25مارچ کو دی رائیٹرز میں ایک سٹوری چھپی۔ یہ کوئی سیاسی چٹخارا تھا، نہ بھڑکتا ہوا سکینڈل؛ چنانچہ بغیر کوئی تاثر چھوڑے سب کے سروں سے گزر گئی۔ سٹوری میں بتایا گیا تھا کہ جنوبی ایشیا کے ڈیڑھ ارب افراد کو کس قدر شدید قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یہ آفات سیلاب، زلزلے اور طوفان ، یا کسی اور صورت میں ہوسکتی ہیں۔جاپان، پاکستان، چین، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور فلپائن بھی ان دس ممالک میں شامل ہیں جن کے شہری انتہائی متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ صرف بھارت کے بیس کروڑ افراد اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ ان ممالک میں زیادہ تر بستیاں بغیر کسی منصوبہ بندی کے آباد ہیں اور رد ِعمل کی صلاحیت اور بچائو کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ بہت سی بستیاں دریائوں کے قریب بنالی جاتی ہیں اور جب اچانک سیلابی ریلا آتا ہے تو لوگ وہاں سے نہیں نکل پاتے ۔ نشیبی علاقوںسے بھی آبادی کے انخلا کا کوئی نظام دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان اور بھارت میں ابھی تک ان ڈھلوانوں کے قریب تعمیرات جاری ہیں جہا ں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ موجود ہے۔ان قدرتی آفات سے دنیا بھر میں ایک سو بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوسکتا ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے سرمایہ کاراپنی فیکٹریوں کو ایسے علاقوں کی طرف منتقل کرنے کا سوچ رہے ہیں جہاں قدرتی آفات کا نسبتاً کم خطرہ ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ جاپان، انڈونیشیا، چین، بنگلہ دیش اور بھارت کے سات اہم شہر، جن میں جکارتہ اور ٹوکیو بھی شامل ہیں، انتہائی خطرے کی زدمیں ہیں۔ترقی پذیر ممالک میں آفات سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات نہیں کئے گئے ۔ یہاں انسانی فلاحی سرگرمیوں کا انفراسٹرکچر بہت کمزور اور غیر فعال ہے جو غریب عوام کا تحفظ نہیں کرتا۔ یہ رپورٹ برطانوی رسک مینجمنٹ کمپنی‘ورسک میپل نے تیارکی۔
اب ہم اپنے ملک کی طرف آتے ہیں۔ گزشتہ دو تین برس سے یہاں بھی موسمی حالات تغیر کا شکار ہیں۔ اس مرتبہ سردی جنوری میں آئی اور فروری کے آخر میں رخصت ہو گئی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوپہر کو ٹھنڈ ہوتی ہے تو رات کو موسم گرم ہو جاتا ہے۔ انہی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان گزشتہ تین روز سے شدید بارشوں‘طوفانی ہوائوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے مطابق گزشتہ چند دنوں میں صرف خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں بارش کے باعث تودے اور چھتیں گرنے اور ندی نالوں میں طغیانی سے ہلاکتیں82 تک جا پہنچی ہیں۔ ان تباہ کاریوں میں تین سو افراد زخمی جبکہ پندرہ سو گھر تباہ ہوئے ہیں۔ خیبرپختونخوا اور گلگت میں متعدد رابطہ سڑکیں بند ہوگئیں۔ خبروں کے مطابق وادی نیلم کے علاقے شاہدرہ کے قریب سرگن میں لینڈ سلائیڈنگ سے آٹھ افراد ہلاک ہوئے ۔جاں بحق ہونے والوں میں ایک ہی خاندان کے پانچ بچے بھی شامل تھے۔ سوات میں خاتون بچی سمیت سیلابی ریلے میں بہہ گئی جبکہ مٹہ اور پرونہ میں بھی دو بچے جان سے گئے۔ مالاکنڈ، چارسدہ، مانسہرہ اور دیر میں بھی مکانات کی چھتیں گرنے سے دو بچوں سمیت چار افراد ہلاک ہوئے۔ شب قدر کے گاؤں چلماری میں مکان کی چھت گرنے سے ایک بچہ دب کر جاں بحق ہو گیا۔ دریائے سوات میں اونچے درجے کا سیلاب ہے جبکہ ہزاروں لوگوں کے علاوہ تیس کے قریب غیر ملکی سیاح بھی پانی میں گھرے ہوئے ہیں ۔
اب اپنے میڈیا کی طرف آئیے جہاں گزشتہ تین روز سے ایک اور طوفان برپا ہے۔ یہ طوفان خفیہ پانامہ دستاویزات منظر عام پر آنے کے بعد برپا ہوا جس کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر کے ہزاروں افراد نے بیرون ملک آف شور کمپنیاں بنائیں‘ ٹیکس بچایا اور مختلف ممالک میں قیمتی پراپرٹی خریدی۔ پاکستان کے جن درجنوں افراد کے نام آئے ‘ ان میں لکی مروت کی سیف اللہ فیملی 34آف شور کمپنیوں کے ساتھ سر فہرست رہی۔وزیراعظم نواز شریف کے تین بچوںکے علاوہ رحمان ملک‘ شوکت ترین ‘ ملک قیوم اور درجنوں کاروباری گروپس کے سربراہوں کے نام بھی آئے لیکن میڈیا پر شوروغوغا صرف حسن نواز‘ حسین نواز اور مریم صفدر کا مچا رہا۔ اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ کہ ان آف شور کمپنیوں اور خریدی گئی پراپرٹیز کی ملکیت اور رقوم کی غیر ممالک میں ترسیل وغیرہ
کی تفصیلات مہیا کی جائیں اور وزیر اعظم جن کا نام پانامہ پیپرز میں موجود ہی نہیں‘ استعفیٰ دیں۔ اس کے جواب میں وفاقی وزیر پرویز رشید نے عمران خان کو یاد کرایا کہ خان صاحب نے شوکت خانم ہسپتال کو ملنے والے صدقات اور چندے کی رقم سے منافع کی خاطر بیرون ملک جو آف شور کمپنی بنائی تھی‘ اس کا پیسہ ڈوب گیا تو عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ انہیں اپنا گھر بھی بیچنا پڑا تو وہ اسے بیچ کر یہ نقصان پورا کریں گے۔ عمران خان سے پوچھا گیا کہ چار سال قبل گزرنے کے باوجود انہوں نے اپنا گھر کیوں نہیں بیچا اور یہ وعدہ کیوں پورا نہیں کیا؟ جس وقت دونوںطرف سے الزامات کی بوچھاڑ جاری تھی‘ اس وقت خیبرپختونخوا میں بارشوں سے چھتیں گر رہی تھیں‘ لوگ ملبے تلے دبے امداد کے منتظر تھے‘ بچے سیلابی ریلوں میں بہہ کر پانی کی نذر ہو رہے تھے اورسینکڑوں ملکی و غیر ملکی سیاح سیلاب میں پھنسے ہیلی کاپٹر کے منتظر تھے لیکن اپوزیشن کے سیاسی مجاہد اور ''متوازن‘‘ میڈیا‘ حکمران خاندان کو لتاڑنے اور پرانے حساب چکانے میں لگے تھے ۔حیرت ہے‘ میڈیا کے وہ افلاطون ‘جنہیں چھ کا پہاڑا نہیں آتا‘ وہ آف شور کمپنیوں اور آڈٹس کی تفصیلات بتا رہے تھے لیکن انہیں اپنے ہی ملک کے 82لوگ اور ننھے بچے بارشوں سے مرتے دکھائی نہیں رہے تھے۔یقینا پانامہ لیکس پر اعلیٰ سطحی کارروائی کی جانی چاہیے‘ ہر طرح کی سیاسی، کاروباری اور صحافتی کرپشن بے نقاب ہونی چاہیے اور اس معاملے پر اپوزیشن اور عوام کی تسلی ہونی چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ جن لمحات میں ملک کا اتنا بڑا صوبہ قیامت خیز طوفان میں گھرا تھا ‘ کیا ہزاروں لوگوں کو مرتے چھوڑ کر سارا زور پانامہ لیکس پر لگا نا زیادہ ضروری تھا؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دو سال قبل دھرنے کے دوران جب وزیراعلیٰ پرویز خٹک دھرنے کے دوران کنٹینر پر دھمال ڈال رہے تھے اور پشاور میں تب بھی ایسی ہی طوفانی بارشوں سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے تو وہاں آئندہ کیلئے کوئی
پیشگی حفاظتی انتظامات کر لئے جاتے۔ وہ پانی جو ننھے بچوں کو مائوں سمیت بہا کر لے جا رہا تھا‘ اسے کسی جگہ سٹور کرنے اور ریزروائر بنانے کے منصوبے بنائے جاتے ۔ چلئے یہ نہ کر سکے تھے تو کم از کم موجودہ سانحے کے دوران ریلیف کے کاموں میں ہی کچھ حصہ ڈال دیا جاتا۔ عمران خان خود خیبرپختونخوا جا کر بیٹھتے اور ریلیف کے کاموں کی نگرانی کرتے۔ جو خاندان اس سانحے میں لقمہ اجل بنے‘ ان سے اظہار افسوس کرتے‘ جو بچے یتیم ہوئے ان کے سر پر ہاتھ رکھتے اور ماہرین کے ساتھ مل کر مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی منصوبہ سازی کرتے۔ سوال یہ ہے‘کیا حالیہ بارشوں سے نقصان 16دسمبر کو پشاور میں ڈیڑھ سو بچو ں کی شہادت سے کم ہوا ہے‘کیا خیبر پختونخوا کے سیلاب متاثرین اور غیرملکی سیاح اس ہیلی کاپٹر کے حق دار بھی نہ تھے جو دھرنے کے دوران جلسوں میں شرکت کے لئے خان صاحب کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جاتا رہا اورکیا ہر مشکل کام کی ذمہ داری فوج کو ادا کرنی ہے؟ اس میں دو رائے نہیں کہ پانامہ پیپرز سکینڈل میں جو بھی ملوث ہے‘ اس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے‘ خواہ سیاسی شخصیات ہوں یا کاروباری۔ لیکن خدا کے بندو! جو پانامہ خیبرپختونخوا میں بنا ہوا ہے‘جو قیامت وہاں کے باسیوں پر گزررہی ہے‘ اس کا مداوا کون کرے گا؟ خیبرپختونخوا میں ہیلی کاپٹرز‘ ادویات‘ ہیوی مشینری‘رضاکاروں‘ ڈاکٹرز اور خوراک کی ضروریات کون پوری کرے گا؟ فوج کہاں کہاں سر کھپا سکے گی؟ میرا مشورہ ہے ‘ اگر خیبرپختونخوا کے کرتا دھرتا یہ بیڑہ اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے تو وزیراعظم خود پشاور چلے جائیں اور ریلیف کے کاموں کی نگرانی کریں۔ اگر ان کے جانے سے کوئی ایک جان بھی بچ جاتی ہے تو انہیں یہ فریضہ سر انجام دے دیناچاہیے!