گزشتہ دنوں فوج کے ایک سابق جنرل نے بتایا ''پاکستان کے جوہری اثاثے دنیا کے محفوظ ترین جوہری اثاثوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بھارت اور روس جو خود کو دنیا کی طاقتور ترین ایٹمی طاقت تصور کرتے ہیں‘ ان کے ایٹمی ری ایکٹر سے کئی مرتبہ تابکاری کے اثرات باہر آ چکے ہیں۔ بھارت جو عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے‘ اس کے اندر خود ایسی کئی تحریکیں اور باغی موجود ہیں‘ جو بھارت کے نیوکلیئر پروگرام کی تاک میں ہیں۔ جبکہ پاکستان کے حوالے سے آج تک ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آیا۔ نہ تابکاری کے اخراج کا اور نہ ہی سکیورٹی لیپس کا‘‘۔جنرل صاحب کی بات سے کون انکار کر سکتا ہے تاہم جہاں تک عالمی خدشات کاتعلق ہے تو ان کے پیچھے کہانی کچھ اور ہے اور اس کی وجہ صرف اور صرف سابق صدر تھے جو صدر تو اس ملک کے تھے لیکن وفاداری کسی اور کی کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق دور کے آغاز ہی میں امریکی انٹیلی جنس ذرائع نے درفنطنی چھوڑی کہ امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیار طالبان کے قبضے میں جانے سے روکنے کیلئے ایک جامع منصوبہ تیار کر رکھا ہے ۔ جب امریکہ کو محسوس ہوا کہ پاکستان پر طالبان‘ القاعدہ یا کسی ا ور گروپ کا قبضہ ہونے والا ہے تو اس منصوبے پر عملدرآمد کیا جائے گا جس کے تحت پاکستانی سرحد کے قریب افغانستان میں تعینات خصوصی دستے پاکستان کے اندر کارروائی کرتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے موبائل اسلحہ خانے کو اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیں گے ۔ امریکی میڈیا کے مطابق یہ آپریشن جوائنٹ سپیشل آپریشنز کمانڈ کا سپر سیکرٹ کمانڈو یونٹ کرے گا جو امریکی فوج کا دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے والا سب سے بڑا سکواڈ ہے اور جس کے یونٹس پاکستان کی مغربی سرحد پر افغانستان کے اندر سرگرم عمل ہیں۔ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق ان یونٹس کو ثانوی مشن غیر ملکی ایٹمی ہتھیاروں کو قبضے میں لینا سونپا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ انتہا پسند دارالحکومت اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے ہیں جو پاکستان کی کمزور جمہوریت کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں اور اگر پاکستان میں حالات قابو سے باہر ہوئے تو امریکی سکواڈ اپنے منصوبے پر عملدرآمد کرتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اپنی حفاظت میں لے لے گا ۔
یہ سابق دور کی بات تھی جس میں صرف پاکستان کی بنیادوں کو ہی کھوکھلا نہیں کیا گیا بلکہ ہر ایک شخص یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اگر یہ دہشت گردی یونہی جاری رہی اور ہمارے ایٹمی اثاثے واقعی دشمن کے ہاتھ لگ گئے تو ہمارا کیا حشر ہو گا‘ ہماری نسلوں کا کیا بنے گا۔ ایسے بے بنیاد خدشات اور الزامات لگانے کی ہمت امریکہ اور دیگر طاقتوں کو گزشتہ دور میں ہی ہوئی۔آج ایسے لغو الزامات کیوں نہیں لگائے جاتے‘ یہ جاننے کیلئے ہم آج میں واپس آ تے ہیں‘ آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہی ادارے جو صرف پانچ چھ برس قبل پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے خدشات کا اظہار کر رہے تھے‘ آج کیا کہہ رہے ہیں۔ عالمی ادارہ‘ آئی اے ای اے‘ 1953ء میںدنیا بھر کے ایٹمی اور جوہری اثاثوں پر نظر رکھنے کے لئے قائم ہوا۔یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے جو ایٹمی ممالک کے لئے حفاظت کے معیار کا تعین کرتا ہے اور نیوکلیئر انرجی کے حوالے سے اُصول و ضوابط وضع کرتا ہے۔ ا س کی رائے انتہائی معتبر شمار کی جاتی ہے۔چند روز قبل اس ادارے نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کے حوالے سے اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ یہ اطمینان نہ صرف اس امر کا مظہر تھا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ اور مضبوط ہاتھوں میں ہیں بلکہ اس اعلان نے 31مارچ کو شروع ہونے والے وزیراعظم نواز شریف کے دورئہ امریکہ کو بھی تقویت بخشی جہاں وہ جوہری توانائی سربراہی اجلاس میں شریک ہونے جا رہے ہیں۔ اس خبر نے ان کی پوزیشن نہ صرف مضبوط کر دی بلکہ ان الزامات سے بھی ہوا نکال دی‘ جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حفاظت پر سمجھوتے یا ایٹمی ہتھیاروں میں کمی سے متعلق اٹھائے جا رہے ہیں۔ آئی اے ای اے کو بھی
چھوڑیں‘ گزشتہ اڑھائی برس کا عالمی اطلاعاتی ڈیٹا اٹھا کر دیکھ لیں‘ آپ کو وہ خدشات‘ وہ الزامات اور وہ توہین آمیز بیانات کہیں بھی نظر نہیں آئیں گے جو صدر زرداری کے دور کا خاصا تھے اور جس میں ہمارے ایٹمی نظام کی حفاظت بارے بے بہا پروپیگنڈا کیا گیا لیکن سابق حکمرانوں نے ان کا توڑ کرنے کی کوشش کی ضرورت نہ محسوس کی۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سمٹ میں پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہ کر لے مجھے ان کی سوچ پر ہنسی آتی ہے۔ یہ الزام کسی اور حکمران پر لگایا جاتا تو بھی اس پر یقین کرنا مشکل تھا لیکن ایک ایسے سیاستدان کے بارے میں ایسا کہنا کتنا بے معنی ہے کہ جس نے دنیا بھر کی ناراضی مول لے لی لیکن اپنے دوسرے دور ِحکومت میں ایٹمی دھماکے کر کے چھوڑے۔ کس کو یاد نہیں‘ اس وقت پاکستان کس قدر مشکل حالات سے گزر رہا تھا۔ کون سی ایسی پابندیاں ہیں جو پاکستان پر عائد نہیں کی گئیں‘ کون سی ایسی دھمکیاں ہیں ‘ جو پاکستان کو نہیں دی گئیں او ر وہ کون سے معاشی فوائد ہیں جن کی پیش کش اعلانیہ یا غیر اعلانیہ نہیں کی گئی؟ یہ درست ہے کہ میاں نواز شریف کا تعلق بنیادی طور پر ایک کاروباری گھرانے سے ہے اور ان پر زیادہ تنقید بھی اسی لئے ہوتی ہے لیکن اگر یہ تنقید درست ہوتی اور اگر وہ واقعی خالص کاروباری سوچ رکھتے‘ وہ اگر ہر معاملے میں ذاتیات کو فوقیت دیتے تو وہ کبھی بھی 98ء میں ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ نہ کرتے۔ پھر وہ استعفیٰ دے دیتے یا کسی بہانے ایٹمی دھماکوں میں تاخیر کرتے رہتے۔ وہ چاہتے تو اپنے‘ اپنے خاندان اور اپنے کاروبار کو پل بھر میں زمین سے آسمان پر لے جاتے ‘ اپنی نسلیں سنوار لیتے لیکن انہوں نے اس وقت بھی ذاتیات پر ملکی سلامتی کو فوقیت دی۔ اگر یہ ان کا اچھا عمل تھا تو ہم اس میں سے کیڑے کیوں اور کہاں سے نکالیں۔ یہی کام اگر صدر زرداری یا کسی اور نے کیا ہوتا تو ہم اسے بھی سر آنکھوں پر بٹھاتے کہ یہ قومی سلامتی اور بقا کا معاملہ تھا لیکن سابق صدر کے کیا کہنے‘ وہ ایٹمی نظام کا تحفظ تو کیا کرتے‘ ان کے دور میں تو صدر اوباما 6نومبر 2009ء کو بھارت پہنچ کر انگنت معاہدے کر گئے اور پاکستان کو گھاس بھی نہ ڈالی۔اگر آپ کو یاد ہو تو اس دورے کے صرف پہلے دن امریکہ کے بھارت سے10 ارب ڈالر کے20معاہدے ہوئے ۔ اہم ترین یہ کہ اسی دورے میں اوباما نے بھارت کے تمام دفاعی اور خلائی اداروں کو اس فہرست سے نکالنے کا عندیہ دیا جس میں اداروں کو ایٹمی پھیلائو روکنے اور اشیا کے سول اور دفاعی یعنی دوہرے استعمال کی ممانعت ہے۔ اوباما جس وقت یہ تحائف بھارت کی جھولی میں ڈال رہے تھے ‘پاکستان میں دہشت گردی عروج پر تھی اور صدر زرداری چین کی بانسری بجا رہے تھے۔ آج دہشت گردی ختم ہونے کو ہے‘ چین کے ساتھ چھیالیس بلین ڈالر کے اقتصادی معاہدے ہو چکے ہیں‘ پاک چائنا اقتصادی راہداری پاکستان سمیت خطے کی قسمت بدلنے والی ہے‘ پاکستان کا معاشی حب کراچی پُرسکون اور محفوظ ہو چکا ہے‘ را کے بھارتی حاضر سروس ایجنٹوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر قوم کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے‘ امریکی سینیٹ کی رپورٹ پاکستان کے جوہری پروگرام کو محفوظ ترین قرار دے رہی ہے جبکہ صدر زرداری اینٹ سے اینٹ بجانے کی خواہش لئے نیویارک کے ایک فلیٹ میں دن پورے کر رہے ہیں۔ وقت بھی کیا کچھ دکھاتا ہے!