اب سمجھ آیا‘ ہمارے وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ پنجاب اور وفاقی وزیراطلاعات آئے روز بھاگم بھاگ چین کے دوروں پر کیوں جاتے ہیں۔ جب سے بھارت نے جنگ کے شعلے بھڑکائے ہیں اور اس کے جواب میں چین نے ہر طرح سے پاکستان کا ساتھ دینے کی حامی بھری ہے تب جا کر احساس ہوا کہ یہ دورے کیوں ہوتے تھے اور حکومت چین کے ساتھ تعلقات کیوں مضبوط کرنا چاہتی تھی۔ خطے میں چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے بھارت پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی مات دینے کا خواہشمند ہے۔ فرانس کے ساتھ چھتیس رافیل طیاروں کی بھارتی ڈیل کی بھی یہی وجہ ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ طیاروں کے حصول کے بعد ترکی سے لے کر چین تک سبھی اس کے نشانے پر آ جائیں گے۔ جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور فرانس میں بنے یہ جہاز تین سے چار ہزار کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ان میں نہایت ہی طاقتور قسم کے ریڈار نصب ہیں اوریہ چھ میزائل ایک ساتھ فائر کرسکتے ہیں۔اہم ترین یہ کہ یہ جہاز زمین سے ساٹھ ہزار فٹ کی اونچائی سے دشمن کو ٹارگٹ کر سکتا ہے۔ انہی معاملات کی بنا پر چین کا جھکائو بھارت کے برعکس پاکستان کی طرف زیادہ ہے کیونکہ چین کو معلوم ہے کہ امریکہ خطے میں برتری دلانے کیلئے بھارت کو ہلہ شیری دے رہا ہے۔ امریکہ دراصل کانٹے سے کانٹا نکالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ وہ خود تو چین کی معیشت کو براہ راست کچوکے لگانے کی پوزیشن میں نہیں‘اسی لئے بھارت کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلا رہاہے۔ معاشی طور پر چین امریکہ سے زیادہ مستحکم نظر آتا ہے کہ اس وقت امریکہ کئی ٹریلین ڈالر کا چین کا مقروض ہے اور چین
سے ہزاروں اشیا بادل نخواستہ برآمد کرنے پر مجبور ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2015ء کے وسط تک امریکہ کی وفاقی حکومت، ریاستیں اور مقامی حکومتیں چین کی 18.5ٹریلین ڈالرز کی مقروض تھیں۔ یہ قرض بڑھ کر اب 21.6ٹریلین ڈالرز تک پہنچ چکا ہے ۔ امریکی حکومت کے ذمہ چینی قرض کی یہ دستاویزات خود امریکی محکمہ خزانہ اور فیڈرل ریزرو نے تیار کی تھیں۔امریکہ نے اپنے کل قرضوں کا ساڑھے چھ سے سات فیصد چین اور جاپان سے لیے ہیں۔ امریکی حکام جاپانی قرضوں سے اس قدر پریشان نہیں جتنا چین سے لیے گئے بھاری قرضے ان کے لیے سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں کیونکہ جاپان کی معیشت چین کی طرح تیزی سے ترقی نہیں کر رہی۔ امریکہ میں آپ کو ایک چھوٹا سا چین بھی ابھرتا نظر آئے گا۔ جس طرح افغانوں نے پاکستان میں تیزی سے کاروباری میدان میں قدم جمانے شروع کر دئیے ہیں‘ اسی طرح امریکہ میں چینی بستیاں آباد ہونے لگی ہیں۔ امریکہ کے دل نیویارک کے وسط میں لندن کے سکھوں کی آبادی والے سائوتھ ہال جیسے کئی علاقے ہیں جہاں ہر طرف چینی ہی چینی دکھائی دیتے ہیں۔امریکہ میں چینی باشندوں کی تعداد چالیس لاکھ کے قریب ہے ۔ایک امریکی رپورٹ کے مطابق پینسٹھ فیصد چینی امریکہ میں ذاتی گھر کے مالک ہیں۔ یہ تعداد امریکی شہریوں سے چودہ فیصد زیادہ ہے یعنی چینیوں کے پاس امریکہ میں اپنا گھر رکھنے کی استطاعت امریکیوں سے بڑھ چکی ہے۔ امریکہ میں چینی باشندے تعلیم‘ معیشت اور لائف سٹائل کے معاملے میں تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ چینی قوم دنیا میں جہاں جاتی ہے اپنا رنگ جما دیتی ہے۔ چین میں چینی اشرافیہ بھی نمو پا رہی ہے اور یہ عرب شہزادوں کے بعد لندن اور نیویارک کے مہنگے ترین سٹورز میں شاپنگ کرنے والی دوسری قوم بن چکی ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں
جو چین کی اہمیت پوری طرح نہیں سمجھ سکے۔ دو سال قبل دھرنے کی وجہ سے چینی صدر کے آنے کی تاخیر ہوئی تب بھی اپوزیشن کو معاملے کی نزاکت کا احساس نہ ہوا۔ آج جب بھارت خطے میں پاکستانی کی جنگی و سفارتی کامیابی کی وجہ سے حیران و پریشان ہے تو اس کی وجہ پاک چین تعلقات ہی ہیں جن کی وجہ سے بھارت کوئی بڑی جارحیت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ گزشتہ روز چین نے بھارت کا پانی بند کیا تو ہم خوشی سے چھلانگیں لگا رہے ہیں اور بھارت دیواروں سے ٹکریں مارنے پر مجبور ہے۔ چینی نیوز ایجنسی کے مطابق پانی کی بندش سے دریائے برہم پترا کے پانی میں چھتیس فیصد کمی ہو گی جس سے بھارت کی پانچ ریاستیں متاثر
ہوں گی۔ چین سے نکل کر برہم پترا دریا بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں ارونا چل پردیش اور آسام سے ہوتا ہوا بنگلہ دیش تک جاتا ہے۔بھارتی ماہرین کے مطابق یہ پاک بھارت کشیدگی میں سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی بھارتی کوششوں کے تناظر میں سفارتی اشارا ہے۔بھارت کو دوسری منہ کی اس وقت کھانا پڑی جب چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی میںمسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے سے متعلق بھارتی قرارداد پراپنے ویٹو میں چھ ماہ کی توسیع کر دی جس پر بھارتی رہنما جل بھن کر رہ گئے۔چینی وزیر خارجہ کے مطابق دہشت گردوں کی فہرست میں کسی کو شامل کرنے کا معاملہ بغیر شواہد کے نہیں ہونا چاہیے۔بھارت کو آگے چل کر مزید سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔سی پیک وہ دوسرا بڑ امنصوبہ ہے جو خطے میں پاکستان اور چین کو نہ صرف ایک دوسرے کے قریب تر کردے گا بلکہ خطے کی معاشی ترقی میں بھی اضافہ کرے گا۔ امریکہ ‘بھارت اور افغانستان نے ایک ٹرائیکا بنا رکھا ہے جس میں سے خطے کے اہم ترین ممالک چین او رپاکستان کو خارج کر دیا ہے۔ اس ٹرائیکا کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان دوری پیدا کرنا اور سی پیک جیسے منصوبوں میں رخنہ ڈالنا ہے۔اس ٹرائیکا کے اجلاس بھی امریکہ میں ہوتے ہیں۔ امریکہ بھارت اور افغانستان کے ذریعے سی پیک کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا۔ سی پیک منصوبے کا افتتاح وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے اکٹھے کیا تھا۔ اس وقت سے یہ دشمن قوتوں کو کانٹا بن کر چبھ رہا ہے۔ضرب عضب آپریشن بھی سی پیک کی تکمیل میں معاون بن رہا ہے۔ ان سب کامیابیوں کے بعد بھارت کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے بال نوچے یا پھر سرجیکل سٹرائیک جیسی بے بنیاد درفنطنیاں چھوڑے۔
سرحدی کشیدگی کے باوجود تحریک انصاف نے رائے ونڈ جلسہ کیا ۔ اب محرم کے بعد وہ اسلام آباد بند کرنا چاہتی ہے۔ اس کامطلب ہے کہ اسلام آباد یا ملک کو چلنے کے لئے ایک ماہ اور مل گیا ہے۔ جلسے میں عمران خان نے کہا کہ سرحدی کشیدگی کے باعث فوج کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے ورنہ یہیں بیٹھ جاتے۔سوال یہ ہے کہ ایک ماہ بعد بھی کشیدگی رہی تو کیا وہ اسلام آباد کا رخ کریں گے یا پھر کوئی نیا اعلان کریں گے۔جس انداز میں انہوں نے مخالفین کو پکارا‘ اب ان کی تحریک مولا جٹ قسم کی تحریک بنتی جا رہی ہے جس کے ہدایت کار شیخ رشید جیسے لوگ ہیںجنہوں نے اپنی تقریر کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا کہ عمران خان حکم دیںتو رائے ونڈ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ معلوم نہیں شیخ رشید کس مار پر ہیں لیکن عمران خان کو کیا ہوا ہے۔ ایک طرف کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت‘ آدھی زندگی مغرب میں تعلیم اور قیام‘ نمل یونیورسٹی اور شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر جیسی کامیابیاں اور پڑھی لکھی متاثر کن شخصیت کا امیج اور دوسری طرف ایک ایسے سیاستدان کی قربت جو جلا دو ‘ مار دو‘ آگ لگا دو کی پالیسی پر اسی طرح عمل پیرا ہے جیسے کہ بھارت میں شو سینا۔ کرکٹ ورلڈ کپ جیت کی وجہ صرف عمران خان کی کارکردگی نہیں تھی بلکہ پوری ٹیم نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا تھا۔ خان صاحب بھی یہی کہتے ہیں کہ کامیابی کے لئے مضبوط ٹیم کا ہونا ضرور ی ہے تو پھر جس ٹیم کا نائب کپتان شاہ محمود قریشی اور اوپننگ بیٹسمین شیخ رشیدجیسا کھلاڑی ہو‘ وہاں اکیلے کپتان کی ڈبل سنچری کسی کام آ سکے گی؟