بچوں کے اغوا کے پیچھے اگر کوئی منظم گروہ ملوث ہے تو وہ ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔ سوشل میڈیا نے البتہ سنسنی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ غالباً تائیوان کی وہ ویڈیو ہے جس میں ایک بچے کا اغوادکھایا جاتا ہے۔ اسے پاکستان کے کسی علاقے سے منسوب کیا گیا ہے۔ تین چار بچے گلی میں کھیل رہے ہوتے ہیں کہ دو موٹرسائیکل سوار ایک بچے کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ دیگر بچے خوفزدہ ہو کر بھاگ اٹھتے ہیں۔ ویڈیو میں بچوں کی حفاظت کی تلقین کی گئی ہے۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اغوا کے واقعات نہیں ہو رہے۔ بہت سے لوگوں کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ کئی لوگوں کو البتہ شبے میں مار مار کر ادھ موا کر دیا گیا۔ ایک خاتون اپنے بچے کو اپنے پاس بلا رہی تھی‘ اسے بھی اغوا کار سمجھ لیا گیا۔ اسے اتنا مارا گیا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور چہرہ خون سے بھر گیا۔ اغوا کاروں پر تو دہشت گردی کی دفعات لگنی چاہئیں لیکن ان والدین کا کیا کیا جائے جن کے رویے سے تنگ آ کر بچے گھر چھوڑ رہے ہیں۔ کئی ایسے واقعات کو اغوا کا نام دیا گیا۔ پولیس کو رپورٹ بھی اغوا کی درج کرائی گئی۔ بعد میں معلوم ہوا‘ بچہ ناراضگی کی وجہ سے نکلا اور خود ہی گھر آ گیا۔ المیہ یہ ہے کہ والدین دو انتہائوں کے اسیر ہو چکے۔ وہ بچوں کے ساتھ بہت زیادہ لاڈ پیار کرتے ہیں یا پھر اتنی زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کہ بچے کی شخصیت دب جاتی ہے‘ صلاحیتیں برباد ہو جاتی ہیں اور وہ کسی سے کلام کے قابل بھی نہیں رہ جاتا۔ ویسے بھی ہر کسی کو ڈاکٹر یا انجینئر چاہیے۔نمبروں کی دوڑ نے بچوںکی جسمانی اور ذہنی تربیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ایسے ماحول میں وہی گھر جو سکون اور خوشیوں کا آنگن ہوتا ہے‘ بچہ اسے جیل سمجھنے لگتا ہے اور گھرسے فرار کے منصوبے بنانے لگتا ہے۔ کئی ایسے بچے جو گھروں سے غائب
ہوئے‘ سکول جانے کیلئے نکلے اور کسی دوسرے شہر کے سفر کو نکل گئے۔ کئی بچوں نے مختلف بسوں اور ریل کی ٹکٹیں لے لیں اور دو تین روز سفر میں رہنے کے بعدخود ہی گھر واپس آ گئے۔اس دوران البتہ والدین اور عزیز و اقارب پر کیا بیتی ہو گی‘ یہ سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔ ایسے والدین جو اپنے بچوں کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آتے ہیں‘ انہیں قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔صرف والدین ہی نہیں‘ سیاستدانوں‘ صحافیوں اور علما کو بھی اس بارے میں غوروفکر کی ضرورت ہے کہ یہ لوگ معاشرے کا عکس ہوتے ہیں‘ عوام انہیں فالو کرتے ہیں اور ان کا اثر لیتے ہیں۔کسی زمانے میں نوابزادہ نصراللہ جیسے نفیس‘معتدل اور بااخلاق سیاستدان ہوا کرتے تھے جن کی گفتگو اور جن کا اخلاق جانی دشمنوں کو دوست بنا دیتا تھا۔ نوابزادہ اس سیاسی عہد کی آخری نشانی تھے جس میں قائداعظم، گاندھی، نہرو اور ان کے بعد سینکڑوں معروف سیاستدانوں نے اپنا رنگ جمایا۔ نوابزادہ صاحب گئے عہد کی دن بدن مدھم پڑتی ہوئی نشانی تھے۔ ہر قافلہ وقت کے دھندلکے میں کھو جاتا ہے۔ پیچھے گرد سفر رہ جاتی ہے اور کچھ وقت کے بعد اس کا بھی نشان نہیں ملتا۔ نوابزادہ جس قافلے کے رکن تھے، وہ جدید عہد میں اجنبی ہے۔ اس عہد کی تہذیبی روایات اور وضع داری باقی رہی نہ سخت سے سخت بات کو الفاظ کے محتاط اور نرم سانچے میں ڈھالنے کا فن ہمارے حصے میں آیا۔ نوابزادہ کا کمال یہ تھا کہ وہ ایک متروک تہذیب کے نمائندہ ہوتے ہوئے بھی جدید دور میں
نمایاں اہمیت کے حامل رہے۔ شمع محفل کی اصطلاح جتنی ان پر صادق آتی تھی شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی۔ جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعد انہوں نے پاکستان کی دو قطبی سیاست کے دونوں قطب اکٹھے کر دئیے، نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی ''ذاتی دشمنی‘‘ کو ختم کرا کے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ بھی اپنی سیاسی مخالفت کو اسی انداز میں باقی رکھیں جس طرح امریکہ اور برطانیہ کے دو جماعتی نظام میں رکھا جاتا ہے۔ نوابزادہ کے سوا کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو تمام اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر سکے اوران کا یہ اعزاز آخر تک قائم رہا۔ وہ مردِ اختلاف ہی نہیں، مردِ اتحاد بھی تھے۔ آج مگردور یکسر بدل چکا۔ آج عمران خان جیسے بہت سے لیڈروں کے لئے مخالف کی کردار کشی اقتدار تک پہنچنے کی کنجی بن چکی۔ وزیراعظم نواز شریف قدرے مختلف ہیں۔ بینظیر بھٹو بھی سنجیدہ تھیں‘ آصف زرداری مگر الٹ نکلے۔ فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان انہیں ملک بدر کر گیا۔ شیخ رشیداور ڈاکٹر طاہرالقادری جیسے بھی یہاں موجود ہیں‘ جو آگ لگا دو‘ سب کچھ مٹا دو کے نعرے سے تقریر کا آغاز کرتے ہیں۔ عوام بھی ایسی مصالحہ دار تقاریر کے عادی ہو چکے۔ جو جتنا زیادہ منہ پھٹ ہو‘ الیکٹرانک میڈیا بھی اسے ہی زیادہ وقت دیتا ہے۔بدگوئی کا یہ سلسلہ معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ عمران خان صاحب کے پاس بھی سوائے تنقید کے کوئی ہتھیار باقی نہیں رہا‘ان کے اپنے صوبے کا حال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں لکی مروت میں کنٹینر سکول منصوبے کا افتتاح ہوا تو ان کے غالباً ایف اے پاس صوبائی وزیر تعلیم ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر افتتاح کرنے گئے۔ کیا یہ کرپشن یا بدانتظامی نہ تھی؟صرف ڈیڑھ گھنٹے کا یہ زمینی راستہ تھا جس پر فضائی سفر اور سرکاری وسائل کے اندھے استعمال کو ترجیح دی گئی۔ لوگ پوچھتے ہیںکیا یہی وہ تبدیلی تھی جس کا راگ الاپا جاتاتھا؟ کہاں دوسروں کو سادگی کے درس اور کہاں اپنے ایک وزیر کاہیلی کاپٹربے دریغ استعمال کرنا؟ میں نے نہیں سنا کہ خان صاحب نے عاطف خان کی سرزنش کی ہو۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا البتہ ٹویٹ آیا کہ ان کا کوئی وزیر ان کی اجازت کے بغیر سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال نہیں کر سکتا۔تو کیا اُوپر سے نیچے تک آوے کا آوا بگڑ چکا ہے؟ کیا فرماتے ہیں خان صاحب اس بارے میں؟ کیا ان کے وزیر احتساب سے بالا تر ہو چکے؟ پرویز خٹک سادگی کا سوال تو گول کر ہی گئے‘یہ بھی نہیں بتایا کہ ہیلی کاپٹر لے جانا کیوں ضروری تھا۔ ان کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی سی ٹی سکین مشین کئی ہفتوں سے خراب ہے‘ لوگ باہر سے مہنگے ٹیسٹ کروا رہے ہیں۔ اس کا جواب وہ کیا دیں گے؟ کیا ان کی مرضی سے متبادل مشین یا مرمت کا انتظام نہیں کیا جا رہا؟ چلیں اسے چھوڑیں‘ کیا انہیں معلوم ہے‘ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہسپتال میں ٹارچوں کی روشنی میں مریضوں کی جراحی کی جا رہی۔ گزشتہ ایک ہفتے میں وہاں سرجنوں نے گیارہ آپریشن ٹارچ کی روشنی میں کیے۔ اگر ہسپتال میں بھی جنریٹرز دستیاب نہیں تو پھر صحت کے وسائل کہاں کھپائے جا رہے ہیں؟ کیا تبدیلی کی یہی وہ مثالیں ہیں جو ہمیں تین سال گزرنے کے بعد خیبرپختونخوا میں دیکھنے کو ملنا تھیں؟سارے کا سارا زور جس جماعت کا مخالفین کی کردار کشی پر رہا‘ وہاں کے حالات دیکھ کر کون اسے آئندہ ووٹ دے گا؟
بدگوئی سے بچنا جتنا سیاستدانوں‘ صحافیوں اور علماء کے لئے ضروری ہے اتنا ہی والدین کے لئے۔اپنی زبان اگر انسان کے قابو میں نہ رہے تو اس کا جاہ و جلال‘ عہدہ و منصب کس کام کا؟ایسے لوگوں کیلئے قرآن میں ہلاکت کی وعید ہے۔''ہر طعنہ زن اور عیب جوئی کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے‘‘(الھمزہ)۔ ایک حدیث میں ہے ۔''جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے‘‘( صحیح بخاری)۔ آپﷺنے فرمایا۔''جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی‘‘( صحیح بخاری) ۔آپ ﷺکا ارشاد ہے ''جو شخص اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (یعنی شرمگاہ) کا ضامن ہو تو اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں‘‘(صحیح بخاری)
جن لوگوں کے نزدیک نظام میں تبدیلی بدگوئی سے آئے گی ‘ ان ارشادات کی روشنی میں وہ اپنا قبلہ درست کرنا پسند فرمائیں گے؟