درمیانہ قد ‘گول چہرہ ‘خش خشی داڑھی ‘آنکھوں اور ہونٹوں سے چھپی ہوئی مسکراہٹ ‘زندہ دل مگر حساس طبیعت ۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا دائود غزنوی‘ اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے معاصر مولانا اسحق بھٹی بھی رخصت ہوئے۔ ٹی وی ‘ موبائل ‘انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی نسل کو کیا معلوم کہ کتنا بیش قیمت ہیرا خاک نشین ہوا۔
اسحاق بھٹی 1925ء میں کپورا ریاست فرید کوٹ میں پیدا ہوئے۔ کتب بینی کا شوق ورثے میں پایا۔ مبتدی طلبا کو قرآن و حدیث پڑھانا شروع کیا۔کچھ ہی عرصہ میں دارالعلوم مرکز الاسلام کے شیخ الحدیث کہلانے لگے۔ 25 روپے تنخواہ پاتے تھے۔ اس وقت یہ ایک بڑی رقم تھی۔ درس نظامی کے فارغ اور بہت بڑے عالم تھے۔ کسی بڑی جامعہ میں اچھے معلم کے طور پر کام کر سکتے تھے مگر چونکہ یہاں کسی وقت طالب علم رہ چکے تھے اور مولانا محی الدین لکھوی اور مولانا معین الدین لکھوی سے ان کے دوستانہ تعلقات قائم ہو چکے تھے لہٰذا ان کی دعوت پر محض دین اسلام اور علوم الہٰیہ کی خدمت کے جذبے سے کام کرنے لگے۔
جو بھی ان سے ایک بار ملا ‘متاثر ہوئے بغیر نہ رہا۔ محفل کی جان تھے۔ یادداشت ایسی کہ گویا سب کچھ آنکھوں سے دیکھ کر بول اور لکھ رہے ہوں۔ ہر فرقے اور ہر طبقے سے میل جول رکھتے۔ کسی کا برا مناتے‘ نہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کی کوشش کرتے۔
مختلف شخصیتوں پر جب لکھتے تو اس میں کسی نہ کسی طرح مزاح ضرور پیدا کر دیتے۔ اپنی کتاب ''قصوری خاندان‘‘ میں مولانا سید دائود غزنوی کی معیت میں میاں محمود علی قصوری سے پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا۔ ''تھوڑی دیر کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ ان کا ملازم پانی، چائے اور کھانے کی مختلف چیزوں سے لدی ہوئی ایک ریڑھی کھینچے چلا آ رہا ہے۔ میں نے اس قسم کی ٹرالی یا ریڑھی زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی تھی جس کے اوپر نیچے دو تین چھتیں تھیں۔ جو چینی کے چھوٹے بڑے کئی برتنوں اور بہت سی اشیائے خورونوش سے بھری ہوئی تھیں۔ ذہن میں آیا کہ یہ لکڑی کی اس کھرلی کی طرح ہے جس میں پہیے لگے ہوتے ہیں اور ڈھور ڈنگروں کیلئے چارہ، بھوسہ، بنولہ وغیرہ اس میں ڈالا جاتا ہے۔ دیہات میں یہ کھرلی مویشیوں کیلئے ہوتی ہے اور بناوٹ کے کچھ فرق کے ساتھ شہروں میں انسانوں کے لئے‘‘۔
ایک مرتبہ مولانا محمد اسحاق بھٹی اور محی الدین قصوری کسی سفر پر جا رہے تھے تو بس میں سوار ہو کر قصوری صاحب نے دونوں کا کرایہ دینے کیلئے پیسے جیب سے نکالے تو بھٹی صاحب نے انہیں ڈانٹ دیا اور مسکراتے ہوئے کہا ''جب اپنے سے بڑے کے ساتھ سفر پر جائو تو کرایہ دینے کی کوشش نہ کرو۔ بڑے کا فرض ہے کہ دونوں کا کرایہ ادا کرے‘‘۔
اگست 1949ء میں گوجرانوالہ سے ہفت روزہ الاعتصام جاری ہوا۔ جس کے بانی و ناشر مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور ایڈیٹر مولانا محمد حنیف ندوی تھے۔ فروری 1950ء میں مولانا محمد اسحاق بھٹی بطور معاون ایڈیٹر گوجرانوالہ چلے گئے۔اکتوبر 1965ء میں ادارہ ثقافت اسلامیہ سے منسلک ہو گئے۔ اس سے پہلے ان کے مشفق دوست مولانا محمد حنیف ندوی مئی 1951ء سے اس ادارہ میں تھے۔ ادارے کے ڈائریکٹر ایم ایم شریف تھے۔ انہی دنوں ریڈیو پاکستان کے ''زندہ تابندہ‘‘ پروگرام میں بھٹی صاحب کی تقریروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان کی پہلی ریڈیائی تقریر 25 دسمبر 1961ء کو نشر ہوئی‘ پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ مختلف پروگراموں میں روزانہ دو دو تین تین تقریریں بھی ہوئیں اسی اثناء میں انہوں نے چالیس پینتالیس اہم دینی اور علمی شخصیات پر تقاریر فرمائیں۔
ادارہ ثقافت اسلامیہ کی طرف سے مولانا محمد اسحاق بھٹی نے تقریباً چوتھی صدی ہجری کے محمد بن اسحاق ابن الندیم کی معروف عربی کتاب ''الفہرست‘‘ کا اردو ترجمہ کیاجو تقریباً ایک ہزار
صفحات میں چھپا۔ ''برصغیر پاک و ہند میں علم فقہ‘‘ کتاب لکھی۔ اس کے بعد دس جلدوں میں ''فقہائے ہند‘‘ لکھی۔ یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے اور ادارے کی مطبوعات میں ایک اہم اور مفید اضافہ ہے۔ بائیس سال ادارہ کے ماہنامہ ''المعارف‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ ''برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش‘‘ لکھی۔ اس کتاب میں ان صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا تذکرہ کیا گیا ہے جو مختلف اوقات میں برصغیر پاک و ہند میں تشریف لائے۔مولانا محمد حنیف ندوی ایک جلیل القدر عالم اور نامور مصنف تھے جو ادارہ ثقافت اسلامیہ کے قیام کے ابتدائی دور ہی میں اس سے وابستہ ہو گئے تھے۔ 28 جولائی 1985ء کو ادارہ ثقافت اسلامیہ کی طرف سے ان کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔ اس تقریب میں ان کے متعلق مختلف اہل قلم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور مقالے پڑھے۔ یہ مقالے مولانا بھٹی نے 'ارمغان حنیف‘ کے نام سے کتابی صورت میں مرتب کرکے شائع کر دئیے۔بھٹی صاحب نے پی ایچ ڈی کے تین مقالے ایڈٹ کئے جو ادارہ ثقافت اسلامیہ کی طرف سے شائع کئے گئے۔مرحوم نے تیس سال ادارہ ثقافت اسلامیہ میں تصنیفی و تحقیقی خدمات سرانجام دیں۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی نے اپنی طرف سے قصوری خاندان، نقوش عظمت رفتہ، بزم ارجمنداں ، میاں فضل حق اور ان کی خدمات وغیرہ کتابیں لکھیں اور شائع کروائیں۔ ان کتابوں میں انہوں نے بے شمار اہم شخصیات کی نجی اور سیاسی زندگی کے حالات اور ان کی علمی و ملی خدمات کا خوب تذکرہ کیا ہے۔دینی اور تاریخی موضوعات پر انہوں نے کل چالیس کتابیں تحریر کیں۔ وہ ہندوستان کے سابق صدر گیانی ذیل سنگھ کے ذاتی دوست بھی تھے۔ آخری دنوں میں بھی ان کا قلم ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا‘ معلوم نہیں کہاں جا کے تھما۔تاہم اتنا معلوم ہے کہ آخری سانسوں تک بس لکھتے ہی رہے۔مئی میں ان سے آخری ملاقات ہوئی۔ وہ اپنے جگری دوست میرے نانا چودھری غلام حسین کی اکلوتی بیٹی اور میری والدہ کی وفات پر گھر تشریف لائے تھے۔
میں جب اس طرح کے ممتاز تاریخ دان اور محققین کو رخصت ہوتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیا ایسے لوگ اب دوبارہ پیدا ہوں گے۔ کیا ایسے کام ‘ کیاایسی تحقیق اب کوئی اورکرے گا۔ نظر یہی آتا ہے کہ نئے محقق اور تاریخ دان پیدا ہونا تو دُور کی بات‘ نئی نسل اگر انہی کی علمی خدمات سے استفادہ کر لے تو بھی بڑی بات ہے۔ شاید موبائل اورسوشل میڈیا کے دور میں ایسے خواب دیکھنا مناسب نہیں۔ یوں لگتا ہے ہم ایک دور سے نکل کر دوسرے میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایک ایسے دور میں ‘ جوگلیمر‘ مزاح‘ شور شرابے سے بھرپور ٹاک شوز ‘ الٹے سیدھے مارننگ شوز‘ ڈالر سمگل کرنے والی ماڈلز اور گلا پھاڑ پھاڑ کر بولنے والے سیاستدانوں کا دور ہے اور جہاں کسی عالم دین‘ کسی تاریخ دان اور کسی محقق کی طلب انتہائی محدود ہو چکی۔ دیگر بڑی شخصیات کی طرح اسحاق بھٹی بھی خاموشی سے چلے گئے۔جانا سبھی کو ہے لیکن اگر کوئی زندگی اور موت کی حقیقت جاننا چاہتا ہے تو ایک لمحے کو سوچ لے کہ وہ کیا لے کر اور کیا چھوڑ کر جا رہا ہے ،حقیقت کھل کر اس کے سامنے آ جائے گی۔