ستمبر کا مہینہ تھا‘ رات کے بارہ بجے تھے‘ بوائز ہوسٹل کے کمرہ نمبر بیالیس میں ایک طالبعلم گہری نیند سو رہا تھا‘ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا‘ طالبعلم کی چارپائی کے پاس ہی ایک شلف تھی اور شلف میں کتابیں ترتیب سے رکھی تھیں‘ طالبعلم نے کروٹ لی‘ اس دوران اس کا ہاتھ شلف پر چلا گیا‘ اس نے زوردار چیخ ماری اور اچھل کر کھڑا ہو گیا‘ اسے ہاتھ کی انگلی میں شدید درد ہو رہا تھا‘ اس نے لیمپ روشن کیا اور انگلیوں پر نظر ڈالی تو اس کی دوسری چیخ نکل گئی‘ یہ پہلی چیخ سے بھی گہری تھی‘ اس نے دیکھا اس کے ہاتھ کی درمیانی انگلی میں دانت دھنسنے کا نشان تھا اور خون بھی بہہ رہا تھا‘ ''مجھے سانپ نے کاٹ لیا‘ مجھے سانپ نے کاٹ لیا‘‘ وہ چلاتا ہوا کمرہ سے باہر نکل آیا‘ اس کی آوازیں سن کر قریب کے کمروں کے لڑکے بھی آنکھیں ملتے ہوئے آ گئے‘ اس وقت اس طالبعلم کا جسم پسینہ سے تر تھا اور وہ تھر تھر کانپ رہا تھا‘ وہ سمجھ رہا تھا چند ہی منٹوں میں اس کی روح پرواز کر جائے گی‘ وہاں ایک اور طالبعلم موجود تھا جس کا پورا خاندان طبیبوں کا تھا‘ یہ اس کا جگری دوست بھی تھا‘ اس نے زخمی طالبعلم کا ہاتھ پکڑا‘ زخم پر نظر ڈالی اور بولا ''دانت تو ضرور دھنسے ہیں‘ مگر ‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا‘ اسے معلوم تھا وہ اسے لاکھ سمجھائے گا‘ ہزار دلیلیں دے گا لیکن طالبعلم کو یقین نہیں آئے گا‘ وہ نہیں مانے گا چنانچہ اس نے سب کو ایک طرف کیا‘ ایک ڈنڈا پکڑا اور کمرے میں داخل ہو گیا‘ بتی جلائی اور اندر سے کنڈی لگا لی‘ جو لوگ کمرہ سے باہر کھڑے تھے‘ وہ سمجھے وہ سانپ کو مار رہا ہے‘کچھ دیر ڈنڈا چلنے کی
آوازیں آتی رہیں‘ آخر میں ایک دھماکہ ہوا اور خاموشی چھا گئی‘ چند سیکنڈ بعد دروازہ کھلا اور طالب علم باہر آ گیا‘ اس کے ایک ہاتھ میں ڈنڈا تھا اور دوسرے ہاتھ میں مرا ہوا ایک چوہا جس کو وہ دُم سے پکڑ کر لٹکائے ہوئے تھا '' دیکھو یہ تھی وہ چیز جس نے تمہیں کاٹا ہے‘‘۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا '' مجھے تمہاری انگلی کا زخم دیکھتے ہی شبہ ہو گیا تھا یہ سانپ کا کاٹا نہیں ہو سکتا‘ چوہے اور سانپ کے دانت کے نشان میں فرق ہوتا ہے لیکن اگر میں یوں ہی کہتا رہتاتو تمہیں یقین نہ آتا کیونکہ تم نے سانپ کا خوف خود پر سوار کر رکھا تھا اور یہ خوف سر سے پائوں تک تمہیں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھا‘ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا میں پہلے چوہے کو ماروں‘ اسے تمہارے سامنے لائوں‘ تم اپنی آنکھوں سے اسے دیکھو اور اس کے بعد تمہیں خود یقین آ جائے کہ اصل حقیقت کیا ہے‘‘ یہ باتیں سن کر اور مرا ہوا چوہا دیکھ کر زخمی طالبعلم یکایک اٹھ بیٹھا‘ اب وہ بالکل اچھا لگ رہا تھا '' مجھے یاد آیا‘‘ اس نے کہا '' کل ہی میرے یہاں نئی نئی کتابیں جلد بن کر آئی ہیں‘ نئی جلدوں میں لئی کی بو پا کر اکثر چوہے آ جاتے ہیں اور یہی قصہ یہاں بھی پیش آیا‘‘ وہی طالب علم جس پر چند منٹ پہلے موت کی بدحواسی طاری تھی اور جو اپنے جگری دوست کی بات پر یقین تک کرنے کو تیار نہ تھا‘ اب اس کے چہرے پر پریشانی کی جگہ مسکراہٹ نے لے لی تھی۔
ذرا غور کیجئے‘ یہی حال ہماری قوم کا ہے‘ ہماری قوم بھی اس وقت زخمی ہے ‘ اسے بھی لاتعداد زخموں نے چور کر رکھا ہے لیکن یہ ان زخموں کو سانپ کے زخم سمجھ رہی ہے‘ مگر یہ پریشانی حقیقی سے زیادہ نفسیاتی ہے‘ ہماری قوم یہ سمجھ رہی ہے اسے جو زخم لگے ہیں وہ سانپ‘ شیر یا ہاتھی کے ہیں چنانچہ یہ ان کے خوف کے چنگل میں پھنس چکی ہے اور صلاحیت ہونے کے باوجود مقابلہ کرنے کو تیار نہیں لیکن اگر آج‘ ہم خود سے وعدہ کر لیں‘ آج ہم مسائل کی حقیقت کو سمجھنا شروع کر دیں اور تبدیلی اور بہتری کی طرف پہلا قدم اٹھالیں تو ہمارا خوف بھی دور ہو جائے گا اور ملک کے حالات بھی بدل جائیں گے اور یاد رکھئے ‘ تبدیلی صرف حکمرانوں کو کوسنے اور ان کی پالیسیوں پر بلا وجہ تنقید کرنے سے نہیں آتی، یہ اپنے گھر اپنے دل سے شروع ہوتی ہے اور اگر ہر شخص یہ تہیہ کر لے کہ وہ ووٹ کا حق لینڈکروزر مافیا کی بجائے سادہ‘ ایماندار اور تعلیم
یافتہ لوگوں کو دے گا تو یقین کیجئے یہ تبدیلی کا حقیقی آغاز بھی ہو گا۔ چند سال قبل لوگوں کی اکثریت یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ اس ملک میں اگر کوئی تبدیلی لا سکتا ہے تو وہ عمران خان ہے کیونکہ اس جماعت اور اس تحریک کا فوکس نوجوان ہیں جو اس ملک کا ساٹھ سے پینسٹھ فیصد ہیں ۔یہ جماعت اگر ایک واضح اور قابل عمل لائحہ عمل پیش کرتی اور اس لائحہ عمل پر خود عمل بھی کرتی تو یقین کیجئے اس ملک کی قسمت‘ اس کی تقدیر تک بدل جاتی ۔ مینار پاکستان پر کامیاب جلسہ عمران خان کی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ تھا لیکن یہ جلسہ تحریک انصاف کو ہمیشہ عروج پر نہیں کھڑارکھ سکتا۔ میں نے پانچ سال قبل لاہور کے پی ٹی آئی کے جلسے کے بعد لکھا تھا کہ اگر عمران خان بھی ناکام ہو گیا‘ یہ اپنے منشور پر عمل نہ کر سکا‘ یہ اپنا ایجنڈا نافذ نہ کرسکا‘ یہ ماضی کی غلطیاں دہراتا رہا‘ اگر اس نے دوبارہ چلے ہوئے کارتوسوں اور جاگیرداروں اور وڈیروں کو پارٹی کی سربراہی سونپ دی ‘ اگر اس نے ''ون مین پارٹی‘‘ کا امیج نہ بدلا‘اگر یہ اقتدار میں آ کر عوام کو بھول گیا اور اگر یہ مخلص ساتھیوں اور کارکنوں کی بجائے سازشیوں کے ٹریپ میں آتا گیا اور اگر یہ سازشی تحریک انصاف کو روایتی سیاسی جماعت بنانے میں کامیاب ہو گئے‘ تو عمران خان بھی تحریک استقلال کا اصغر خان بن جائے گا اور لوگ اس جماعت کو بھی سیریس نہیں لیں گے۔بالآخر وہی ہواجس کا خدشہ تھا ‘
تحریک انصاف اور اس کے قائدین نے غلطیوں سے سیکھا نہ روایتی سیاستدانوں سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ اسے خیبرپختونخوا میں حکومت تو مل گئی لیکن اس جماعت کا سارا زور حکومت گرانے اور احتجاج کی سیاست پر رہا۔ یہ احتجاج ضرور کرتی لیکن ساتھ ہی ساتھ اگر یہ اپنی توجہ صوبے پر لگاتی اور وفاق میں سخت اپوزیشن کا کردار ادا کرتی تو آج اس کی مقبولیت کو اتنا دھچکا پہنچتا نہ ہی پڑھا لکھا طبقہ اس سے خائف ہوتا۔ لوگوں کو زیادہ دکھ تب ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ تحریک انصاف حکمران جماعت مسلم لیگ ن پر تنقید تو کرتی ہے‘ اس کی پالیسیوں کو نشانہ تو بناتی ہے اور ان کے قائدین کے وی آئی پی پروٹوکول کو آڑے ہاتھوں تو لیتی ہے لیکن اس کی اپنی پالیسیاں اس کے منشور کی چغلی کھاتی ہیں‘ اس کی اپنی جماعت پر لوٹوں اور سیاسی اشرافیہ قابض ہے اور اس کے اپنے قائدین ویسا ہی وی آئی پی پروٹوکول رکھتے ہیں اور یہ حکمران جماعت کو محض پوائنٹ سکورنگ کے لئے تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں تو ان کی مایوسی حد سے بڑھ گئی۔ وہ جو خوف کے بت کو توڑنا چاہتے تھے‘ جو اسے تبدیلی کا نشان سمجھ بیٹھے تھے اور جو بیرون ملک سے لاکھوں روپے کے ٹکٹ خرچ کر صرف اس جماعت کو ووٹ دینے کی خاطر پاکستان آئے تھے‘ آج کف افسوس مل رہے ہیں‘ کیوں؟کیوں یہ عوام کے اصرار کے باوجود خود کو بدلنے پر تیار نہیں؟کیوں یہ ایک طرف حکومت پر تنقید کرتی ہے اور دوسری طرف اسی کی پالیسیاں اپنے صوبے میں اپناتی ہے؟ اس ''کیوں ‘‘ کا جواب تحریک انصاف اور اس کے سربراہ پر چھوڑتے ہیں۔