چار چیزیں ایسی ہیں جو قدرت کے ایک قانون کے تحت گھٹتی نہیں بلکہ بڑھتی ہیں۔ یہ چیزیں مال‘ محبت‘ علم اور عزت ہیں اور یہ قانون لاء آف گیونگ یا دینے کا قانون کہلاتا ہے۔ اس قانون کے تحت آپ مال کو جتنا فلاح عامہ پر خرچ کریں گے‘ آپ محبت کا درس جتنا عام کریں گے‘ آپ علم کی روشنی سے معاشرے کو جتنا زیادہ منور کریں گے اور آپ جتنی زیادہ دوسروں کی عزت کریں گے‘ آپ کے مال ‘ آپ کی محبت ‘ آپ کے علم اور آپ کی عزت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ افسوس کی بات ہے آج ہم اس سادہ سے قانون سے واقف نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ہمارا مال خرچ کرنے سے کم ہو جائے گا‘ کسی سے محبت کے دو میٹھے بول بولنے سے ہماری انا کو ٹھیس پہنچے گی‘ کسی سے اپنا علم شیئر کرنے سے ہمارا قد چھوٹا ہو جائے گا اور کسی کی عزت کرنے سے ہماری شان میں کمی واقع ہو جائے گی۔یہ سب ہماری غلط فہمیاں ہیں۔ آج مال تو دُور کی بات ‘ہم کسی کو مسکراہٹ تک مفت دینے کو تیار نہیں۔ ہم غریب کو سو روپے کی وجہ سے مرتا دیکھتے ہیں مگر اُس کی مدد نہیں کرتے۔ کوئی یتیم ہماری محبت کے دو میٹھے بول اور ہماری چاہت کی وجہ سے زندگی میں واپس آ سکتا ہے لیکن ہم ایسا نہیں کرتے۔ ہم کسی چیز کے اچھے برے کا علم رکھتے ہیں لیکن اسے عام نہیں کرتے کہ ہمارا علم گھٹ جائے گا اور ہم اپنے سے نیچے کسی چوکیدار‘ کسی مالی اور کسی ڈرائیور سے سلام میں پہل نہیں کرتے‘ہم اسے عزت نہیں دیتے کہ یہ ہماری شان کے خلاف ہے۔ ہم قدرت کے اس قانون کی طرف آتے ہیں کہ جو ہمیں بتاتا ہے ہمارے مال‘ ہماری محبت‘ ہمارے علم اور ہماری عزت میں اضافہ کیسے ہو سکتا ہے۔ایک مثال پر غور کریں۔ اگر آپ کے پاس ایک ہزار روپے ہیں اور اس میں سے آپ سو روپے کی آئس کریم کھا لیتے ہیں تو آپ کے پاس نو سو روپے رہ جائیں گے‘ لیکن اگر یہی سو
روپے اگر آپ کسی غریب کو زکوٰۃ‘ صدقے یا مدد کی صورت میں دیتے ہیں تو یہ سو روپے ستر ہزار روپے بن کر آپ کی جیب میں لوٹ سکتے ہیں‘ جی ہاںسترہزار روپے۔ اگر کوئی غریب خاندان ان سو روپوں سے دو کلو آٹا ‘کوئی غریب طالبعلم قلم دوات یا کوئی بیماران سو روپوں سے دوائی خرید لیتا ہے تو وہ غریب گھرانہ‘ وہ طالبعلم یا وہ بیمار آپ کے لئے رحمتوں اور برکتوں کا باعث بن سکتا ہے اور اس کی دعائوں کی برکت سے آپ کا سو روپیہ ستر ہزار بن کر آپ کو واپس مل سکتا ہے۔ آپ دنیا بھر کے کاروباروں‘ منافع سکیموں اور سرمایہ کاری کے طریقوں کاجائزہ لے لیں‘ آپ امریکہ کی ناس ڈیک ‘چین کی شین زین یا جاپان کی ٹوکیو سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ لگا دیں‘ آپ کسی ہائوسنگ سکیم کے پلاٹ کی فائل خرید لیں یا پھر آپ سونے کی ڈلیاں ‘ چینی اور آٹے کی بوریاںذخیرہ کر لیں۔ آپ یہ سب کچھ کر کے ایک دو تین‘ چھ ماہ یا ایک سال انتظار کر لیں‘ اُس کے بعد دیکھئے کہ آپ کی انوسٹمنٹ کیا رنگ لائی ہے اور آپ کے صبر اور انتظار کا پھل کتنا میٹھا نکلا ہے ۔ ممکن ہے کہ آپ کو ایک ‘ دو‘ پانچ یا دس فیصد منافع مل جائے اور شاید کچھ بھی نہ ملے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو نقصان ہو جائے لیکن میں آپ کو ایک ایسی سرمایہ کاری بتلائوں گا جس میں نقصان کا ایک فیصد بھی چانس نہیں ہے اور جو صرف منافع دے گی اور ایک دو ‘ پانچ یا دس نہیں بلکہ سات سو گنا تک منافع دے گی اور اگر آپ اس کے لوازمات کا خیال رکھیں گے تو آپ کا منافع اس سے بھی بڑھ سکتا ہے۔ کیا آپ مجھے دنیا کا کوئی کاروبار یا فارمولا بتلا سکتے ہیں جس میںاتنا منافع ملتا ہو۔ پوری دنیا کے ڈبل شاہوں سے جا کر مل لیں‘ کسی کے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ آپ کو وہ اس قدر منافع دلا سکے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ فارمولہ ہماری نظروں سے کئی مرتبہ گزر چکا ہے‘ یہ جس کتاب میں موجود ہے وہ کتاب بھی ہر گھر میں موجود ہے لیکن ہم نے اس کی طرف توجہ دینا گوارا نہیں کی۔ یہ فارمولا رب ِاکبر نے اپنی کتابِ حمید کے تیسرے
پارے کی آیت نمبر دو سو اکسٹھ میں آج سے ساڑھے چودہ سو برس قبل درج فرما دیا تھا۔فرمایا: ''جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی وا لااور علم والا ہے‘‘۔ آپ کسی کو عزت دیں‘ اپنا علم لوگوں تک پھیلائیں‘ لوگوں میں محبت بانٹیںاور غریب اور مستحق افراد کی مالی مدد کریں‘ پھر دیکھیں کہ آپ کا رب آپ کی اس انوسٹمنٹ کو کتنا بڑھاتا ہے ‘ آپ اس انوسٹمنٹ میں تھوڑا سا خلوص شامل کر لیں‘ وہ منافع اور بڑھا دے گا‘ آپ خلوص کی مقدار میں اضافہ کرتے جائیںوہ آپ کے منافع کی مقدار کو مزید بڑھا دے گا‘ وہ اسے سینکڑوں سے ضرب دیتا جائے گا ‘ آپ اس سرمایہ کاری میں سے دکھاوا نکال دیں‘ آپ کا منافع مزید بڑھتا جائے گا‘ آپ اس میں سے تشہیر کا عنصر خارج کردیں‘ منافع اور بڑھ جائے گا‘اس طریقے سے آپ کا مال تو سینکڑوں گنا بڑھے گا ہی آپ محبت‘ عزت اور سکون کے معاملے میں بھی امیر ہو جائیں گے۔ دنیا کا ہر امیر خوش نہیں ہوتا لیکن آپ واحد امیر ہوں گے جو خوش بھی ہوں گے‘جو نیند کی گولیوں اور گھر کو بڑے بڑے تالے لگائے بغیر سکون سے سو بھی سکیں گے۔ آپ یہ انوسٹمنٹ کسی وقت بھی کر سکتے ہیں لیکن قدرت نے اس کیلئے ایک خاص وقت‘ ایک خاص مہینہ بھی مقرر کیا ہے۔ یہ مہینہ ایک مرتبہ پھر ہماری زندگی میں آ چکا ہے اور اگر آپ بہت زیادہ مال‘ بہت زیادہ خوشی اور سکون چاہتے ہیں تو صرف ڈھائی فیصد زکوٰۃ تک نہ رکئے۔ آپ آگے بڑھئے‘ بالکل اسی طرح‘ جس طرح آپ اپنے باس اور اپنی کمپنی کیلئے کئی گھنٹے اضافی کام کرتے ہیں اور اضافی توانائی اور پسینہ اس لئے خرچ کرتے ہیں تاکہ آپ کا باس آپ سے خوش ہوجائے اور آپ کیلئے ترقی اور مراعات کے دروازے کھول دے چنانچہ آپ اپنے رب سے زیادہ مال‘ زیادہ خوشی کے حصول کیلئے اپنی وہ چیزیں اور مال غریبوں‘ مسکینوں میں بانٹ دیجئے جن سے آپ کو محبت ہے اور جنہیں خرچ کرنے سے آپ ہچکچاتے ہیں۔ آپ چند دن‘ چند ماہ یا چند سال انتظار کیجئے اور پھر دیکھئے آپ کی مالی پریشانیاں بھی کم ہو جائیں گی‘ آپ کی اولاد بھی آپ کی عزت کرنے لگے گی‘ آپ کی کاروباری‘ گھریلو پریشانیاں ختم ہو جائیں گے ‘آپ ذہنی اور جسمانی طور پر صحتمند ہو جائیں گے اور ایک مرتبہ پھر خوشیوں بھری اور کامیاب زندگی گزارنے لگیں گے۔
قدرت کا یہ قانون ہر کسی کے لئے ہے۔ قدرت کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ۔آپ کے پاس دس روپے ہیں یا دس کروڑ‘ اللہ یہ نہیں دیکھتا‘ وہ اس جذبے‘ اس خلوص اور اس نیک نیتی کو دیکھتا ہے جس کا
اظہار دس روپے یا دس کروڑ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت کیا جاتا ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت قرآن کی ان آیات کو ضرور دیکھ لیجئے جن میں مستحقین کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ سب سے پہلے اپنے غریب اور قریب ترین رشتہ داروں کا خیال کیجئے‘ان کا آپ پر سب سے زیادہ حق ہے اور ان میں یتیموں‘ بیوائوں اور مسکینوں کو زیادہ اہمیت دیجئے ۔ وہ سفید پوش عزیز رشتہ دار جو آپ کے دائیں بائیں موجود ہیں‘ جو ہاتھ نہیں پھیلاسکتے‘ ان کی مدد کرنا زیادہ افضل ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی زکوٰۃ و صدقات کے دو حصے کر لیں اور آدھی غریب رشتہ داروں اور آدھی کسی ادارے میں بانٹ دیں‘ یہ آپ پر منحصر ہے۔اس کے علاوہ اگر آپ اپنی زکوٰۃ شوکت خانم ہسپتال کو دیں‘ اس سے کینسر کے مستحق مریضوں کا مفت علاج ہو سکے گا‘ ایدھی فائونڈیشن کو دیں ‘ اس سے لاکھوں یتیموں‘ مسکینوں‘ بیماروں اور بے گھروںکا بھلا ہو گا‘ فلاح انسانیت فائونڈیشن کو دیں‘ اس سے غریبوں کو ایمبولینس اور دیگر خدمات مفت مل سکیں گی‘ الخدمت فائونڈیشن کو دیں‘ اس سے پسے ہوئے طبقات کو ریلیف ملے گا‘ کاروان ِعلم فائونڈیشن یا غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کو دیں تو ہزاروں غریب بچے اور نوجوان علم کی دولت سے مالا مال ہوجائیں گے اور آپ یہ رقم گھرکی فائونڈیشن کو دیں‘ اس سے گھرکی ہسپتال جیسی شاندار ‘ سستی اور جدید علاج گاہ میں آنے والے مریضوں کا بھلا ہو گا‘ بس یہ یاد رکھئے‘ آپ جس کسی کو بھی دیں‘ اس کو دیتے وقت ریاکاری یا کسی قسم کا احسان مت ظاہر کریں۔ اس طرح آپ کا یہ عمل آپ کے لئے دنیا اور آخرت میں ثواب اور نجات کا باعث بن جائے گا‘آپ کے رزق میں کشادگی آئے گی اور اللہ آپ کے مال کو سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ بڑھا دے گا۔ یہی لاء آف گیونگ (Law of Giving)ہے۔