اتفاق میٹرو بس سٹیشن کے بالکل سامنے‘ سگنل فری فیروز پور روڈ پر اور وزیراعلیٰ پنجاب کی ماڈل ٹائون والی رہائش گاہ سے چند فرلانگ کے فاصلے پر چلڈرن ہسپتال میں ادویات نہ ہونے سے 9بچے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جاں بحق ہو گئے۔
اب بھی کہتے ہیں کہ گورننس پر کوئی انگلی نہ اٹھائے۔ اگر یہ گڈ گورننس ہے تو بیڈ گورننس کسے کہتے ہیں؟
خدا کی پناہ !ایک دن نہیں‘ ایک ہفتہ نہیں‘ پورے دو ماہ گزر گئے لیکن چلڈرن ہسپتال میں خناق سے متاثرہ بچوں کی زندگی بچانے والا انجکشن نایاب ہے۔ یہ انجکشن اگر امریکہ سے منگوایا جائے تودو دن اور برطانیہ سے آٹھ گھنٹے میں آ سکتا ہے۔یہی وہ دو ملک ہیں جہاں ہمارے حکمران باقاعدگی سے اپنا علاج کرانے جاتے ہیں۔ سردرد کی گولی اور خارش کی کریم تک یہ بیرون ملک سے منگواتے ہیں لیکن ان کی رعایا کس طرح تڑپ تڑپ کر جانیں دے رہی ہے اس سے انہیں کتنا سروکار ہے‘ یہ 9بچوں کی موت سے معلوم ہو رہا ہے۔ انہیں عوام کی تھوڑی سی بھی فکر ہوتی تو کم از کم صوبے میں ایک وزیرصحت ضرور ہوتا جو اس حادثے کا جوابدہ ہوتا۔ محکمہ صحت کہتا ہے انجکشن کا آرڈر دے رکھا ہے۔ اچھا بھئی تو پھر آرڈر دے کر سو کیوں گئے۔ سونا ہی تھا کہ اوپر کوئی پوچھنے والا جو نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسی محکمہ صحت کے کسی افسر کا بچہ اگر اس بیماری سے کسی ہسپتال میں داخل ہوتا تو تب بھی یہ لوگ انجکشن کے لئے دو دو مہینے
انتظار کرتے؟ کیا ایسے انجکشن چند منٹوں میں پاتال سے بھی ڈھونڈ کر نہ نکال لئے جاتے؟ نہیں جناب! یہ ان افسروں کے نہیں بلکہ ان کے گھروں میں چوبیس گھنٹے کام کرنے والے ملازمین کے بچے ہیں جن کو وزیرخزانہ چالیس ارب ٹیکس کے ٹیکے لگاتے ہیں اور پھر اس حرکت کا جواز ضرب عضب آپریشن کو بنا لیتے ہیں۔
کسان پیکیج کی بھی سن لیں۔ جنوبی پنجاب کے ایک گائوں سے کسی نے پیغام بھیجا۔ حکومت نے کسانوں کو پانچ ہزار فی ایکڑ دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہاںعملاً یہ ہو رہا ہے کہ پانچ ایکڑوں کے پچیس ہزار کی بجائے دو ایکڑکے حساب سے دس ہزار دئیے جا رہے ہیں لیکن پٹواری کسان پیکیج کے ریکارڈ میں پانچ ایکڑ ہی درج کر رہا ہے۔ اس سے پوچھیں تو وہ کہتا ہے کہ اوپر سے حکم ہے کہ ایسا ہی کرو۔ باقی پندرہ ہزار کدھر جا رہے ہیں ‘ واپس حکومت کے پاس یا پھر راستے میں خردبرد؟ اسے کہتے ہیں حلوائی کی دکان پہ نانا جی کا فاتحہ۔ حکومت نے اپنی مشہوری بھی کر لی اور کسانوں پہ احسان بھی کر دیا۔ حاتم طائی کی قبر پر لات بھی مار دی اور اسے الیکشن سٹنٹ کے طور پر بھی استعمال کر لیا۔ اللہ اللہ خیر سلہ۔
گزشتہ روز سکھر میں ادھیڑ عمر شخص سڑکوں پر صدا لگاتا پھر رہا تھا '' میری زندگی خرید لو مگر میرے بچے کی زندگی بچالو‘‘۔ یہ پیپلزپارٹی کا دیرینہ کارکن تھا ۔غربت اوربے روزگاری سے تنگ۔ اس کے بچے کو عجیب و غریب بیماری لاحق ہو گئی۔ غریب آدمی اس کے بخار کا علاج تو کرا لیتا لیکن اتنی خوفناک بیماری کا مہنگا علاج اس کے بس میں نہ تھا۔ چنانچہ وہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے کرنکل پڑا۔ سکھر پریس کلب پہنچ کرروتے ہو ئے میڈیا کو بتایا ''میں غربت اور بے روزگاری سے تنگ آگیا ہوں‘ میرے بیٹے کی حالت خراب ہے ،پتا نہیں اس کو کون سی بیماری لگ گئی ہے ، اس کے منہ سے خون آرہا ہے ، میں نے پیپلز پارٹی کو 44 سال دیے مگر مجھے کچھ نہیں ملا، اب چاہتا ہوں کہ کوئی مجھے عمر بھر کے لئے خرید لے اور میرے بیٹے کی زندگی بچا لے ، میں یہ سب اپنے بچوں کیلئے کر رہا ہوں، میرے گھرمیں غربت چھائی ہے اور اب مجھ سے بچوں کا سسکنا اور بلکنا دیکھا نہیں جا تا، بلاول بھٹو سن لیں کہ میں پارٹی چھوڑ رہا ہوں، مخیرحضرات مجھے خرید لیں میں ان کی عمر بھر غلامی کروں گا‘‘۔ جی ہاں یہ سندھ ہے‘ پیپلزپارٹی کا قلعہ۔ جب پورے ملک میں پیپلزپارٹی کا صفایا ہو چکا ہے ‘ آج بھی اُسے سندھ میں سب سے زیادہ ووٹ مل رہے ہیں لیکن عوام کو کیا مل رہا ہے ‘ سب نے دیکھ لیا۔ معلوم نہیں زرداری صاحب نے پاکستان کھپے کا نعرہ کس پاکستان کے لئے لگایا تھا۔ اس پاکستان کے لئے لگایا ہوتا تو متعدد بار سندھ میں حکومت ملنے کے باوجود یہاں کے عوام کا یہ حال نہ ہوتا کہ وہ خود کو بیچنے نکل پڑے ہیں۔
خیبرپختون خوا کا حال کیا ہے‘ جب پی ٹی آئی اگلا الیکشن لڑے گی تو سامنے آ جائے گا ۔ فی الوقت حتمی رائے نہیں دی جا سکتی کہ دو سال ایسے صوبے کے لئے بہت کم ہیں جہاں عرصہ سے دہشت گردی کا راج رہا ہو۔ چند ادارے مثلا ًپولیس کی کارکردگی خاصی بہتر ہوئی ہے۔ احتساب کا عمل بھی شروع ہے۔ خان صاحب نے شاید مکمل فوکس اس صوبے پر کیا نہیں کہ زیادہ وقت دھاندلی کے خلاف مہم میں لگ گیا۔ اب وہ کہتے ہیں میں اس صوبے کو ماڈل صوبہ بنائوں گا۔ اس کے لئے انہیں کرپٹ خوشامدی ٹولے سے نجات حاصل کرنا ہو گی جو سائے کی طرح ان کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ وگرنہ جتنی مرضی کوشش کر لیں‘ وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ کرپٹ خوشامدی ٹولہ پیرتسمہ پا بن کر ان پر سوار ہے اور کسی صورت انہیں چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔جب تک وہ خود اُس سے جان نہیں چھڑانا چاہیں گے‘ وہ یونہی سوار رہیں گے۔ صوبے کے ہسپتالوں‘ تعلیمی اداروں اور خاص طور پر عدلیہ میں اگر وہ انقلابی تبدیلی لے آئے تو آئندہ عام انتخابات میں انہیں کوئی ہرا نہیں سکتا چاہے مخالف جتنی مرضی دھاندلی کر لیں۔
حکمران خدا کے لئے ترجیحات بدلیں ‘ ترجیحات۔ جب وہ کسی سڑک کو ماڈل سڑک بناتے ہیں تو اس پر موجود ہسپتالوں‘ سکولوں ‘ عدالتوں اور پولیس سٹیشنوں کو بھی ماڈل بنائیں۔ یہ وہ مقامات ہیں جن سے عوام کا ان ماڈل سڑکوں سے گزرنے کے بعد واسطہ پڑتا ہے۔ گزشتہ روز دنیا نیوز کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی اور فورم انچارج رانا عظیم کو انہی ماڈل سڑکوں پر دن دہاڑے ٹریفک وارڈنز کے سامنے گن پوائنٹ پر لوٹا گیا۔اگر ماڈل سڑکوں کی طرح ماڈل پولیس فورس بھی بنائی گئی ہوتی‘ تو کبھی یہ واقعہ نہ پیش آتا۔ اگر اسی طرح ہسپتالوں اور دیگر شعبوں کے حصے کا پیسہ سڑکوںاور بسوں پر لگتا رہا تو غریبوں کے بچے یونہی ہسپتالوں میں انجکشنوںاور فنڈز کی کمی سے مرتے رہیں گے اور صحافی اور عام لوگ بے بسی سے لٹتے رہیں گے۔ ایسے میں اورنج ٹرینوں اور میٹروبسوںپر تنقید بھی ہو گی اور بچوں کے لواحقین حکمرانوں سے اپنے جگر کے ٹکڑوں کی موت کا حساب بھی مانگیں گے۔کیا وہ حساب دینے کے لئے تیار ہیں؟