جو جماعت احتجاج کی تاریخ کا اعلان کرتے وقت کیلنڈر تک دیکھنا گوارا نہیں کرتی‘ کیا اسے حکومت گرانے‘ ملک سے کرپشن ختم کرنے اور دارالحکومت بند کرنے جیسے خواب دیکھنے چاہئیں؟
تیس ستمبر کو رائے ونڈ میں پی ٹی آئی کا جلسہ تھا۔ اس بارے میں کئی ابہام پیدا ہوئے۔ پہلے کہا گیاکہ جاتی عمرا کا گھیرائو کریں گے‘ بعد میں بنی گالہ کے گھیرائو اور ن لیگ کی ڈنڈا فورس سامنے آئی تو یہ گھیرا ئو اڈا پلاٹ کے جلسے میں تبدیل ہو گیا۔ تیس ستمبر کو پاک بھارت کشیدگی اپنے عروج پر تھی‘ اس کے باوجود جلسہ کیا گیا۔ عمران خان نے کہا وہ آخر میں بہت بڑا اعلان کریں گے جومخالفین کی نیندیں اڑا دے گا۔ شیخ رشید کی ''مہذب‘‘گفتگو سے سبھی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ خان صاحب کس قسم کا اعلان کریں گے۔ آخر میںانہوں نے فرمایا ہم تیس اکتوبر کو اسلام آباد جائیں گے اور حکمرانوں کو حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ اس وقت سے اب تک تمام صحافی اور اینکرز ان سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ مسلم لیگ ن کو حکومت چلانے سے کس طرح روکیں گے اور وہ کیا حکمت عملی ہو گی کہ آپ جس میں کامیاب بھی ہو جائیں گے لیکن تحریک انصاف کے کسی ایک رہنما کے پاس بھی اس کا جواب نہ تھا۔ خود عمران خان اس بارے میں واضح نہیں تھے۔ کبھی کہا گیا ابھی یہ پلان بننا ہے اور کبھی کہا گیا کہ ساری باتیں ابھی نہیں بتائی جا سکتیں۔ سوال کیا گیا کیا آپ پارلیمنٹ‘ سرکاری اداروںاور سرکاری رہائش گاہوں کے آگے بیٹھ جائیں گے‘ کیا آپ مرکزی شاہراہیں بلاک کر دیں گے یا پھر سرکاری اداروں میں گھس کر بزور طاقت لوگوں کو کام کرنے سے روکیں گے تو اس کے جواب میں کہا گیا کہ یہ ہم ابھی نہیں بتا سکتے لیکن اتنا ہم جانتے ہیں کہ ہم حکومت نہیں چلنے دیں گے۔ پوچھا گیا اگر آپ یہ سب نہیں کریں گے تو پھر حکومت کے راستے میں رکاوٹ کیسے آئے گی؟ کیا آپ کے پاس کوئی جادو ٹونا یا سپرے ہے جسے چھڑک کرآپ حکومتی مشینری کو جام یا فیل کردیں گے؟
تحریک انصاف البتہ اس معاملے میں ایک قدم آگے کا سوچ رہی تھی اور اسلام آباد بند کرنے کا پلان جس نے بھی بنایا اور تاریخ جس نے بھی طے کی وہ بہت ہی بڑا افلاطون تھا اور اس کی پلاننگ کی داد دی جانی چاہیے۔ یہ بھی خبریں گردش میں ہیں کہ جس نے بھی اسلام آباد کی حکومت کو مفلوج کرنے کا منصوبہ بنایا‘ اس نے سوچا کہ کسی ایسے دن کا انتخاب کیا جائے جس دن حکومتی ادارے بند کرنا آسان ہو۔ تیس اکتوبر کو چونکہ اتوار کا دن تھا اور اتوار کے دن نہ صرف ہر قسم کے سرکاری ادارے بند ہوتے ہیں بلکہ نجی ادارے‘ نجی سکول بینک وغیرہ کی بھی چھٹی ہوتی ہے لہٰذا یہ دن اسلام آباد جانے اور منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آئیڈل قرار پایا۔ باقی رہ گئیں کھانے پینے کی دکانیں یا پھر ہسپتال تو انہیں بند کرانے کے لئے زیادہ تگ و دو نہ کرنا پڑتی۔ اس طرح پی ٹی آئی تیس اکتوبر کو نہ صرف حکومت کو چلنے سے روکنے میں کامیاب ہو جاتی بلکہ اسلام آباد کی زندگی کو بھی مفلوج کر دیتی۔ اسلام آباد میں ویسے ہی ہو کا عالم ہوتا ہے۔ سرشام لوگ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور آٹھ بجے کے بعد سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے لئے اسلام آباد میں حکومت کو مفلوج کرنے کا اتوار کی شام سے بہتر کوئی اور موقع نہیں تھا اور اسی لئے اتوار کا دن رکھا گیا۔ تاہم گزشتہ روز خبر آئی ہے کہ 30اکتوبر کے احتجاج کی
تاریخ میں تبدیلی پر غور کرنے کے لئے چیئر مین تحر یک انصاف عمران خان نے پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس 17اکتوبر کو طلب کر لیا ہے۔خبرکے مطابق تحر یک انصاف تیس اکتوبر کو اتوار کے روز چھٹی والے دن کی بجائے ورکنگ ڈے پر وفاقی دارالحکومت کو بند کر نا چاہتی ہے‘ اس لیے تاریخ میں تبدیلی پر غور کیا جا رہا ہے۔ایسا لگتا ہے تحریک انصاف میں کچھ لوگ اپنی ہی پارٹی کے خلاف ہیں اور احتجاج کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتے‘ اسی لئے وہ اتوار کی بجائے کسی ورکنگ ڈے کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے احتجاج نواز شریف حکومت کو مضبوط کرنے کا باعث کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں تحریک انصاف کو احتجاج کرنے کا سلیقہ نہیں آتا جس کی وجہ سے مخالفین کو اس کے نقصان کی بجائے فائدہ ہو جاتا ہے۔ خورشید شاہ شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کا مقصد حکومت کو مضبوط کرنا ہے تو پھر یہ کام وہ احتجاج کے بغیر بھی کر سکتے ہیں جیسے کہ پیپلزپارٹی ایک عرصے سے یہ خدمت انجام دیتی چلی آ رہی ہے۔
اسلام آباد بند کرنے کیلئے چھٹی کے روز کا انتخاب تحریک انصاف کی پلاننگ اور انتظامی امور کا کچا چٹھا کھولنے کے لئے کافی ہے۔ تیس ستمبر کو جب عمران خان نے تیس اکتوبر کی تاریخ دی تو یہ فیصلہ یقینا انہوں نے کئی ہفتے یا کئی دن پہلے کیا ہو گا۔ پوری دنیا میں جب بھی کوئی چھوٹا موٹا فنکشن رکھا جاتا ہے‘ کسی سکول کالج کی تقریب ہوتی ہے‘ کوئی سرکاری یا نجی میٹنگ ہوتی ہے ‘ شادی بیاہ کا فنکشن ہوتا ہے حتیٰ کہ معمولی سا بھی کوئی پروگرام ہوتا ہے تو سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ فلاں تاریخ کو دن کون سا ہے۔ جمعہ ہفتہ اتوار عموماً شادیوں کے لئے مختص کئے جاتے ہیں کہ اس روز سکولوں اور نجی و سرکاری اداروں میں چھٹی ہوتی ہے۔ جب عام زندگی میں لوگ اس قدر احتیاط برتتے ہیں تو پھر عمران خان اور ان کی ٹیم نے احتجاج کی تاریخ کا انتخاب کرتے وقت کیلنڈر دیکھنے کی زحمت گوارا کیوں نہ کی‘ یہ تو وہی بتا سکتے ہیں لیکن اس سے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت ہو گیا کہ تحریک انصاف میں بڑے انتظامی خلا موجود ہیں اور اس کے فیصلے کورکمیٹی کی بجائے کسی فرد واحد کے ہاتھ میں ہیں‘ جس سے کسی کو اختلاف کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ جو اختلاف کرتا ہے وہ جاوید ہاشمی اور جسٹس وجیہ الدین کی طرح نکال باہر کیا جاتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس قسم کے عجلت اور انتشار پسند فیصلوں میں
شیخ رشید کا بہت ہاتھ ہے ۔ خود عمران خان صاحب کی طبیعت کافی جلالی ہے ۔ شیخ رشید صاحب کی طرح ان کا بھی زندگی کا کوئی شریک سفر نہیں۔ چنانچہ دو دوستوں کی یہ دوستی پارٹی کے لئے بہت مہنگی پڑ رہی ہے اور یہ قربت بہت سے پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں کو چبھ بھی رہی ہے کیونکہ عمران خان شیخ رشید سے مشورہ کر نے کے بعد بعض اوقات پارٹی کو آگاہ کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے پارٹی کو کئی مرتبہ ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ شیخ رشید کو پارلیمنٹ میں نہ بلانے پر خان صاحب نے جس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا وہ بھی بچگانہ تھا۔ مخدوم جاوید ہاشمی بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت میچور نہیں ہے،پی ٹی آئی میں موجود لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اورپاکستان تحریک انصاف اندر سے ٹوٹتی جا رہی ہے۔ اندر کا حال تو خدا جانتا ہے لیکن بظاہر صورت حال یہی نظر آ رہی ہے کہ تحریک انصاف اپنے کئے پر پانی پھیرنے کیلئے بے تاب ہے۔ اس نے پختونخوا میں کوئی کامیابیاں اگر حاصل کی ہیں تو وہ انہیں مٹانے کے درپے ہے۔کوشش اس کی یہ ہے کہ وہ حکومت کو کسی نہ کسی طریقے سے ہٹا دے چاہے اس کیلئے جمہوریت کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے‘ اگر کوئی تیسری طاقت انتشار اور خون خرابہ روکنے کے لئے اقتدار میں آ جاتی ہے تو سوال پھر وہی ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے حصے میں کیا آئے گا؟ وہی احتجاج اور سڑکوں کی وہی سیاست؟ کیا اس سے بہترنہیں کہ کسی معرکے کو سرانجام دینے سے پہلے اس کی بھرپور تیاری کر لی جائے... اور کچھ نہیں تو کم از کم کیلنڈر ہی دیکھ لیا جائے!