آٹھ برس قبل اِنہی دنوں کی بات ہے۔ میں حسب معمول دفتر میں موجود تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی بجی ۔ فون کان سے لگایا توکھنک دار آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ '' جینٹل مین! بڑے دن سے غائب ہو۔ آج ضرور چکر لگانا۔ میں انتظار کروں گا‘‘ اس فون کے دو گھنٹے بعد میں اُن کے گھر موجود تھا۔ چائے ختم ہوئی تو وہ مجھے لیکر باہر آ گئے۔ گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ ہی ایک میز رکھی تھی۔ میز پر گیس کا چولہا ‘چینی‘ دودھ‘ گھی وغیرہ کے ڈبے پڑے تھے۔ کہنے لگے '' میں نے تمہیں اس لئے بلایا تھا کہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو ہم یہ کام کس طرح انجام دیتے ہیں۔ ڈھائی سو لوگوں کیلئے کھانا تیار کرنا اور روزانہ صبح سویرے پہنچانا ایک مشکل ایکسرسائز ہے لیکن مجھے یہ کام اب ذرا بھی مشکل نہیں لگتا‘‘ پھر وہ مجھے تفصیلات بتانے لگے اور میں حیرت بھری نگاہوں سے کبھی اُن کے تھری پیس سوٹ پر نظر ڈالتا تو کبھی انہیں ''پراجیکٹ‘‘ کی تفصیلات بتاتے ہوئے دیکھتا۔ کبھی پورچ میں کھڑی قیمتی گاڑی کو دیکھتا تو کبھی انہیں پتیلے میں چمچ ہلاتے دیکھتا۔ کبھی پوش علاقے اور لب نہر واقع عمارت کا جائزہ لیتا تو کبھی انہیں ملازموں کے ساتھ مدد کرواتے ہوئے دیکھتا ۔
چند دنوں بعد میجر رشید وڑائچ کی آٹھویں برسی ہے۔ ہر سال سردیوں کے یہ دن مزید اداس کر دیتے ہیں۔ان کی وفات سے صرف ایک ہفتہ قبل میرے ایک کالم میں تین شخصیات کاذکر تھا جو لاہور میںمختلف جگہوں پر غرباء کو روزانہ مفت کھانا فراہم کرتے ہیں۔ میرے اس کالم کا ایک اہم کردار میجر رشید وڑائچ تھے۔ میں پندرہ سال سے انہیں جانتا تھالیکن ان کا یہ روپ ان کی رحلت سے صرف تین ماہ قبل میرے سامنے آیاتھا۔ غالباً وہ میڈیا کے ذریعے دنیا کواپنی اس کاوش سے آگاہ کرنا چاہتے تھے تاکہ دیگر لوگ بھی ایسے پراجیکٹس شروع کر سکیں۔ یہ بھی ممکن ہے میجر صاحب کو معلوم ہو گیا ہو ان کا وقت رخصت قریب آ چکا ہے اور وہ اس ''مشعل‘‘ سے مزید چراغ روشن کرنا چاہ رہے تھے۔ انہوں نے بار ہا اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں کسی روز علی الصبح ان کے ساتھ چوبرجی چوک چلوں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوںکہ سینکڑوںمزدور‘ جو دن کو دیہاڑی کرتے اور رات کو سڑکوں پر سوتے ہیں‘ کس طرح پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ میں ہر بار آنے کا وعدہ کر لیتا مگر سچی بات یہ ہے کہ سخت سردی میں صبح سویرے اٹھنا‘ گرم بستر چھوڑنا اور شہر کے دوسرے کونے تک جانا میرے جیسے دنیا پرست کیلئے ممکن نہ تھا۔ میںجب بھی کبھی جانے کا ارادہ کرتا تو مجھے کوئی کام یاد آ جاتا یا پھرمیرے اندر کا منافق میرے سامنے آکر کھڑا ہو جاتااور میں بستر میں دبک کر سو جاتا۔
8فروری کی دوپہر میجر صاحب نے اپنی آخری آرام گاہ کی طرف روانہ ہونا تھا اورمیں ان کے وہاں پہنچے سے قبل ان سے کیا گیا وعدہ پورا کرنا چاہتا تھا۔ میں میجر صاحب کا آخری دیدار بھی کرنا چاہتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک یہ وعدہ مجھ پر قرض تھا تب تک مجھ میں ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔شب اُن کی یادوں اور آنکھوں میں کٹ گئی۔ میں سورج نکلنے سے گھنٹہ پہلے ہی گھر سے نکل
آیا۔ باہر گھپ اندھیرا چھایاتھا اور یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیںلیکن اس صبح نہ تو مجھے کوئی کام یاد آیا‘ نہ سردی محسوس ہوئی اورنہ ہی میرے اندر کا منافق میرے آیا۔ میں گاڑی میں بیٹھا اور سورج طلوع ہونے سے قبل ہی چوبرجی چوک جا پہنچا۔ فٹ پاتھ اور دکانوں کے تھڑوں پر سینکڑوں دیہاڑی دار چادریں لپٹیے سوئے ہوئے تھے۔ سورج نکل آیا اور کچھ ہی دیر میں یہ لوگ ایک لمبی قطار بنا چکے تھے۔ ان سب کی نگاہیں مزنگ سے آنے والی اُس سڑک پر تھیں جدھر سے میجر صاحب کی گاڑی آتی تھی۔ ان لوگوں کو یہ علم ہی نہ تھا جس شخص کا وہ انتظار کر رہے ہیں وہ سفر آخرت پر روانہ ہو چکا ہے۔ تین سالوں میں شاید یہ پہلا موقع تھا جب ان لوگوں کو خالی پیٹ اور خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔
سورۃ السجدہ میں اللہ نے ایسے لوگوں کیلئے انعام کا وعدہ کیا ہے جو راتوں کو عبادت کرتے اور دن کو اپنا مال راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔
مجھے لگا جیسے یہ آیات میجررشید وڑائچ جیسے لوگوں کے بارے میں ہیں اور جب میں نے میجر صاحب کا آخری دیدار کیا تو یوں محسوس ہوا گویاسارے جہاں کا نور اُن کے چہرے میں سمٹ آیا ہو۔ یہاں واضح کر دوں میجر صاحب بہت امیر یا جاگیردار نہیں تھے بلکہ اصل میں وہ انتہائی فراخ دل‘ مہمان نواز اور دردمند انسان تھے۔ دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ اس ملک میں میجر صاحب جیسے لاکھوں دولتمند ہوں گے لیکن انہوںنے اپنی دولت پر ایسے سانپ بٹھارکھے ہیں جو سائل کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔ آج ہم خود کو مسلمان تو کہتے ہیں مگر سچ سچ بتلائیے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جوفاقہ کشوںکے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں‘ جو راتوں کو اٹھ کر ربّ اکبر کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں‘ جو اپنی اہلیہ کے زیورات کسی بیوہ کو دے دیتے ہیں‘ جو زندگی میں اور مرنے کے بعد اپنی جائیداد غریبوں کے نام کر دیتے ہیں‘ جو سائل کو دھتکارتے نہیں‘ جو ملازموں کو بیٹوں سے بڑھ کر پالتے ہیں‘ جو بستر مرگ پر بھی امانتیں لوٹانے کیلئے بے چین رہتے ہیں اور جن کا دروازہ ضرورت مندوں کیلئے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ شاید ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں اور میجر صاحب کسی اور دنیا کے انسان تھے ‘ وہ کسی پراسرار مٹی کے بنے تھے اور ہمیں آئینہ دکھلانے کیلئے اس دنیا میں آئے تھے۔
زندہ رہنے کیلئے انسان کی کم از کم ضرورت خوراک اور آکسیجن ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں۔ بڑھتی ہوئی مفلسی‘ بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے ایسے لوگوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے جن کیلئے روٹی پوری کرنا بھی محال ہوگیا ہے۔ جب یہ
لوگ دو دو کروڑ کی گاڑیوں میں سوار ان لوگوں کو دیکھتے ہیں‘ جن کی بیگمات آئے روز ہزاروں روپے لیکر شاپنگ کیلئے نکلتی ہیں‘ جنہیں بینکوں میں پڑی دولت کا حساب بھی زبانی یاد نہیں‘ جنہیں فائیوسٹار ہوٹلوں سے کم کھانا ہضم نہیں ہوتا اور جن کے پلاٹوں‘ پلازوں ‘ زمینوں اور جاگیروں میں آئے روز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہاہے توپھر ان کے سینوں میں حسد اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور جب یہ لوگ ایسے سیاستدانوں 'عالموں اورصحافیوں کو دیکھتے ہیں جو عوام کو تو سادگی‘ درویشی اور تقویٰ کا درس دیتے ہیں لیکن خود اپنی سینکڑوں ایکڑ اراضی ‘ بزنس ایمپائراور اربوں کھربوں کی دولت کی خوشبو بھی نہیں لگنے دیتے تو ان کا غم و غصہ انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ یہ غم و غصہ کسی روز لاوے کی صورت میں نہ پھٹ جائے‘ اس سے قبل ہی ہمیں اپنے رزق کا کچھ حصہ اس محروم طبقے کیلئے مخصوص کر دینا چاہیے۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ فرماتا ہے''تم میں کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اْسے کئی گنا بڑھا کر واپس کرے؟ ‘‘۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر اللہ اس ملک کے دس بڑے امیروں‘جاگیرداروں یا حکومت کے دس بڑے عہدیداروں کے سینے میںمیجر صاحب جیسا دل لگا دیتا تو اس ملک میں کوئی شخص غربت کے باعث پھانسی کے پھندے کو نہ چومتا‘ کوئی یتیم‘ کوئی مسکین کسی در سے خالی ہاتھ نہ لوٹتا‘ کوئی بیوہ بیٹی کو بیاہنے کیلئے در بدر ٹھوکریں نہ کھاتی‘ بھوک سے ستایا کوئی بچہ اُبلتی ہوئی دیگ میں نہ گرتا اور کوئی ماں اپنے جگر گوشوںکو بیچنے کی خاطر سڑکوں پر نہ لاتی۔ ؎
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے