آ ج کے دور میں اگر کوئی شخص رات کو بغیر نیند کی گولی کے سو جاتا ہے‘ وہ بیوی کو ٹائم دیتا ہے‘ بچوں کے ساتھ روزانہ وقت گزارتا ہے‘ دوستوں یاروں کی محفلوں اور ان کی خوشی غمی میں شریک ہوتا ہے اور اس کے پاس دو وقت کی روٹی‘ تن پر کپڑا اور رہنے کو چھوٹی سی کٹیا موجود ہے ‘ وہ بیماریوں سے بچا ہوا ہے‘ وہ تھانے‘ کچہری اور چوروں اور ڈاکوئوں سے محفوظ ہے اور اس کی اولاد فرمانبردار اور لائق ہے تو ایسا شخص ایسے اُن ہزار ارب پتیوں سے بہتر ہے جو سکون کے لئے سکون آور ادویات کے محتاج ہیں‘ جو خوشی کو نائٹ کلبوں‘ ریستورانوں اور پارٹیوں میں ڈھونڈتے ہیں اور جن کی زندگی پیسے بناتے اور پیسہ گنتے گزر جاتی ہے پھر بھی وہ خود کو ناکام اورنامکمل ہی محسوس کرتے ہیں۔تاہم اس ملک میں ایسے افراد کی تعداد گنتی میں ہو گی جنہیں خالص پانی‘ خالص دودھ اور خالص خوراک میسر ہو گی۔ بڑے سے بڑا امیر اور تاجر بھی ان چیزوں سے محروم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ گھر میں تو خالص چیزوں کا کسی طرح انتظام کر لے گا لیکن جیسے ہی اسے ملک کے مختلف حصوں میں سفر کرنا پڑے گا‘ اسے بازار کی غیرمعیاری چیزوں سے واسطہ ضرور پڑے گا۔یہ تو شہر کی بات تھی‘ وہ زمانے لد گئے جب دیہات میں خالص چیزیں عام میسر تھیں۔ دیہات بھی اب بدل چکے۔ پہلے پہل گائوں جانا ہوتا تو اڈے پر تانگے کھڑے ملتے۔ تانگوں کی سجاوٹ آنکھوں کو بھاتی۔ بچے بڑے سبھی اڈے سے لے کر گائوں میں گھر تک کی سواری سے خوب لطف اندوز ہوتے۔ اب تانگے
خال خال نظر آتے ہیں۔ ان کی جگہ چنگ چی رکشوں نے لے لی ہے۔ کان پھاڑتے یہ رکشے مسافروں کی سماعت تو متاثر کرتے ہیں‘ ان پر بیٹھ کر اچھے بھلے شخص کا اِنجر پنجر ہل جاتا ہے۔ رہی سہی کسر موٹر سائیکلوں کی بہتات نے نکال دی ہے۔ مشرف دور میں تین چیزیں بہت عام ہوئیں ‘ الیکٹرانک میڈیا‘ موٹر سائیکل اور موبائل فون۔ ان تینوں نے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ شہروں کو تو چھوڑیں‘ آپ آج کسی بھی گائوں میں چلے جائیں‘ وہاں بھی یہ بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ دو قدم دور جانے کیلئے موٹرسائیکل چاہیے۔ کھیتوں میں جانا ہو یا کہیںاور‘ چند فرلانگ کافاصلہ بھی اس کے بغیر طے نہیں ہوتا۔ کچے گھروں کی جگہ پکے سیمنٹ والے گھر بن گئے ہیں۔ گائوں کے گھروں کا نقشہ بھی بدل گیا۔ پہلے پچھلی طرف دو تین کمرے ہوتے‘ درمیان میں کھلا صحن اور ایک طرف باتھ روم بنائے جاتے۔ اب کمرے زیادہ اور کھلی جگہ کم‘ وہی شہر والا حال۔ کبھی گھروں میں بھینسیں بکریاں رکھنے کا رواج ہوتا۔ خالص دودھ سے مہمانوں کی بھی تواضع کی جاتی اور خود بھی استعمال کیا جاتا۔ دودھ‘ دہی‘ لسی اور خالص دودھ کی چائے کا اپنا رنگ ہوتا۔ فارمی مرغی کا نام و نشان نہ ہوتا۔ آج یہ حال ہے کہ دیسی مرغی وہاں بھی اسی طرح ملنا محال ہے جیسے کہ شہروں
میں۔گائوں میں ڈیرہ کلچر بھی دم توڑرہا۔ آپ حیران ہوں گے شہروں سے کہیں زیادہ تناسب میں موبائل فون دیہات میں استعمال ہو رہا۔ جسے دیکھو ایزی لوڈ کروانے بھاگا جا رہا ہے۔ لمبے لمبے پیکیج کروا کر گھنٹوں وقت کا ضیاع اور رات کو دیر تک ٹی وی دیکھنا‘ جاگنا اور صبح دیر سے اٹھنا۔عجیب افراتفری ہے۔ کیا آج سے دس پندرہ برس قبل ایسا ہوتا تھا۔ اس لائف سٹائل کا نتیجہ دل کی بیماریوں‘ بلڈ پریشر اور ذیابیطس کی صورت میں نکل رہا ہے۔ کبھی یہ بیماریاں خالصتاً شہری بیماریاں کہلاتی تھیں۔ اب دیہات میں کسی کا انتقال ہو‘ وجہ پوچھی جائے تو ہارٹ اٹیک۔ پچھلے دنوں پنجاب کارڈیالوجی جانا ہوا۔ وہاں کثیر تعداد میں دور دراز کے دیہات سے بوڑھے مریض دیکھے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ کسی کی شریان بند ہے‘ کسی کو سٹنٹ ڈلا ہے‘ کسی کی انجیوگرافی اور کسی کا بائی پاس ہونا ہے۔یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ میں یہی سوچتا چلا آیا کہ اگر دیہات میں رہنے والوں کی یہ حالت ہے تو شہروں والے‘ بالخصوص نئی نسل کا کیا ہو گا جنہیں پیکٹ والے چپس‘ چاکلیٹوں اور مشروبات نے ابھی سے گھیر لیا ہے۔سکولوں میں آپ بچے کو گھر سے بھی لنچ بھیج دیں تو اس کے اردگرد اسی فیصد بچے یہی فضولیات کھا رہے ہوتے ہیں۔انہیں مطمئن کرنے کے لئے بعض مائیں گھر سے برگر وغیرہ بنا کر دے دیتی ہیں تاکہ کسی احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو۔مسئلہ وہی ہے آخرکہاں کہاں آپ انہیں بچائیں گے۔ جس دن کہیں سے خراب پانی کا گھونٹ پی لیا‘ ہیپاٹائٹس گھیر لے گا۔ نئی نسل صحت کے معاملے میں اسی لئے زیادہ کمزور واقع ہوئی ہے۔ مضرصحت خوراک سے جو بیماریاں جنم لے رہی ہیں‘ بازار میں موجود اینٹی بائیو ٹکس ان پر جلدی اثر بھی نہیں کرتیں۔ پہلے کہیں چھ مہینے بعد بچے کو اینٹی بائیوٹک دی جاتی تھی‘ اب مہینے میں دو دو بار بھی دینی پڑتی ہیں۔
گزشتہ روزسپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ کھلے دودھ کے علاوہ بند دودھ میں بھی ڈیٹرجنٹ ‘ پائوڈر اور کیمیائی مادے استعمال کئے جاتے ہیں۔ جہاں قیمتاً پانی بھی خالص نہیں ملتا ہو وہاں بندہ اپنا سر نہ پھوڑے تو کیا کرے۔بھینسوں سے زیادہ دودھ لینے کے لئے جو ٹیکے لگائے جاتے ہیں‘ وہ دودھ پینے والوں پر کیا اثرات مرتب کرتے ہوں گے۔مرغیوں کی افزائش کے لئے انہیں جو خوراک دی جاتی ہے‘ وہ انسانی معدوں کا کیا حال کرتی ہو گی۔ یہ سب باتیں یا انکشافات کوئی نئے نہیں ہیں۔ نئی بات یہی ہے کہ سپریم کورٹ نے نوٹس لیا ہے۔ اس سے قبل بھی کئی بار لیا گیا ہو گا لیکن نتیجہ کیا ڈھاک کے وہی تین پات۔ یہ کام کوئی جناتی مخلوق تو آ کر نہیں کرتی۔ جب ہم خود مل کر ان مسائل میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں تو پھر گلہ کس سے اور کیوں؟آپ دودھ والے کو کہیں وہ آپ کو خالص دودھ دے چاہے دو سو روپے فی کلو لگا لے‘ تب بھی اس کا لالچ ختم ہو گا نہ ہی آپ ذہنی طور پر مطمئن ہو پائیں گے۔ اب یہاں پر سپریم کورٹ یا حکومت کیا کرے گی۔ وہ ہر گھر میں جا کر ہر شخص کو ڈنڈے مارنے اور سدھارنے سے تو رہی۔ فوڈ اتھارٹی والے ان مسائل سے دانستہ چشم پوشی کرتے ہیں‘ انہیں ان کا حصہ مل جاتا ہے‘ وہ مطمئن ہیں۔ میڈیا کچھ آشکار کر دے تو تھوڑی بہت دوڑ لگا لیتے ہیں اور بس۔ یہ کردار بنیادی طور پر ریاست کا ہے اور بڑی ذمہ داری اسے ہی ادا کرنا ہو گی۔ جس طرح ہر دو کلومیٹر کے بعد ایک پٹرول پمپ مل جاتا ہے‘ اسی طرح پی سی ایس آئی آر کے تعاون سے اسے ایک ایسا نیٹ ورک بنانا ہو گا کہ جس کے ذریعے شہری دودھ‘ پانی اور دیگر اشیا کے نمونہ جات لا کر ٹیسٹ کرا سکیں۔ یہ سروس مفت دی جائے یا معمولی عوضانے پر‘ لیکن ہر صورت میں اور فوری۔ یہ نئے نئے ہسپتال بنانے سے کہیں بہتر ہے ۔ جب خوراک کا معیار بہتر ہو جائے گا‘ لوگ بداحتیاطی اور مضرصحت اشیا سے بچ جائیں گے تو بیماریوں کا تناسب خودبخود کم ہو جائے گا ۔حکومت نے اسلام آباد اور لاہور میں صاف پانی کے جو منصوبے شروع کئے ہیں‘ انہیں تیز کرنا اور دیگر شہروں میں پھیلانا ہو گا کہ پانی ہی زندگی ہے ۔سب سے اہم یہ کہ جب تک ہم بحیثیت معاشرہ دو نمبری‘ جعلسازی اور دھوکہ بازی کی لعنتوں سے خود کو علیحدہ نہیں کرتے‘ نہ حکومت کچھ کر سکتی ہے نہ عدالت!