کیسی عجیب بات ہے‘ کینیڈا کا وزیراعظم غلطی سے خاتون کو کہنی لگنے پر معافی مانگ رہا ہے اور ہمارے وزیراعظم اٹھارہ کروڑ عوام اور ان کے اربوں ڈالرز کو ''کُسُن ‘‘ پھیرنے کے بعد بھی ایسا کرنے کو تیار نہیں۔ملک سے اربوں روپے لوٹ کر بیرون ملک پہنچ گئے‘ ان سے مہنگے فلیٹ بھی خریدے جا چکے‘ ان کی خبریں اور رپورٹس بھی پانامہ پیپرز کے ذریعے سامنے آ چکیں لیکن اپنی غلطی کی معافی مانگنا تو درکنار‘ یہ لوگ تو غلطی کو غلطی ماننے کو بھی تیار نہیں۔ ڈیڑھ ماہ سے جس ڈھٹائی کے ساتھ قوم کی لوٹی گئی دولت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ اس پر کف افسوس ہی ملا جا سکتا ہے۔ ستم بالائے ستم کہ اپوزیشن بھی حکمرانوں کا بغل بچہ بن چکی۔
کیا ہمارے حکمران یہ خبر پڑھ کر شرمندہ ہوں گے کہ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں خاتون رکن اسمبلی کو غلطی سے کہنی لگنے پر تیسری مرتبہ معافی مانگ لی۔ جسٹن ایوان میں حزب اختلاف کے ایک رکن پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے تھے کہ اس دوران ان کی کہنی وہاں موجود خاتون رکن پارلیمنٹ کو لگ گئی۔کینیڈین وزیراعظم کاکہنا تھا میں اپنی حرکت پر شرمندہ ہوں اور کینیڈین شہریوں سے معافی کا طلبگار ہوں۔
ہمارے حکمران یقینا جسٹن ٹروڈو پر قہقہے لگا رہے ہوں گے۔ وہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم اِدھر دن کی روشنی میںتیس برس سے ملک اور قوم کو ''تُھک‘‘ لگا رہے ہیں اور کوئی ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکا تو یہ بے چارا ٹروڈو کس چکر میں معافیاں مانگ رہا ہے۔ وہ کہتے ہوں گے موصوف کا یقینا دماغی معائنہ ہونا چاہیے کہ وہ تحقیقات کے بعد معمولی بات پر سزا بھگتنے کیلئے کیوں تیار ہے۔
کل سپیکر قومی اسمبلی لاہور میں گیلانی ہائوس تشریف لائے۔ یہ خبر میڈیا نے بریکنگ نیوز کے طور پر چلائی۔ بریکنگ تو دُور کی بات ہے‘ میں اس ساری بریکنگ نیوز میں سے کوشش کے باوجود نیوز بھی تلاش نہ کر سکا۔پتہ چلا ایاز صادق گیلانی صاحب کو ان کے بیٹے کی بازیابی پر مبارکباد دینے گئے تھے۔ سپیکر مرسڈیز کے جس ماڈل میں تشریف فرما تھے‘ اس کی قیمت اگر میں عوام کو بتا دوں تو پہلا سوال وہ یہی پوچھیں گے‘ کہ ایہہ بندہ کردا کی اے؟ اور یہ بتا دوں کہ ان کے ساتھ پولیس اور پروٹوکول کی کتنی گاڑیاں تھیں تو سب یہی پوچھیں گے۔ کیاوہاں وہ کالاباغ ڈیم کا فیتہ کاٹنے گئے تھے؟درحقیقت یہی وہ چیزیں ہیں جن کے لئے یہ سیاستدان حکومت میں آتے ہیں۔ جاہ و جلال کا چسکا ایک مرتبہ دل کو لگ جائے تو زندگی کا روگ بن جاتا ہے۔ ایک سڑک پر سے آپ موٹر سائیکل سے گزریں تو آپ کو اردگرد کے مناظر بے کار دکھائی دیں گے‘ دھول مٹی سے آپ کا مزاج خراب ہو جائے گا اور آپ کو اردگرد کے پلازے‘ انڈرپاس اور عمارتیں بے مقصد دکھائی دیں گی اور چند منٹ بعد ساڑھے تین کروڑ (عوام کے پیسوں )کی مرسڈیز میں بیٹھ کر اسی راستے سے گزریں‘ آگے پیچھے دس بارہ گاڑیاں سائرن بجاتی دوڑ رہی ہوں تو آپ کو لگے گا‘ ہر کوئی آپ کی طرح پرآسائش اور پرسکون زندگی بسر کر رہا ہے‘ ٹھنڈی گاڑی میں بیٹھے آپ کو پچاس
ڈگری دھوپ میں بھی لوگ نارمل ہی دکھائی دیں گے۔ سارا مسئلہ ہی یہی ہے۔ ہمارے حکمران اس دو ضرب ڈیڑھ فٹ کے شیشے سے ملک کو دیکھتے ہیں۔ یہی لوگ اگر موٹرسائیکلوں‘ رکشوں یا بسوں میں سفر کریں تو ان کی سوچ کبھی ایسی نہ ہو۔ اگر یہ اپنی جیب سے بجلی‘ پانی‘ رہائش اور درجنوں گاڑیوں کے پروٹوکول کے بل ادا کریں تو ان کے ہوش اُڑ جائیں۔ سردار ایاز صادق جس دھیمے اور شائستہ انداز میں ایوان کو کنٹرول کرتے ہیں‘ اگر وہ سادگی کے ساتھ ایک عام گاڑی میں گیلانی صاحب کو مبارکباد دینے چلے جاتے تو کیا بگڑ جاتا؟ پروٹوکول کا طوفان برپا کرنا‘ مہنگی گاڑیوں کی نمائش کرنا اگر سپیکر کے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے تو پھر پارلیمنٹ کے سینکڑوں ارکان اور اشرافیہ ایسا کیوں نہ کرے کہ مچھلی سر سے سڑنا شروع ہوتی ہے!
وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے‘ یہ عمران خان کو سمجھنا ہو گا۔ نہ اُن جیسا کوئی پارٹی کو سنبھالنے والا موجود ہے نہ ان کے پاس زیادہ وقت ہے۔ اگر چودھری سرور جیسا کوئی ان کا متبادل ہو سکتا ہے تو وہ شاہ محمود کے ہوتے ہوئے ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ تحریک انصاف بنیادی طور پر انہی ہاتھوں میں یرغمال ہے‘ جن ہاتھوں نے عمران خان کو پارلیمنٹ سے زبردستی واک آئوٹ پر مجبور کیا۔
دو کاموں پر‘ اگر خان صاحب نے توجہ دی تو کامیابی یقینی ہے۔ ایک‘ خیبرپختونخوا کو مثالی بنائیں۔اس پر کوئی کمپرومائز نہ کریں۔ ایسے کام کریں جو نظر بھی آئیں۔جو کر چکے انہیں ہائی لائٹ کریں۔صرف اشتہار بازی ضروری نہیں‘ کفایت شعاری سے بھی یہ کام ہو سکتے ہیں۔گزشتہ کئی دنوں سے فیس بک پر ایک تصویر گردش کر رہی ہے‘ یہ کسی فائیو سٹار ہوٹل کی لابی لگتی ہے۔ زمین پر خوبصورت ٹائلیں‘ دیوار پر ایل سی ڈی ٹی وی‘ دیدہ زیب کائونٹرز...نیچے کیپشن ہے: یہ خیبرپختونخوا کا نیا پولیس سٹیشن ہے۔ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے‘ میں نے دل میں سوچا۔ اگر یہ واقعتاً اس صوبے کا ایک پولیس سٹیشن ہے تو اسے اب تک کسی دلہن کی طرح چھپا کر کیوں رکھا گیا ۔ کل سوات میں عمران خان نے فرمایا: وزیراعظم کو ہیلی کاپٹر سے نیا خیبرپختونخوا نظر نہیں آئے گا۔ اس کے لئے انہیں زمین پر آنا پڑے گا۔ تو خان صاحب! اگر آپ کی حکومت نے کوئی کارنامے سر انجام دے دئیے ہیں تو انہیں سامنے کیوں نہیں لاتے۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں ہم پنجاب حکومت کی طرف اشتہار بازی نہیں کرتے دوسری طرف کچھ سامنے بھی نہیں لاتے۔ آپ سوشل میڈیا‘ ویب سائٹ اور ایس ایم ایس بھی استعمال کر سکتے ہیں لیکن اگر آپ ایک اور کام کریں تو زیادہ بہتر ہو گا ۔اگر آپ نے تعلیم میں اہم پیش رفت کی ہے تو آپ دنیا کی چند عالمی یونیورسٹیوں کا انتخاب کریں اور وہاں کے طلبا‘ فیکلٹی اور پروفیسرحضرات کو اپنے صوبے میں آنے کی دعوت دیں۔ یہ لوگ آپ کے تعلیمی ماڈل کو دیکھیں اور میڈیا‘ پریس کانفرنس اور سیمینارز وغیرہ کے ذریعے اظہار خیال کریں۔ یہ معلومات لے کر واپس جائیں اور وہاں جا کر اخبارات میں مضامین لکھیں ‘ اس سے آپ کی ملکی و عالمی پیمانے پر مستند و مصدقہ تشہیر ہو گی۔ اگر آپ کا تھانہ کلچر تبدیل ہو چکا تو آپ سکاٹ لینڈ ‘ پیرس اور سنگاپور کے پولیس افسران کو بلائیں‘ اگر آپ نے واقعی کچھ کیا ہے تو یہ لوگ اس کے بارے میں میڈیا کو بتائیں ۔ یقینا واپس جا کر اپنے ملک میں بھی یہ آپ کے سفیر ثابت ہوں گے۔ اس طرح آپ اپنے ہر اس شعبے کو جسے آپ نے تین سالوں میں بہتر کیا ہے‘ اس کی ملکی و عالمی سطح پر تشہیر کر سکیں گے اور لوگ اس پر یقین بھی کریں گے۔ یہ اس سے بہت مختلف ہو گا کہ جس طرح ہمارے وزیراعظم نواز شریف صاحب اکیلے ہی کھڑے ہو کر کہہ دیتے ہیں کہ سڑکیں بنا دیں‘ موٹر وے بنا دی‘ چلو بجائو تالیاں‘ بنا دیا نیا پاکستان ۔ دوسرا کام پانامہ پیپرز پر حکمران خاندان کے احتساب کیلئے دبائو ہے۔ لیکن یہ تحریک انصاف کی سمت درست کئے اور کالی بھیڑوں کی صفائی کے بغیر ممکن نہیں۔خان صاحب نے اگر یہ دو کام کر لئے تو وہ حکمران خاندان کو زیر کر لیں گے‘ وہ اگلے الیکشن میں کلین سویپ کرلیں گے لیکن اگر وہ خورشید شاہ‘شیریں مزاری اور شاہ محمود کے مشوروں پراسی طرح واک آئوٹ کرتے رہے تو اس جنم میں تو کیا‘ اُن کی لوٹی گئی دولت نکلوانے اور وزیراعظم کو جیل بھجوانے کی خواہش اگلے جنم میں بھی پوری نہیں ہو سکے گی!