وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے کمال کر دیا۔
میں جوں جوں نیشنل ہیلتھ پروگرام کی تفصیل دیکھتا گیا‘ مجھ پر اُن کی صلاحیتیں کھلتی گئیں۔ مریم نواز نیشنل ہیلتھ سکیم کی معمار ہیں۔ میں اس پروگرام سے کیوں متاثر ہوا‘ اس کی دو وجوہ ہیں‘ ایک تو یہ کہ اس پروگرام کی مکمل معلومات ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ لینڈ لائن‘ ہیلپ لائن اور موبائل فون کے ذریعے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ اس کی دوسری وجہ‘ اس پروگرام کا ڈیزائن یا فارمیٹ ہے جس میں نچلے اور متوسط طبقے کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔یہ پروگرام ان دس کروڑ افراد کیلئے مرحلہ وار شروع کیا گیا ہے جو علاج کی استطاعت نہیں رکھتے اور خاص طور پر خطرناک امراض اور مہنگے علاج کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔اس پروگرام کی لانچنگ کے بعد ہم جیسے لوگ جو حکومت کے تعمیری منصوبوں پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ حکومت کی توجہ صرف اور صرف ٹرینیں‘ بسیں چلانے پر مرکوز ہے‘ کم از کم وہ یہ اعتراض نہیں کر سکیں گے کہ حکومت عوام کے بنیادی حقوق کی طرف توجہ نہیں دے رہی۔ صحت انسان کے بنیادی ترین حقوق میں شامل ہے۔ صحت ہو گی تو ہی باقی معاملات چل سکیں گے۔ اس لحاظ سے اس پروگرام کا آئیڈیا واقعی شاندار ہے اور میں یہ آئیڈیا گزشتہ ایک برس سے متعدد مرتبہ اپنے کالموں میں دے چکا ہوں۔ دنیا میں صحت کی بہترین سہولیات سنگاپور میں ہیں۔ پوری دنیا حتیٰ کہ امریکہ اور یورپ سے لوگ علاج کی غرض سے یہاں آتے ہیں۔ یہاں مقامی لوگوں کے لئے صحت کے درجنوں پروگرام موجود ہیں۔ ہر شخص کسی نہ کسی صحت پروگرام کے تحت رجسٹرڈ ہے۔تقریباً تمام ہسپتال اس نظام سے منسلک ہیں۔ لوگ جب بھی بیمار ہوتے ہیں‘ انہیں کوئی آپریشن کروانا ہوتا ہے تو وہ کارڈ لے کر قریبی ہسپتال چلے جاتے ہیں‘ اور ان کا علاج شروع ہو جاتا ہے۔یہ نہیں ہوتا کہ مریض کو ہسپتال لے جائیںتو پتہ چلے کہ اس کا آپریشن ہو گا
اور دو لاکھ روپے لگیں گے اورمریض کے لواحقین اپنا گھر کا سامان‘ موبائل فون بیچنے لگیں کہ جلدی سے پیسے اکٹھے کر کے مریض کا علاج کرائیں۔ سب کچھ ایک خودکار نظام کے تحت ہوتا ہے۔یہی بات وزیراعظم نواز شریف نے پروگرام کے افتتاح کے موقع پر کہی کہ اب کسی کو اپنے پیاروں کے علاج کے لئے گھر کا سامان بیچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ اتنی گہری بات تھی کہ ہر دوسرا شخص ایسی صورتحال سے گزر چکا ہے چنانچہ ہر ایک کو محسوس ہوا کہ یہ اس کے دل کی بات ہے۔ پروگرام کی افادیت جاننے کے لئے اسے باریک بینی سے دیکھنا ہو گا۔ اس کی سب سے اہم بات اس کا نام ہے۔ سکیم کا نام وزیراعظم یا حکمران خاندان کے کسی فرد کے نام پر نہیں رکھا گیا۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ یہ سکیم صرف ایک دور تک محدود نہیں رہے گی بلکہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت آئے‘ یہ سکیم یونہی چلتی رہے گی بشرطیکہ یہ صحت کے وہ تمام تقاضے اور ضروریات پوری کرے جن کی عوام کو اشد ضرورت ہے۔ اس وقت ہر شخص کے پاس موبائل فون ہے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ آپ کے علاقے میں یہ سکیم موجود ہے یا نہیں‘ آپ 8500پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیجتے ہیں تو سکرین پر مطلوبہ معلومات آ جاتی ہیں۔ فی الوقت اس کے دو بنیادی پیکیج رکھے گئے ہیں۔پہلے میں پچاس ہزار کی لمٹ ہے اور اسے ثانوی علاج کا نام دیا گیا ہے جبکہ دوسرا پیکیج ترجیحی علاج ہے جس میں فی خاندان اڑھائی لاکھ کی رقم مخصوص کی گئی ہے۔پہلے پروگرام میں ایمرجنسی علاج‘ بچے کی پیدائش‘ٹانگ بازو کا فریکچر وغیرہ شامل ہیں اور دوسرے پروگرام میں دل کے امراض کا علاج یعنی انجیوپلاسٹی ‘ بائی پاس‘ گردے کی بیماریاں اور ڈائلسز‘ہیپاٹائٹس‘ کینسر‘ کیموتھراپی وغیرہ شامل ہیں۔اس
پروگرام میں وہ تمام افراد شامل ہیں جن کا تعین بینظیر انکم سپورٹ
پروگرام کے تحت ہونے والے غربت سروے میں کیا گیا ہے۔یہ درحقیقت وہ طبقہ ہے جو علاج کے لئے سردرد کی دو گولیاں تک دوسروں سے مانگ کر لیتا ہے چنانچہ ایسے لوگوں سے پروگرام کا آغاز کرنا انتہائی ضروری تھا۔مستحق افراد کو پاکستان صحت کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔ جب اسے کوئی بیماری ہو گی ‘ تو وہ قریبی ہسپتال جائے گا‘ اگر اسے داخلے کی ضرورت ہو گی تو وہ کارڈ دکھا کر داخل ہو جائے گا اور علاج کرائے گا اور اسے ہسپتال تک آنے کا کرایہ بھی دیا جائے گا۔ہسپتال میں داخلے کے دوران مریض کو کسی قسم کے اخراجات کی ادائیگی نہیں کرنا ہو گی‘ ادویات اور علاج کی ضروریات ہسپتال خود پوری کرے گا۔اہم ترین یہ کہ خاندان کے افراد کی تعداد کی کوئی قید نہیں۔نہ ہی پروگرام میں شامل افراد کی عمر کی کوئی حد مقرر ہے جیسے کہ عام ہیلتھ انشورنس پروگرام میں ہوتا ہے کہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد کو یا تو صحت کی سکیم میں شامل نہیں کیا جاتا اور اگر کیا جائے تو اتنی کم رقم مختص کی جاتی ہے کہ وہ اپنی آنکھ کے موتیے کا علاج بھی نہیں کرا سکتے۔نہ جانے یہ کیوں سمجھ لیا جاتا ہے کہ معمر لوگ کسی کام کے نہیں رہتے یا پھر انہیں زندہ اور صحتمند رہنے کا حق نہیں اور یوں ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ علاج مکمل ہونے کے بعد مریض کو ہسپتال سے فارغ کرتے وقت پانچ دن کی ادویات ہسپتال سے مفت ملیں گی تاکہ اس کی جیب پر بوجھ نہ پڑے۔ جو بیماریاں کور نہیں ہیں ان میں دانتوں کا معائنہ‘ پلاسٹک سرجری وغیرہ شامل ہیں۔ انہیں بعد میں بھی پروگرام میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ فی الوقت موذی اور عام بیماریوں کے علاج پر توجہ کی ضرورت ہے۔یہ پروگرام اسلام آباد‘ راولپنڈی اور مظفر آباد میں لانچ کر دیا گیا ہے۔ وہاں کے رہائشی رجسٹرڈ ہسپتالوں میں جا کر اپنا علاج کروا رہے ہیں۔ ویب سائٹ کے مطابق اگلی باری سرگودھا‘ نارووال‘ خانیوال ‘کوہاٹ‘چترال اور خیبر ایجنسی کی ہے۔ جوں جوں ہسپتال اپنی معلومات پروگرام کے منتظمین کو بھیجیں گے‘ انہیں پروگرام کے ساتھ رجسٹر کر لیا جائے گا اور اس طرح یہ نیٹ ورک پھیلتا ہوا دس کروڑ لوگوں تک پہنچ جائے گا۔
مہنگائی کے اس دور میں اس طر ح کی سکیمیں غریبوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس وقت غریب طبقے کی آمدنی کا بڑا حصہ خوراک اور علاج کی نذر ہو جاتا ہے۔ اگر وہ خوراک پر پیسے لگاتے ہیں تو علاج کے لئے نہیں بچتے‘ علاج پر لگاتے ہیں تو بجلی کے بلوں کی نذر ہو جاتے ہیں اور وہاں سے بچ جائیں تو بچوں کے تعلیمی اخراجات پر لگ جاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ پروگرام غریبوں کی تقدیر بدل دے گا‘ لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ خاندان جو پنجاب کے ایک کونے سے مریض کو ایمبولینس میں ڈال کر لاہور کے ہسپتال لاتا ہے اور اس خاندان کے آدھے لوگ اپنی زمینیں اور جانور بیچنے اور قرض مانگنے نکل جاتے ہیں‘ انہیں اس اذیت سے نجات مل سکے گی۔ وہ اپنے علاقے کے ہسپتال میں باعزت طریقے سے علاج کر ا سکیں گے اور انہیں اس کے لئے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ سنگاپور کی طرز پر اگر اس پروگرام کو آگے بڑھایا گیا اور ہسپتالوں اور صحت عامہ کی سہولیات پر خاطر خواہ توجہ دی گئی تو کوئی شک نہیں کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ سنگا پور کی طرح لوگ علاج کے لئے بیرون ممالک سے پاکستان آیا کریں گے۔
پس تحریر: ایک اور کمال گزشتہ روز وزیراعظم نے کر دیا۔ عوام کا دیرینہ مطالبہ مان کر ان کے دل جیت لئے۔ پٹرولیم قیمتوں میں ساڑھے آٹھ روپے اور سی این جی میں سات روپے کی کمی غیرمعمولی اقدام ہے۔ گزشتہ ماہ تحریک انصاف سمیت عوامی اور معاشی حلقوں کی طرف سے پٹرولیم قیمتوں میںکمی کا پرزور مطالبہ سامنے آ رہا تھا ۔ اس حوالے سے حکومت پر زبردست تنقید بھی کی جا رہی تھی کہ شاید حکومت عوام کو ریلیف دینا ہی نہیں چاہتی۔ اس اعلان نے ان تمام شکوک و شبہات کو زائل کر دیا ہے ۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں کمی ہوتی ہے تو تیل برآمد کرنے والے ممالک کی معیشت کے لئے یہ امر استحکام کا باعث ہوتا ہے کیونکہ حکومتوں نے سرکاری ادارے‘ تنخواہیںاور اخراجات بھی چلانے ہوتے ہیں اور خام تیل میں کمی سے ان کا یہ بوجھ کافی حد تک ہلکا ہو جاتا ہے۔یہ بات عوام کی سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ چاہتے ہیں پٹرول پانی کی طرح سستا ہو جائے تاکہ جس کے پاس گاڑی ہے وہ پہلے سے زیادہ سیرو تفریح شروع کر دے اور ہر کوئی دو قدم پہ جانے کے لئے گاڑی کا استعمال کرے۔ وہ پٹرول سے ہاتھ منہ دھوئیں‘ اسی سے نہائیں اور اس کی نہروں میں ڈبکیاں لگاتے رہیں۔ عوام پٹرولیم کی اس حیران کن حد تک کمی کو انجوائے ضرور کریں لیکن یہ دیکھ کر کہ کہیں پٹرول کا ضرورت سے زیادہ استعمال ان کی بدہضمی کا باعث نہ بن جائے۔ اب لوگ بلاوجہ پٹرول کا ضیاع کریں گے‘یوں جس کا ماہانہ پٹرول پہلے دس ہزار کا لگتا تھا‘ اس ماہ بارہ ہزار کا لگے گا تو وہ پھر سر پکڑ کر بیٹھ جائے گا اور حکومت کو کوسے گا اور مطالبہ کرے گا کہ حکومت مزید پٹرول سستا کرے۔ اپنے گریبان میں کسی کو جھانکنے کی توفیق نہ ہو گی۔ناشکری اور اصراف کانتیجہ ہمیشہ تنگدستی اور پریشانی کی صورت میں نکلتا ہے‘ یہ بات ہمیں جانے کب سمجھ آئے گی؟