ہر سال جب ویلنٹائن ڈے قریب آتا‘ وہ خوفزدہ ہو جاتی۔ اس کا دل چاہتا‘ تیرہ تاریخ آئے اور اس کے بعد سیدھا پندرہ کا سورج طلوع ہو‘ درمیان سے ویلنٹائن ڈے ہی نکل جائے۔ چودہ تاریخ سے اسے سخت نفرت ہو چکی تھی۔ جب بھی چودہ فروری کا دن آتا‘ ایک ہیولا اس کے پیچھے لگ جاتا۔ اسے پھول ‘ کارڈ اور چاکلیٹ دینے کی کوشش کرتا‘ اس کا راستہ روکتا اور اس سے زبردستی اظہار محبت کرتا۔ وہ اتنی پریشان ہو چکی تھی کہ سوچنے لگی‘ کاش وہ حسین نہ ہوتی‘ کاش وہ عام سی لڑکی ہوتی۔ایسی ہی ایک صبح وہ کالج کیلئے نکلی تو اپنے پیچھے ایک ہیولا سا محسوس ہوا‘ وہ رُکی‘ مڑ کر دیکھا‘ دُور دُور تک کوئی نہ تھا‘ کالج سے واپسی پر گلی کی نکڑ پر پہنچی‘ تو سامنے وہی بیس اکیس برس کا لڑکا موٹرسائیکل پر بیٹھا تھا‘ اس کے گلے میں چین‘ ہاتھ میں کڑا تھا اور بال سپائیکس کے انداز میں بنے تھے‘ وہ سہم گئی اور تیز تیز قدم اٹھاتی گزر گئی‘ مگر وہ پیچھے آ گیا اور اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔پہلے اس نے پھول دینے کی کوشش کی ‘ناکامی پرکہا‘ ''تم میری ہو‘ صرف میری ‘‘۔ اب یہ روز کا معمول بن گیا تھا‘ یہ لڑکا اس کا پیچھا کرتا‘ اس کے سامنے ون ویلنگ کرتا اور کئی مرتبہ اپنے دوستوں کو بھی ساتھ لاتا‘ تنگ آ کر لڑکی نے والدین کو بتلا دیا‘ والد غصے میں آ گیا اور لڑکے کے باپ سے اُسے باز رکھنے کو کہا‘ مگر لڑکا انتہائی ڈھیٹ تھا‘ ایک روز وہ بے خوف ہو کر اس کے قریب آیا اور بولا ''جا کر بتا دو سب کو... اگلے ویلنٹائن پر تم میری دلہن بنو گی ‘‘
لڑائی جھگڑا بڑھ جانے کے ڈر سے وہ چپ رہی‘ عدم تحفظ کا احساس اسے کھانے لگا تھا‘ اس نے ڈر کر برقعہ اوڑھنا شروع کر دیا کہ شاید دنیا کی نظروں سے بچ جائے مگر یہ ظالم دنیا تو عورت ذات کو چھوڑتی ہی نہیں‘ یہ اسے محض ایک کھلونا‘ ایک ٹشو پیپر اور ایک مذاق سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں۔ اگلے ویلنٹائن سے تین روز قبل لڑکی کے والدین نے اس کا رشتہ ڈھونڈا اور منگنی کر دی‘ لڑکے کیلئے یہ ناقابل برداشت تھا‘ اس نے دھمکی آمیز رقعہ بھیجا''تین روز میںمنگنی نہ توڑی تو انجام اچھا نہ ہو گا‘‘ لڑکی کے باپ نے لڑکے کے خلاف درخواست دے دی‘ پولیس لڑکے کو تھانے لے گئی اور رشوت لے کر چھوڑ دیا‘ اب یہ لڑکا بپھر چکا تھا اور جب اسے علم ہوا نکاح کی تاریخ بھی طے ہو چکی ہے اور اس کی محبوبہ کسی اور کی ہونے والی ہے‘ تو وہ ویلنٹائن ڈے کا انتظار کرنے لگا۔ چودہ فروری کی صبح وہ سیدھا اپنی الماری کی طرف لپکا‘ریوالور نکالا اور لڑکی کے گھر کی طرف نکل پڑا‘ بیل بجائی‘ باپ باہر آیا تو اس پر فائر کھول دیا‘ بیٹی بچانے کو لپکی تو باقی ریوالور اس پر خالی کر دیا‘ محبوبہ کو خون میں لت پت دیکھ کر وہ اپنے حواس کھو بیٹھا‘ پلٹا‘ گھر پہنچا اور پنکھے سے لٹک کر خاموش ہو گیا۔
یہ حقیقت ہے آپ کسی بھی گرلز کالج‘ اکیڈمی یا گرلز ہوسٹل چلے جائیں آپ کو چھٹی کے وقت وہاں پر سینکڑوں لڑکے نظر آئیں گے
اور معاملات اس وقت ہاتھ سے نکل جاتے ہیں جب چودہ فروری کا دن قریب آتا ہے‘ تب یہ لڑکے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ یہ گرلز کالجوں ‘ اکیڈمیوں اور بازاروں کے آس پاس مستقل ڈیرا ڈال لیتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ یہ وہاں کیا کرنے آتے ہیں‘ ان لڑکوں میں کئی خوبیاں ہوتی ہیں‘ ایک‘ یہ لڑکے مستقل مزاج ہوتے ہیں‘ یہ روزانہ بلاناغہ لڑکیوں کا پیچھا کرتے ہیں‘ یہ بارش‘ دھوپ اور پولیس تک کی پروا نہیں کرتے‘ دو‘ یہ وقت کے پابند ہوتے ہیں‘ یہ صبح اور چھٹی کو وقت سے پہلے پہنچ جاتے ہیں‘ تین‘ یہ خوش لباس بھی ہوتے ہیں اور روز نئی شرٹ اور بالوں کا نیا سٹائل بنا کر آتے ہیں‘ چار‘ یہ بلا کے ذہین ہوتے ہیں‘ انہیں علم ہوتا ہے لڑکی کو خط یا موبائل نمبر کیسے پہنچانا ہے اور اس کیلئے کونسا طریقہ استعمال کرنا ہے اور پانچ‘ یہ خوش اخلاق ہوتے ہیں‘ یہ لڑکیوں سے بات کرتے وقت آداب کا خیال کرتے ہیں اور ایک ایک لفظ اچھی طرح پرکھے اور چمکائے بغیر منہ سے نہیں نکالتے‘ اب آپ دنیا کے کامیاب لوگوں کو دیکھئے‘ آپ قائد اعظم سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر اور بل گیٹس سے لے کر سٹیو جابز کا جائزہ لیجئے۔ یہ پانچ خوبیاں آپ کو ان تمام لوگوں میں بھی ملیں گی‘ یہ لوگ بھی مستقل مزاج اور وقت کے پابند تھے‘یہ خوش لباس بھی تھے اور یہ دماغی طور پر ذہین اور خوش اخلاق بھی تھے لیکن ان کامیاب لوگوں اور ہمارے ان ''سڑک چھاپ ہیروز‘‘میں صرف ایک فرق تھا‘ یہ تمام لوگ اپنی ان پانچ خوبیوں کو علم‘ تعلیم‘ سیاست‘ ترقی اور معاشرے کے مفاد کیلئے استعمال کرتے تھے‘ انہیں بھی عشق تھا‘ وہ بھی محبت کرتے تھے اور انہیں بھی پیار تھا ‘ کس سے؟ کام سے‘ محنت سے‘ علم سے ‘ نت نئی ٹیکنالوجی اور عوام کی خوشحالی سے اور اُن میں اور اِ ن میں فرق یہ تھا کہ وہ ان پانچ خوبیوں کے ذریعے دنیا بدل گئے‘ وہ کروڑوں اربوں لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کر گئے‘ وہ ہمیں چاند پر پہنچا گئے اور وہ قوموں کی غلامی کی زنجیریں تک کھول گئے لیکن ہمارے یہ نوجوان ان پانچ خوبیوں کے ذریعے محبت کے نام پر گھر اُجاڑتے ہیں‘ عشق کے نام پر عصمتوں سے کھیلتے ہیں اور پیار کے نام پر عزتوں کو خاک میں ملاتے ہیں اور جب اپنی ساری جوانی ‘ اپنا وقت اور اپنا سرمایہ ضائع کر بیٹھتے ہیں تو مایوس ہو کر اپنی اور دوسروں کی زندگی تک ختم کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں‘ میں دعوے سے کہتا ہوں‘ ہماری یوتھ جیسی ٹیلنٹڈ ‘ ذہین اور باصلاحیت دنیا میں کوئی یوتھ نہیں‘ دنیا میں اس کا کوئی ثانی نہیں‘ فرق صرف اتنا ہے ترقی یافتہ قومیں کام سے وقت ملے تو عشق کرتی ہیں اور ہماری قوم‘ ہمارے نوجوانوں کو عشق سے فرصت ملے تو کام کرتے ہیں‘ وہ لوگ کام کو اپنے سر پر سوار رکھتے ہیں اور ہمارے نوجوان شیطان کے گھوڑے پر سوار رہتے ہیں‘ وہ کام کے وقت کام اور یہ کام کے وقت عشق کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔کاش ایسے نوجوان یہ تہیہ کر لیں‘ یہ علم سے عشق کریں گے ‘ یہ کتاب سے جنون کی سی محبت کریں گے اور سائنس سے پاگل پن کی حد تک پیار کریں گے‘ میں قسم کھا کر کہتا ہوں‘ یہ ترقی کی اُس منزل پر پہنچ جائیں گے کہ انہیں کسی کے پیچھے جانے اور منتیں کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی‘ ایک سے ایک بڑھ کر رشتہ ان کے گھر خود چل کر آئے گا اور شہر کی حسین سے حسین لڑکیاں ان سے شادی کیلئے ترس رہی ہوں گی اور جب وہ معاشی اور سماجی طور پر خوشحال ہو جائیں گے تو انہیں ویلنٹائن جیسی خرافات میں پڑنے اور وقت اور جوانی ضائع کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی‘ وہ پھول اور کارڈ لے کر سڑکوں کی خاک چھاننے سے بچ جائیں گے اور معاشرہ ان کے شر سے اور یہ معاشرے کے انتقام سے محفوظ ہو جائیں گے لیکن یہ اس وقت ہو گا جب ہمارے نوجوان تعلیم‘ تحقیق اور ٹیکنالوجی کو ''ہیپی ویلنٹائن‘‘ کہنا شروع کر دیں اور یہ اس وقت ہو گا جب یہ کسی لائبریری جائیں‘ الماری کھولیں‘کتاب اٹھائیں ‘ اسے چومیں اور کہیں '' تم میری تھی‘ میری ہو اور میری ہی رہو گی‘‘۔