بیس برس پرانی بات ہے۔ ہمارے گھر کے سامنے دو پلاٹ عرصے سے خالی پڑے تھے۔ ایک دن کچھ لوگ یہ پلاٹ دیکھ کر چلے گئے اور چند دن بعد آ کر تعمیر شروع کر دی۔ یہ دو بھائی زید اور بکر تھے۔ وراثت میں انہیں برابر پیسہ ملا تھا۔ اتفاق سے دونوں کے بچے بھی برابر دو‘ دوتھے۔ البتہ ان بھائیوں کی طبیعت میں بہت فرق تھا۔ زید شاہ خرچ اور عیش پرست جبکہ بکر دُور اندیش اور محتاط طبیعت کا مالک تھا۔ زید نے مکان کو پرتعیش بنانے کیلئے خاص طور پر انٹریئر ڈیزائنر ہائر کئے۔ جہاں عام لکڑی سے کام چل سکتا تھا وہاں بھی زید نے دیار کا استعمال کیا۔ ہر کمرے کی ہر دیوار پر مختلف رنگ کرایا ۔فرش کو قیمتی پتھر اور چمکتی دمکتی ٹائلز سے مزین کیا۔ قیمتی فانوس اوربرقی قمقموں سے گھر کو جگمگ کیا۔ پردے لگانے کی باری آئی تو یوں لگا جیسے رنگوں کی بہار آ گئی ہو۔ کچن کی باری آئی تو بیگم صاحبہ میدان میں آ گئیں۔ عام چولہے کی جگہ اٹالین چولہے ‘ اس کے ساتھ آگ کی تپش اور دھواں باہر نکالنے والا جرمنی کا جدید ایگزاسٹ سسٹم۔ عام اوون کا زمانہ گیا‘بچوں کی فرمائش تھی‘ انہیں گھر میں حسب خواہش اور حسب ذائقہ پیزا ‘کیک اور برگر تیار چاہئیں۔ وہ ریسی پیز جو کھانے کے پروگراموں میں روزانہ دیکھی جاتی تھیں‘ آخر انہیں آزمانا بھی تو تھا۔ اس مقصد کے لئے دوبارہ توڑ پھوڑ ہوئی اور دیوار میں نصب کرنے کے لئے امپورٹڈ اوون کی جگہ بنائی گئی۔ پرانا بھدا فریج نئے گھر میں کیسے سوٹ کر سکتا تھا۔ اس کی جگہ الماری کی شکل والا نیا فریج آگیا جو قیمت میں عام فریج سے آٹھ گنا مہنگا تھا۔ انتہائی مہنگے فرش بنوانے کے بعد اعلان ہوا کہ نہیں ‘ ان پر دیدہ زیب قالین بچھائے جائیں تو خوبصورتی اور نفاست میں اضافہ ہو جائے گا۔ چنانچہ مخملی قالینوں کی تلاش شروع ہوئی۔ پیسہ پاس ہو تو کیا نہیں ملتا۔ وہ فرش جن میں چہرے کا عکس نظر آتا تھا‘ یکایک بیش قیمت
قالینوں سے ڈھانپ دئیے گئے۔ ہر کمرے کی دیوار پر جہازی سائز کی ٹی وی سکرین لگ گئی کہ ان کے بغیر اب گھر ویسے ہی نا مکمل لگتا ہے۔ ڈرائنگ رو م اور لائونج میں الماری والا بڑا اے سی بھی لگ گیا کہ یہ سٹیٹس بھی ہے اور ''ضرورت‘‘ بھی۔بجلی کے بیک اپ کے لئے آٹھ کے وی اے کا جنریٹرلگ گیا جو برقی اشیا لوڈشیڈنگ کے دوران بلا تعطل چلا سکتاتھا۔ آخری چیز فرنیچر تھی۔ فیصلہ ہوا‘پراناسامان فروخت کر دیا جائے‘ چاہے کوڑیوں کے بھائو ہی۔ ہر بیڈ روم میں سپرنگوں والا نیا شاہی پلنگ آ گیا۔نئی کرسیاں‘ نئے صوفے اور نئی ڈائننگ ٹیبلز آ گئیںاور آرائشی سامان نے تو گویا گھر کی شکل ہی بدل دی۔ اس کے مقابلے میں بکر نے کیا کیا۔ شاید اس کا دماغ درست نہ تھا۔ اس نے فرش بنائے لیکن سیمنٹ کے پلستر والے۔ نہ ٹائلیں لگائیں نہ ماربل۔ لکڑی کی الماریاں بنیں تو انتہائی سادہ۔ ان میں کپڑے اور ضروری اشیا آ سکتی تھیں اور یہی ان کا مقصد تھا۔ دیواروں پر رنگ و روغن کروایا لیکن صرف گھر کے اندرونی حصے پر۔ غسل خانوں میں عام ٹونٹیاں اور چپس کا عام فرش لگایا۔ باورچی خانے میں چولہا زمین پررکھ لیا گیا تاکہ سبھی گھر والے وہیں زمین پر پیڑھیوں پر بیٹھ کر کھانا کھائیں اور تازہ گرم گرم چپاتیوں سے لطف اندوز ہوں۔ فرنیچر بھی پرانا اور پردے اور برقی اشیا بھی پرانی ہی استعمال میں آ گئیں۔ جہاںپردے کی جگہ خالی بچی‘ وہاں عام سادہ چادریں لٹکا دی گئیں‘ لیکن نفاست کے ساتھ۔ نہ کسی کمرے میں سپلٹ ایئرکنڈیشنرلگا نہ ایل سی ڈی سکرین۔ چارپائیاں ضرور خریدی گئیں‘ انہیں چھت پر رکھا گیا تاکہ گرمیوںمیں
ایک پنکھا لگا کر سب سکون سے سو جائیں۔
بکر نے سادگی سے اس لئے کام نہیں لیا کہ اس کے پاس برابر کے پیسے نہ تھے۔ وہ چاہتا تو بھائی کی دیکھا دیکھی پرتعیش اشیا سے مزین عالیشان محل تعمیر کر سکتا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کی اوراس کے بچوں کی اصل ضروریات کچھ اور ہیں۔ دونوں بھائی اپنے اپنے گھر منتقل ہو گئے۔ زید کی فیملی جب بھی بکر کے گھر آتی تو ان کے گھر کا مذاق ٹھٹھا اڑاتی۔ زید کے بچوںکو عیاشی کی لت پڑ گئی۔ وہ اپنے باپ سے نت نئی اشیا کا تقاضا کرنے لگے۔ زید ہر سال فرنیچر تبدیل کرنے لگا۔ وہ اپنی اور بچوں کی غیرضروری خواہشات پوری کرتا رہا۔ اسے اپنی اور بچوں کی صحت کا خیال تھا نہ اخلاقیات کا۔ وہ تعلیم میں پیچھے رہ گئے اور بری سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔ دوسری طرف بکر نے اپنے بچوں کو خوب پڑھایا ‘ لکھایا‘ جو پیسے اس نے مکان سے بچائے تھے‘ وہ ان کی ٹرانسپورٹیشن‘ فیسوں ‘ ان کی صحت اور ان کی کیریکٹر بلڈنگ پر خرچ کرنے شروع کر دئیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بکر کے دونوںبچے پڑھ لکھ کر اعلیٰ ملازمتوں پر لگ گئے اور ان کے ہاں پیسے کی ریل پیل ہو گئی۔ آہستہ آہستہ انہوں نے اپنے گھر کی حالت کو درست کرنا شروع کیا اور چند ہی برسوں میں ان کا گھر زید جیسا خوبصورت اور آرام دہ نظر آنے لگا۔ دوسری طرف زید کے بچے جو آوارہ ہو چکے تھے‘ جرائم کی دلدل میں اتر گئے۔ قرض اتارنے کے لئے گھرکی چیزیں فروخت ہونے لگیں اور چند ہی برسوں میں زید کے گھر فاقوں کی نوبت آ گئی‘ سب کچھ بک گیا اور سب کے سب زمین پر سونے پر مجبور ہو گئے۔
چند روز قبل وزیراعظم نواز شریف نے ایک ایسا بیان دیا‘ جسے پڑھ کر یقین ہی نہ آیا کہ وہ کبھی ایسا بھی فرما سکتے ہیں۔وزیر اعظم نے میٹرو بس اور اورنج ٹرین منصوبوں پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ پنجاب حکومت عوام کے بنیادی مسائل کی جانب توجہ دے ۔ خدا جانتا ہے کہ ان کے اس اظہار برہمی کا اُن کے اپنے بھائی پر کچھ اثر ہوا یا نہیں لیکن جو حکمران بھی چند بڑے تعمیری منصوبوں کو عوامی مسائل پر ترجیح دیتے ہیں‘ ان کے لئے زید اور بکر کی کہانی کافی ہے۔ اگر آپ لاہو ر میں رہتے ہیں تو گزشتہ تین چار مہینے سے آپ جیل روڈ اور گلبرگ روڈ پر روزانہ بلڈوزر چلتے دیکھ رہے ہوں گے‘ آپ لاہور کی میٹرو بھی بھگت چکے ہیں اور اب اورنج ٹرین بھگتنے والے ہیں‘ آپ سچ سچ بتائیے کہ اگر حکومت میٹروبس ‘ اورنج ٹرین اور بڑی سڑکوں کو دوبارہ تعمیر کرتی لیکن ساتھ میں ہر سرکاری ہسپتال میں علاج کی مکمل سہولیات فراہم کر دیتی‘ اگر یہ چلڈرن ہسپتال میں درجنوں بچوں کو مرنے سے بچانے کے لئے خناق کے انجکشن اور وینٹی
لیٹرزبروقت منگوا لیتی‘ اگر یہ سرکاری سکولوں کا معیار نجی سکولوں سے بہتر یا برابر کر دیتی‘ اگر یہ تھانوں اور تھانے داروں کو عوام دوست بنا دیتی‘ اگر یہ لوڈشیڈنگ ختم یا کم کرنے پر واقعی توجہ دے دیتی‘ اگر یہ سوشل سکیورٹی کا موثر نظام نافذ کر دیتی‘ اگر یہ ہر بچے کو سکول داخل کروا دیتی‘ اگر یہ عدالتوں میں مقدمات تیزی سے نپٹانے کا نظام بنا دیتی‘ اگر یہ پینے کا صاف پانی مہیا کر دیتی‘ اگر یہ بے سہارا‘ یتیم‘ مسکین‘ نادار اور بوڑھے بے گھر افراد کو چھت مہیا کر دیتی اور اگر یہ ہر سال فارغ التحصیل ہونے والے لاکھوں ڈگری ہولڈرز کے لئے نوکریوں کے امکانات پیدا کر دیتی تو کیا آپ اور میں کبھی بھی میٹروبس‘ اورنج ٹرین اور سگنل فری سڑکوں کو نشانۂ مشقِ ستم بنا رہے ہوتے؟ نہیںناں؟ ہم سب تعریف کرتے کیونکہ یہ بھی ضرورت ہیں لیکن ان سے کہیں زیادہ ضرورت بنیادی حقوق کی ہے‘ روٹی‘ کپڑا‘ مکان‘ تعلیم ‘ صحت اور روزگار کی ہے۔ چونکہ حکومت نے ان مسائل کو حل کرنا تو درکنار‘ ان کی طرف دیکھنا تک گوارانہ کیا بلکہ انہی کا بجٹ کاٹ کر بسوں اور ٹرینوں کے بجٹ میں جھونک دیا‘ اسی لئے یہ بسیں‘ یہ ٹرینیں اور یہ سگنل فری سڑکیں عوام کو ایک آنکھ نہ بھا سکیں ، یہ باعث نفرت بن گئیں۔
کاش‘حکمران زید کی بجائے بکر کی سوچ اپنا لیں‘خود بھی سکھی ہو جائیں اور عوام کو بھی سکھی کر دیں !
رسید: ابھی ابھی خبر چلی ہے کہ ملتان چلڈرن ہسپتال کا منصوبہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے آٹھ برس سے زیر التوا ہے۔چلیں کوئی نہیں‘ وہاں میٹرو تو بن رہی ہے‘ بچے مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔ حکمرانوں کی جانے بلا!