان سمجھ رہی ہے؟ کیا ان کے پڑھنے والوں کو معلوم نہیں کہ وہ کتنا بڑا انسان تھا۔ کیا ایوارڈوں کے بغیر عظمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ جو جتنا نکما‘ نہلا اور اپنے کام اور پیشے میں بے ایمان ہوتا ہے ‘ اسے اتنی ہی زیادہ ترقی اور انعام و کرام سے نوازا جاتا ہے۔ تو پھر ہم کیوں اشتیاق احمد جیسے ہیرے کو ایوارڈوں کی دُھول میں بھلا دینا چاہتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ نرگس سیٹھی‘ فاروق نائیک، رحمن ملک اور نندی پور والے ایوارڈ یافتہ تیس مار خان کے برابر انہیں کھڑا کرنے کی بجائے ان کے کام کی تعریف کی جائے‘ اسے آگے بڑھایا جائے۔
ہم لوگ جو چالیس اور پچاس کے پیٹے میں داخل ہو رہے ہیں‘ ان میں سے تقریباً سبھی کا بچپن اشتیاق احمد کے جاسوسی اور ادبی ناولوں کی اکیڈمی میں گزرا ہے۔ہمیں اُردو لکھنا‘ پڑھنا اور سمجھنا اشتیاق احمد نے سکھایا۔ ہم اگر چار آنے اور آٹھ آنے میں کرائے پر ان کے ناول نہ پڑھتے تو گلی میں کتوں کی دُموں کو آگ لگا رہے ہوتے‘ محلے کی مرغیاں چوری کر رہے ہوتے یا پھر کسی دیوار سے چمٹے سگریٹ کا دھواں اڑاتے رہتے۔ ہمیں اشتیاق احمد نے کام پر لگا دیا۔ ان کے ناول پڑھتے ہوئے لگتا جیسے ہم بھی کہانی کا حصہ ہوں‘ہم اسی جگہ موجود ہوں جہاں انسپکٹر جمشید ‘ شوکی اور فرزانہ موجود ہیں۔ بظاہر یہ ناول خاموش ہوتے تھے لیکن جیسے ہی ہم انہیں ہاتھ میں تھامتے ‘ ہمیں کہانی کے کرداروں کی آوازیں اور قدموں کی چاپ تک سنائی دینے لگتی۔ کہانی میں اگر کوئی گلاس ٹوٹتا تو اشتیاق احمد اس خوبصورتی کے ساتھ وہ منظر الفاظ میں بیان کرتے کہ ہمیں گلاس کے ٹوٹنے کی آواز حقیقی طور پر سنائی دیتی۔ اشتیاق احمدجاسوسی ناول نگار سے آگے بڑھے۔اپنا قلمی نام عبداللہ فارانی رکھا اور ڈھیروں اسلامی کتب لکھ ڈالیں۔ جس طرح وہ اپنے جاسوسی ناولوں میں سسپنس پیدا کرنے اور کہانی کے ڈیزائن میں طاق تھے اسی طرح انہوں نے دین اسلام کے بارے میں جو جو لکھا وہ سیدھا دل میں اترتا چلا گیا۔ سیرت النبی ﷺ قدم بہ قدم، سیرت صحابہؓ قدم بہ قدم، سیرت صحابیات قدم بہ قدم جیسی اسلامی کتابیں اگر کوئی لکھ سکتا ہے تو وہ اشتیاق احمد ہے۔ مرحوم تحریک ختم نبوت ﷺ کے داعی تھے۔ ان کی مغفرت کے لئے یہی کافی ہے۔
جہاں تک ایوارڈ لینے کی بات ہے تو اسلام آباد سے لندن تک بڑے ایسے چپٹر کناتیے اور مڈل مین مل جائیں گے جو ایڈوانس بکنگ پر آپ کو قومی اعزازات تک دلوا دیں گے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ بیوروکریسی کے کمروں کے باہر لگے ہینڈلز سے لٹک جائیں اور اُس وقت تک لٹکے رہیں جب تک ایوارڈ آپ کی جیب میں گھسا نہیں دیا جاتا۔ جس ملک میں ایوارڈ اور قومی اعزازات اس طریقے سے ملتے ہوں‘ وہاں اشتیاق احمد جیسے شخص کے لئے ایوارڈ کا مطالبہ کرنا ان کی توصیف نہیں‘ توہین ہے۔