دیوار اگر نہیں ٹوٹ رہی تو ہتھوڑا مضبوط کرنا ہو گا۔ یہ بات کچھ لوگوں کوسمجھ نہیں آ رہی۔ وہ چاہتے ہیں دیوار پر ضرب لگانے والوں کی کمزوری کو عیاں نہ کیا جائے‘ ہتھوڑے کے نقائص کو سامنے نہ لایا جائے بلکہ دیوار کو برا بھلا کہا جائے‘ اس کے عیب نکالے جائیں‘ اسی سے تشفی ہو گی ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف پر تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ ان کی خواہش ہے حکومت کی کارکردگی میں سے مسلسل کیڑے نکالے جائیں‘اس پر تنقید کے نشتر برسائے جائیںاور اسے دن رات برا بھلا کہا جائے۔پی ٹی آئی پر تنقید نہ کی جائے کہ اس سے ان کا دل دُکھتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اپوزیشن صرف اور صرف پی ٹی آئی کا نام ہے اور پیپلزپارٹی‘ اے این پی اور دیگر جماعتیں اپوزیشن کا کام برائے نام کر رہی ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف بھی اسی ڈگر پر چل نکلی ہے۔ گزشتہ دھرنے میں اسے میڈیا کی جانب سے جتنی سپورٹ ملی‘ کوئی سنجیدہ جماعت ہوتی تو اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتی۔ افسوس! کہ اس جماعت نے اس تشہیر کو کسی اور انداز میں لیا اور جلسے جلوسوں‘ بیانات اور ٹویٹس کی سیاست کو کافی سمجھا۔ میڈیا کی انہی تعریفوں سے اس کے سیاستدان پھول کر کُپا ہو گئے۔ ان کا خیال تھا میڈیا ان کی طرف اس لئے متوجہ ہے کہ یہ سو فیصد درست کام کر رہتے ہیں حالانکہ ایسی بات نہ تھی۔ میڈیا کی اپنی ضروریات ہیں۔ اتنے سارے چینلز ہیں۔ ہر کسی کو خبر کی تلاش ہے۔ میڈیا نے تو سکندر کا ڈرامہ بھی دو روز تک براہ راست دکھایا تھا۔ اس دوران میں درجنوں اہم ایشوز پس پشت چلے گئے۔ تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ سکندر کو اگر زیادہ کوریج ملی تو سکندر کوئی انقلابی تھا یا یہ ایشو ایسی ہی
توجہ کا مستحق تھا؟ ہر گز نہیں۔ تحریک انصاف کے مطالبات ضرور سچے تھے لیکن اس کے قائدین کی کوئی سمت متعین نہ تھی۔ لیڈروں کے کان میں جو بھی کوئی بات کہتا‘ وہ اسی طرح آگے بیان کر دی جاتی اور میڈیا بھی اسے لائیو نشر کرتا رہا۔ چنانچہ ماضی میں جو ہو گیا سو ہو گیا‘ اب تحریک انصاف کو میڈیا کی طرف سے وہ پذیرائی مل پائے گی نہ ہی عوام کا جم غفیر اس کے پیچھے آئے گا‘ جب تک یہ خود کو بدلتی نہیں۔ آپ نے یوم تاسیس کے جلسے میں خواتین کا حال دیکھ لیا ہو گا۔ کسی بھی قوم‘ ادارے‘ جماعت یا فرد کی حالت دیکھنی ہو تو اس کانظم و ضبط دیکھا جاتا ہے۔ تحریک اس معاملے میں خود کو ایک اوسط جماعت کے درجے تک بھی نہیں لا سکی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض ایسی جماعتیں جو اس وقت احتساب کی چھری تلے آ چکی ہیں اور جن پر بھتے اور دہشت گردی کے الزامات لگتے ہیں‘ ان کے ہاں نظم و ضبط کی بہترین مثالیں دیکھنے میں آتی رہی ہیں۔ ایم کیو ایم کے جلسے کون بھلا سکتا ہے۔ لاکھوں کے مجمعے میں کوئی ایک مکھی بھی حرف شکایت زبان پر نہیں لا سکتی۔ جماعت اسلامی کے جلسے بھی منظم ہوتے ہیں۔ مگر یہ دونوں جماعتیں قومی سیاست پر اس طرح اثر انداز نہیں ہو سکیں جتنا کہ تحریک انصاف۔ چنانچہ جس جماعت سے امیدیں زیادہ ہوں‘ جو مخالف کو ٹف ٹائم دے سکتی ہو‘ اس جماعت کی خامیاں ہی سامنے لائی جاتی ہیں ۔ آپ امریکہ کی مثال لے لیں۔امریکہ کتنا طاقتور ہے۔ پوری دنیا امریکہ کو گالیاں دیتی ہے لیکن امریکہ نے جو کرنا ہے وہ کر گزرتا ہے۔ سب سے زیادہ مسلمان ممالک امریکہ سے تنگ ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کے مقابل جو قوتیں ہیں وہ اس قدر کمزور پڑ چکی ہیں کہ امریکہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اگر مسلم اُمہ طاقتور ہو جائے ‘ اگر ڈیڑھ ارب مسلمان یک جان ہو جائیں اور مغرب کی چاپلوسی کرنے کی بجائے اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائیں‘ یہ چین کی طرح معاشی طاقت بن جائیں‘ یہ اپنا اسلامی بینک اور فوج بنا لیں تو امریکہ کی کم از کم اتنی جرأت تو نہیں ہو گی کہ وہ جس ممالک پر چاہے مرضی کا الزام لگا کر چڑھ دوڑے۔ ہم میں سے ہر کوئی اٹھتا ہے اور امریکہ کو گالیاں دینا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے مظالم گنواتا ہے اور اسے عالمی درندہ قرار دیتا ہے ۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ اصل قصور وار مسلمان ہیں نہ کہ امریکہ۔سوال یہ ہے کہ امریکہ خود کشی کیوں کرے گا؟ اپنا سر کسی دیوار سے مار کر صرف اس لئے کیوں پھوڑے گا کہ مسلمان یا کمزور دنیا اس کی خواہشمند ہے۔ اسے تو اس سے بڑی طاقت ہی گرا سکتی ہے نہ کہ
کمزور اور عیاشیوں میں گھری مسلم اُمہ۔ اسی طرح اگر حکومت پانامہ لیکس میں ملوث ہے تو یہ پھندا خود اپنے گلے میں کیوں ڈالے گی۔یہ کام تو اپوزیشن کا ہے۔ جبکہ عوام اور اپوزیشن کا خیال ہے حکومت کرپٹ ہے‘ یہ عوام کو کچھ نہیں دے سکی اور حکمرانوں نے ملک کا پیسہ یہاں سے نکال لیا؛ چنانچہ اسے گھر چلے جانا چاہیے۔ اب اس پر کوئی ہنسے کہ روئے؟ کسی مقدمے کو جیتنا ہو تو کمزور وکیل اور کمزور دلائل کام نہیں آتے بلکہ طاقتور وکیل اور مضبوط دلائل ڈھونڈے جاتے ہیں۔ اگر حکمران کرپٹ ہیں تو بھائی آپ اپوزیشن مضبوط کر لو‘ کس نے آپ کو روکا ہے؟ برطانیہ میں جمہوریت اس لئے کامیاب نہیں ہے کہ وہاں حکومت طاقتور ہے‘ بلکہ اس لئے کامیاب ہے کہ وہاں اپوزیشن پختہ اور یک جان ہے ‘ وہ حکومت کو سیدھے راستے پر لانا جانتی ہے۔ آپ خود سوچیں‘ اس وقت پانامہ لیکس اپوزیشن کیلئے اہم ترین مسئلہ ہونا چاہیے لیکن پی ٹی آئی کے سربراہ نے اعلان کر دیا کہ سندھ جا کر کرپشن کے خلاف مہم چلائیں گے۔ جب اتنا اہم معاملہ موجود ہے کہ جس پر حکومت کو ٹف ٹائم دیا جا سکتا ہے تو پھر سندھ کا ہوّا کھڑا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں شاہ محمود قریشی اور خورشید شاہ کی ملاقاتوں میں یار دوستوں کو بہت کچھ دکھائی دے رہا تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ خورشید شاہ کسی مار پر ہیں اور شاہ محمود کے ذریعے کوئی اہم فریضہ ادا کروانا چاہتے ہیں۔ صرف قریشی صاحب بضد رہے کہ نہیں سندھ ضرور جانا چاہیے۔ قریشی صاحب کے بارے میں اتنا بتادوں کہ پارٹی کے اندر چاہے ان کی حیثیت کتنی ہی اہم ہو لیکن تحریک انصاف کے ووٹرز اور چاہنے والے انہیں کڑوی گولی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔عمران خان انہیں شہدسے زیادہ میٹھے لگتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے چاہنے والوں کو ایسی کئی گولیاں برسوں سے اس شہد میں ملا کر نگلنی پڑرہی ہیں اور یہی اس جماعت کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ خان صاحب کے ساتھ بہت سے شفاف اور مخلص لوگ آئے‘ لیکن انہی کڑوی گولیوں نے خان صاحب پر ایسا جادو کیا کہ یہ لوگ قصہ پارینہ ہو گئے یا پارٹی کے کسی کونے میں لگ کراپنا وقت پورا کرنے لگے۔ چودھری سرور جیسے لوگ اس جماعت کے لئے لٹمس ٹیسٹ کی حیثیت رکھتے ہیں‘ اگر یہ لوگ بھی جماعت میں اپنا رنگ نہیں دکھا پا رہے‘ اگر انہیں بھی اُوپر نہیں آنے دیا جا رہا تو پھر اس کی کارکردگی اور مستقبل کا خود اندازہ لگا لیں۔ شوکت خانم ہسپتال‘ ورلڈ کپ اور نمل یونیورسٹی خان صاحب کے وہ کارنامے ہیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے لیکن ان چیزوں کو لے کر ہمیشہ سیاست نہیں کی جا سکتی۔ خان صاحب کو کوئی سمجھائے‘ سیاست ہر روز ایک نئی جنگ نئے انداز میں لڑنے کا نام ہے۔ اگر آپ نے یہ جنگ جیتنی ہے تو پہلے اپنی فوج کی صفیں درست کریں‘ اسے ضروری اسلحے سے لیس اور ہر قسم کے میر جعفروں اور میر صادقوں سے پاک کریں‘ اس کے بعد دیوار پر ضرب لگائیں ۔آپ کی جماعت میں کسی نے قرضے معاف کرائے یا آف شور کمپنیوں کے ذریعے ہیرا پھیری کی تو کسی کمیشن کا انتظار نہ کریں‘ آپ پارٹی دستور کے تحت خود احتساب کر دیں‘ اس سے آپ کا قدبڑھے گا ۔ رہی بات پانامہ لیکس کی حکومتی دیوار کی ‘ تو اسے گرانے کے لیے اپنا ہتھوڑا مضبوط کر لیں، دیوار لمحوں میں ڈھیر ہو جائے گی۔