جمعہ کے روزمقبوضہ کشمیر میں ریاستی جبر کی انتہا ہو گئی۔ چھٹی جماعت کا طالب علم ناصر شفیع جو مظاہرے میں لاپتہ ہوگیا تھا ‘ اس کی میت بعدمیں ایک باغ سے ملی ‘بھارتی افواج نے وحشیانہ تشدد کرتے ہوئے ناصر شفیع کو پیلٹ گن کے چھروں سے چھلنی کر دیا تھا۔کشمیری نوجوان برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارت بری طرح سے بوکھلا چکا ہے۔عالم یہ ہے کہ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں کرفیو پر پابندی پر عمل درآمد میں بھی ناکام ہو چکی ہے۔ بھارتی درندگی سے جب کوئی کشمیری نوجوان شہید ہوتا ہے تو ہزاروں کشمیریوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمند ر کرفیو کو پائوں تلے روند کر باہر نکل آتا ہے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ بھارتی فوج کے سامنے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں‘ شہید کی میت کو پاکستانی پرچم میں پلیٹ کر اس امر پر مہرِ تصدیق ثبت کی جاتی ہے کہ کشمیری عوام پاکستان سے کس قدر والہانہ محبت کرتے ہیں۔یہ انٹرنیٹ اور موبائل فون کا دور ہے۔ بھارت معلوم نہیں‘ کس دور میں جیتا ہے۔وہ سمجھتا ہے آج بھی اگر وہ کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گا تو دنیا کو کانوں کان خبر نہیں ہو سکے گی‘ تو یہ اس کی بھول ہے۔ اب پل پل کی خبریں‘ تصاویر اور حقائق سینکڑوں نیوز ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر بھی سوشل میڈیا پر پہنچ جاتے ہیں۔ کوشش اس کی مگر یہ ہے کہ کشمیر میں جاری جدوجہد ِ آزادی کو دہشت گردی کا رنگ دے کر عالمی برادری کے سامنے یہ پراپیگنڈا کر سکے کہ کشمیر میں امن اگر قائم نہیں ہو رہا تو اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی عالمی فورم پر کشمیر کے سلسلے میں مذاکرات کی بات کی جاتی ہے تو بھارت مسئلہ کشمیر کی بجائے دہشت گردی یا سرحد پار دراندازی کا ایشو کھڑا کر دیتا ہے ۔ بھارت پر دبائو بڑھانے کا بہترین موقع یہی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران کشمیرکا مسئلہ توانا انداز میں اٹھائیں ۔
مقبوضہ کشمیر میں جاری یہ طویل ترین کرفیو ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ لوگوں کے گھروں سے نکلنے‘ علاج معالجے اور ہر قسم کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے۔ مریض گھروں میں تڑپ رہے ہیں‘ بچے بھوک سے بے حال ہیں‘ گھروں میں راشن پانی ختم ہو چکا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ بھارتی فورسز پیلٹ گنوں سے کشمیریوں پر دردناک ظلم ڈھا رہی ہیں۔یہ پیلٹ گنیں اسرائیلی میڈ ہیں اور دنیا بھر میں ان کے استعمال پر اس لئے پابندی عائد ہے کہ اس کے چھرے کسی خاص مقام کو فوکس کرنے کی بجائے تمام جسم کو نشانے پر لے لیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اب تک سینکڑوں کشمیری بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک چھوٹی بچی انشاء کی تصاویر نے دل دہلاکر رکھ دئیے جو اپنے گھر کی بالکونی سے باہر دیکھ رہی تھی کہ ظالم فوجیوں نے پیلٹ گن کا رخ اس کی جانب کر دیا جس سے چھرے اس کی آنکھوں میں پیوست ہو گئے۔ یہ ظلم امریکہ کو مگر دکھائی نہیں دیتا۔ آج وہ اطالوی باشندے کی ڈرون حملے میں ہلاکت پر لواحقین کو لاکھوں ڈالر تو دے رہا ہے لیکن وہ ہزاروں بے گناہ پاکستانی اسے دکھائی نہ دئیے‘ ڈرون میزائلوں نے جن کے پرخچے اڑا دئیے۔
بائیس اگست کو الطاف حسین نے لندن سے خطاب کے دوران پاکستان کے خلاف نعرے لگائے اور اس کے بعد میڈیا ہائوسز پر حملہ کرایا تو قومی رائے عامہ میں یہی بات نکل کر آئی کہ یہ سب ایک طے شدہ سکرپٹ کے تحت کیا گیا جس کا مقصد کشمیر میں جاری ریاستی تشدد سے عالمی توجہ ہٹانا تھا۔ پاکستانی میڈیا جو اس سلسلے میں بھرپور اور توانا آواز بلند کر رہا تھا‘ لامحالہ اس کی توپوں کا رخ بھی ایم کیو ایم کی طرف ہو گیا اور یہی دشمن قوتوں کی خواہش تھی۔ الطاف حسین کی جانب سے اس سے قبل بھی اسی قسم کی تقاریر کی جاتی رہیں لیکن اس دن تو حد ہی کر دی گئی۔ ظاہر ہے اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پھر یہ ایشو کشمیر پر قومی قیادت اور میڈیا کی توجہ کو اپنی لپیٹ میں کیسے لے سکتا تھا؟اس دوران مگر ہماری دیگر سیاسی جماعتیں بھی اہم قومی معاملات سے صرفِ نظر کرتی رہیں۔ مثال کے طور پر تحریک انصاف کا سارا زورپہلے چار حلقوں میں دھاندلی کے حوالے سے تھا‘ اب پاناما ایشو کے ساتھ وہ ایسی جڑی کہ اسے کوئی اور قومی مسئلہ‘ مسئلہ دکھائی نہ دیا۔ اسی طرح پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری جو عموماً زیادہ وقت بیرون ممالک میں قیام کرتے ہیں‘ گزشتہ دو تین ماہ سے ملک میں ڈیرہ جمائے بیٹھے رہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ماڈل ٹائون سانحے کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے۔ بے شک یہ جائز مطالبہ تھا اور اس کے ذمہ داران کو کڑی سزا ملنی چاہیے لیکن قادری صاحب کا مسئلہ وہی ہے کہ ایشوز پر ان کا فوکس نہیں رہتا‘ ان کے سائے تک کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اگلا قدم کس طرف اٹھانے والے ہیں۔ ستر دنوں کا دھرنا انہوں نے ستر سیکنڈ میں لپیٹ دیا لیکن اپنے ساتھیوں یا کارکنان سے مشاورت تک نہیں کی۔ ماڈل ٹائون کا سانحہ لاہور میں رونما ہوا تھا اور لاہور پاکستان میں واقع ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کبھی اس مسئلہ کے حل کے لئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو پکارتے ہیں تو کبھی انصاف کے عالمی فورمز میں لے جانے کا عندیہ دیتے ہیں۔ میں عالمی قوانین انصاف کا ماہر نہیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ عالمی ادارہ انصاف میں جانے سے انہیں کچھ حاصل ہو سکے گا اس لئے کہ یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ برطانیہ میں ایک شہری دوسرے کا سر پھاڑے اور دونوں میںسے ایک اٹھ کر انصاف کے حصول کیلئے امریکہ پہنچ جائے۔ اس سے پاکستان کی سبکی اور بدنامی تو ہو گی لیکن مذکورہ فورم قادری صاحب کے کام نہیں آ سکے گا۔ عوامی تحریک کے سابق رہنما عامر فرید کوریجہ کا بیان بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے کہا ہے کہ طاہر القادری پاکستان میں صرف انتشار اور انارکی پھیلانے آتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ طاہر القادری صاحب جان بوجھ کر دشمن قوتوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور ان کے مذموم مقاصد پورے کرتے ہیں لیکن ان کا ایک خاص وقت کے لئے پاکستان آنا‘ کسی ایشو کو بہت زیادہ گرم کرنا اور یکدم غائب ہو جانا ظاہرکرتاہے کہ ان کی یہ سرگرمیاں کسی نہ کسی دشمن قوت کیلئے بہرحال فائدے کا باعث بنتی ہیں۔ فی الوقت ایسی کسی بھی سرگرمی کا فائدہ بھارت کو پہنچ رہا ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان بھی محاذ آرائی بڑھ رہی ہے۔ دونوں اطراف سے گنڈاسے اور جتھے تیار ہوتے دکھائے جا رہے ہیں۔ میڈیا بھی دونوں کو آمنے سامنے دکھا کر جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت اب جو مرضی کہے‘ لیکن کچھ عرصہ قبل جب رائے ونڈ احتجاج کی بات ہوئی تو سب سے پہلے رائے ونڈ گھیرائو کا اعلان کیاگیا۔یہ اوربات ہے کہ بعد میں جب جواب میں بنی گالا کے گھیرائو کی دھمکیاں آئیں تو پھر گھیرائو کو جلسے میں بدل دیا گیا۔
کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے بلوچستان میں بھارتی سرگرمیوں کا اعتراف نریندر مودی نے ببانگ دہل کیا۔ یہ کام مودی کرے تو عجیب نہیں لگتا لیکن ہماری اپنی سیاسی جماعتیں اگر اس ''کارِخیر‘‘ میں شریک ہوں گی تو سوالات کے ساتھ ساتھ انگلیاں بھی اٹھیں گی!