الفرقان مسجد نیویارک میں کوئنز کے علاقے میں واقع ہے۔ اس کے پیش امام گزشتہ روز نماز ظہر کے بعد اپنے نائب کے ساتھ مسجد سے نکلے تھے کہ ایک نامعلوم مسلح شخص ان کے سروں میں گولیاں مارکر فرار ہو گیا۔امام مسجد اور ان کے نائب موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ 55سالہ مولانا اخون جی دو برس قبل بنگلہ دیش سے نیویارک منتقل ہوئے تھے۔ واقعے کے بعد دو ہزار کے قریب مسلمان وہاں جمع ہو گئے اور شدید احتجاج کیا۔ مسلمان برادری کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ نفرت پر مبنی ہے جبکہ پولیس کا کہنا تھا کہ وہ ابھی تک محرکات کے حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے۔مقامی مسلمانوں کے مطابق وہ خود کو مکمل طور پر غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق یہ ڈکیتی کا واقعہ نہ تھا۔ ان سے کوئی چیز بھی چھینی نہیں گئی تھی۔حتیٰ کہ پرس اور موبائل تک محفوظ تھے۔ مسلمان کمیونٹی نے اسے مسلمانوں کے خلاف اس نفرت آمیز مہم کا شاخسانہ قرار دیا جو مہم ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ کئی ماہ سے صدارتی انتخابات کے لئے چلا رہے ہیں۔وہ مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے تک پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ان کے خیال میں مسلمان قابل نفرت ہیں اور انہیں امریکہ سے دیس نکالا دے دینا چاہیے۔
اس واقعے سے دو نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ امریکہ جیسے سیکولر ملک میں بھی مسلمان محفوظ نہیںرہے۔ پولیس کے مطابق دہشت گرد کو بھاگتے ہوئے دیکھا گیا لیکن اسے گرفتار نہیں کیا گیا۔ وہ پولیس جو اڑتی چڑیا کے پر گن لیتی ہے اس کی طرف سے پنجاب پولیس جیسا بیان قابل تعجب بھی ہے اور قابل مذمت بھی۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سیاست میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے آپ اگر مخالف کے خلاف نفرت کو ہوا دیں گے تو اس کے ہولناک نتائج نکلیں گے۔ ہم اس کا ایک عکس ملکی سیاست میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ چودہ اگست سے ایک روز قبل جب پورا ملک جشن آزادی منانے کی تیاریوں میں مگن تھا‘ تحریک انصاف حکمرانوں کے خلاف جلسے کرنے اور عوام کے جذبات بھڑکانے کی خاطر سڑکوں پر نکل آئی۔ اس نے مخالفین پر تابڑ توڑ حملے کئے اور جی بھر کے کردار کشی کی۔ ظاہر ہے اس کا جواب بھی آنا تھا۔ وزیراعظم نے فرمایا کنٹینر سیاست والوں کو پھر ناکامی ہو گی۔ حمزہ شہباز نے کہا کہ خان صاحب کو وزیراعظم بننے کا جنون ہے‘ انہیں شیروانی سلوا دیتا ہوں‘ لوگوں کو کہہ دیتا ہوں انہیں وزیراعظم کہہ کر مخاطب کیا کریں۔ پنجاب کے وزیرقانون رانا ثنا اللہ نے فرمایا‘ عمران خان پاکستان کے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ جو کام ٹرمپ امریکہ میں بیٹھ کر رہے ہیں وہی خان صاحب پاکستان میں کر رہے ہیں۔ میں رانا صاحب کی بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سیاسی مخالفین کی بجائے امریکہ میں مقیم مختلف کمیونیٹیز کو اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں ۔وہ اپنے ووٹ بڑھانے کے لئے دشنام طرازی کا سہارا لے رہے ہیں۔ جبکہ خان صاحب کسی کمیونٹی کے خلاف نفرت پیدا نہیں کر رہے بلکہ ان کے حریف صرف وزیراعظم نواز شریف اور ان کا خاندان ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے ہدف تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دور میں خان صاحب کا ہدف پیپلزپارٹی کے صدر آصف علی زرداری اور ان کے سوئس اکائونٹ تھے۔ اب وہی پیپلزپارٹی ان کے ساتھ کرپشن کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہے اور اس بارے میں خان صاحب نے ایک روز قبل یہاں تک کہہ دیا کہ پیپلزپارٹی ہمارے ساتھ کھڑی ہے اس لئے حکمران جماعت اس کے خلاف غصہ نکال رہی ہے۔خان صاحب بعض اوقات بہت سادگی دکھاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی ان کے ساتھ صرف اس حد تک ہے کہ جہاں اس کے مفادات کو ضرب نہ پہنچے‘ وہ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی جیسے کیسوں سے نکلنے کے لئے حکومت پر دبائو ڈال رہی ہے اور اس کے لئے پاناما پیپرز اور خان صاحب کا سہارا لے رہی ہے۔ جس روز اس کے یہ دو مسائل حل ہو گئے‘ اس دن یہ خان صاحب کو بیچ چوراہے میں چھوڑ جائے گی۔ جہاں تک تحریک انصاف کے تیرہ اگست والے جلسے کی بات ہے تو ایک مرتبہ پھر ثابت ہو گیا کہ خان صاحب کی ٹیم انتہائی ناقص ہے اور اسے اپنے لیڈر تک کی زندگی کا ذرا سا بھی خیال نہیں۔عام الیکشن سے قبل خان صاحب لفٹر سے گرے جو خالصتاً بدانتظامی کا نتیجہ تھا۔ ایک لفٹر سے ایک لیڈر کو یوں سٹیج پر چڑھایا جا رہا تھا جیسے سامان کی بوریاں۔ اللہ نے زندگی رکھی تھی وگرنہ ان کی ٹیم کی جانب سے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی۔ اس کے بعد بھی پے در پے واقعات پیش آتے گئے۔ ملتان میں سات افراد شاہ محمود قریشی کی میزبانی میں منعقدہ جلسے میں جان سے گئے۔خواتین کے ساتھ جلسوں میں بدسلوکی کے واقعات بھی جاری رہے لیکن پارٹی میں نظم و ضبط نہ آ سکا۔ گزشتہ روز تحریک انصاف کا جلوس فیصل چوک کی جانب رواں تھا کہ ایک اور حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ خان صاحب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کنٹینر کی چھت پر بنائے سٹیج پر کھڑے تھے کہ ایک اوور ہیڈ برج آ گیا‘خان صاحب سمیت سارے لوگ تیزی سے نیچے بیٹھے گئے جبکہ ڈرائیور اپنی دھن میں گاڑی چلاتا رہا۔ یہاں سے آپ اس جماعت کے ٹیم ورک کا اندازہ لگا لیں جو ملک کی تقدیر بدلنے چلی ہے وہ اپنے لیڈر کو پلوں سے ٹکرانے کے لئے چھوڑ دیتی ہے۔ اگر گزشتہ روز خان صاحب کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آ جاتا تو اس کا الزام حکمران جماعت پر دھر دیا جاتا کہ شاید اسی نے اوورہیڈ برج عین موقع پر چند فٹ نیچے کھسکا دیا تھا۔ خان صاحب سے دست بستہ عرض ہے کہ اگر کامیابی چاہتے ہیں تو پہلے ایسی ٹیم تو بنا لیں جو صوبہ یا ملک چلانا تو دُور کی بات ‘ایک جلسے کا انتظام کرنے کے قابل تو ہوجائے۔ دوسرا یہ کہ برائے مہربانی نفرت کی سیاست ترک کر دیں ۔ دھرنے میں جس طرح انہوں نے مخالفین کو گلے سے پکڑ کر گھسیٹنے جیسے اعلانات کئے ان کے نتائج اسی قسم کے نکلیں گے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی نفرت انگیز سیاست کے سامنے آ رہے ہیں۔ انہیں ملک کو مثبت اور ترقی پسند سیاست کی طرف مائل کرنا چاہیے تھا کہ خود آدھی زندگی انہوں نے یورپ میں گزاری ہے جہاں اس قسم کی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں۔ہر کوئی کہہ رہا ہے انہیں اپنے صوبے کو ماڈل صوبہ بنانا چاہیے‘ ایسا ہو گیا تو باقی تین صوبوں کے لوگ بھی انہیں ووٹ دے دیں گے‘ مگر خان صاحب شاہ محمود قریشی ایسے مشیروں کو چھوڑنے کو تیار ہی نہیں۔اس پر کف افسوس ہی ملا جا سکتا ہے۔
گزشتہ روز یوم آزادی تھا۔ کوئٹہ سانحہ اس سے ایک ہفتہ قبل پیش آیا۔ مقصد عوام میں دہشت پھیلانا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کمزور کرنا تو تھا ہی لیکن اصل مقصد سول ملٹری تعلقات میں دراڑ پیدا کرنا تھا۔ جو قوتیں اور ہمارے جو ''اپنے‘‘ اس کوشش میں تھے کہ اس واقعے کو ایجنسیوں پر ڈال دیں اور حکومت اور فوج کو آمنے سامنے کھڑا کر دیں وہ ہمیشہ کی طرح ناکام رہے۔ قوم نے یوم آزادی بے خوف ہو کر منایا اور وزیراعظم نے یوم آزادی کو کشمیر کے نام کر کے یہ پیغام دے دیا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آزادی پاکستان کی آزادی سے جڑی ہوئی ہے‘ یہاں کے عوام مکمل طور پر خود کو آزادتبھی تصور کریں گے جب کشمیر بھارتی جبر سے آزادی حاصل کر لے گا۔
نیویارک میں امام مسجد کا قتل ڈونلڈ ٹرمپ جیسے سیاستدانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو اقتدار تک پہنچنے کے لئے ہر جائز ناجائز حربے اختیار کررہے ہیں۔ انہیں علم نہیں‘ نفرت کے جو بیج یہ بو رہے ہیں‘ کل ان کی فصل بھی انہیں اور آئندہ نسل کو اپنے ہاتھ سے کاٹنا پڑے گی۔ کانٹے دار ببول بو کر پھل دار درخت اُگنے کی امید کرنا نری حماقت ہے۔