"ACH" (space) message & send to 7575

عمران خان کامیابی کے قریب؟

حکمران خاندان تین اطراف سے پھنس چکا ہے۔ ایک تو پاناما کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس کا فیصلہ تاخیر کا شکار ہو۔ یہ جلد بھی آ سکتا ہے اور حکمرانوں کے خلاف بھی۔ دوسرے نمبر پر متنازعہ خبر کا معاملہ ہے اور تیسرے نمبر پر تحریک انصاف ہے جو سڑکوں کے ذریعے دبائو بڑھانے میں مصروف ہے۔ درحقیقت عمران خان کے چار سوالوں کے جواب دینے میں پانچ منٹ درکار ہیں۔ اگر لندن فلیٹس جائز کمائی سے خریدے گئے اور یہ پیسہ قانونی طریقے سے اور ٹیکس دے کر باہر بھیجا گیا تو پھر حکمران پانچ منٹ میںجواب دے کر خود کو کلیئر کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر انہوں نے یہ فلیٹ ناجائز کمائی سے خریدے تو پھر یہ سچ بول کر وہ پھنس جائیں گے اور ان کے پاس اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں بچے گا۔ پھر وہ لندن یا جدہ کی طرف بھاگیں گے۔ صرف ٹی وی کی کلپنگ کو جوڑ کر دیکھا جائے تو سارا جھوٹ واضح ہو جاتا ہے۔فی الوقت یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے ‘ اسی طرح متنازعہ خبر پر بھی تحقیقات جاری ہیں اس لئے ہم تحریک انصاف کے احتجاج پر آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان لاہور سے ایک جلوس کی شکل میں اسلام آباد جاتے تو ان کی کامیابی یقینی ہوتی۔ اس طرح راستے میں لوگ جوق در جوق قافلے میں شامل ہو جاتے اور قافلہ بڑھتا جاتا۔ خان صاحب نے اس مرتبہ معاملے کو بہت ایزی لیا۔ لاک ڈائون کا اعلان بہت پہلے کرنا ان کی پہلی غلطی تھی‘ اسی کو جواز بنا کر حکومت پی ٹی آئی کے مظاہرین پر سختی بھی کر رہی ہے اور سڑکیں بھی بند کر چکی ہے۔ اسلام آباد کے لوگ بہت زیادہ پریشان ہیں۔ صرف بنی گالہ میں ہی کھانے پینے کی اشیا کی قلت نہیں ہو چکی بلکہ پورے اسلام آباد میں اشیائے 
خوردنی کا بحران بڑھ رہا ہے۔موٹروے ‘جی ٹی روڈ اور مرکزی شاہرائیں بند ہونے کی وجہ سے منڈیوں سے سبزیوں وغیرہ کی سپلائی کم ہو چکی ہے۔ مارکیٹوں میں جو کچھ موجود ہے وہ آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔یہ تین دن تو ایک طرح سے چھٹی کے تھے۔ آج جب پہلا ورکنگ ڈے شروع ہو گا‘تعلیمی اداروں‘ سرکاری و نجی اداروں کی طرف لوگ جائیں گے تو جگہ جگہ کنٹینر دیکھ کر سخت تنگی کا شکار ہوں گے۔ تعلیمی اداروں میں تو حاضری بہت کم رہے گی اور والدین بچوں کو خود ہی چھٹی کرادیں گے۔تاہم وہ لوگ جو انتہائی ضروری کام سے نکلیں گے‘ جو ہزاروں مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں ان کے لواحقین حکومت کو یقینا بددعائیں دیں گے۔ اس کا نقصان حکومت کو ہی ہو گا اور اسے کنٹینر ہٹانا پڑیں گے۔ موٹر وے پر جو راستے بند ہونے پر فوجی شہید ہوا اس کا مقدمہ بھی حکومت کے خلاف درج ہونا چاہیے۔عمران خان کا لاک ڈائون کا مطلب کچھ اور تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر دس لاکھ لوگ شہر میں آ گئے تو رش کی وجہ سے خود ہی لاک ڈائون کی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ اس کے باوجود انہوں نے واضح کیا تھا کہ وہ عدالتوں کے ججوں‘ سفارت خانوں اور ایمبولینسوں کو خود راستہ دیں گے۔ حکومت میں تھوڑی سی فہم ہوتی تو وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کرتی اور ان سے لکھوا لیتی کہ وہ اس حد سے آگے نہیں جائیں گے اور اگر گئے تو پھر کسی نقصان کی ذمہ دار پی ٹی آئی ہو گی۔ تاہم شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے حکمرانوں کو یہی مشورہ دیا کہ مر جائو یا 
مار دو کی صورتحال پیدا کر دو اور پی ٹی آئی والوں کو اتنا دیوار سے لگا دو کہ وہ خوف کے مارے گھروں میں دبک جائیں۔ اتنی زیادہ گرفتاریاں کرو کہ لوگ چار دن پہلے ہی خوفزدہ ہو جائیں۔ تاہم اس کا ری ایکشن خود حکومت کے خلاف آنے لگا ہے۔ حکومت اگر سمجھ رہی ہے کہ اس نے ان دو تین دنوں میں پی ٹی آئی مظاہرین کی گرفتاریاں کر کے بڑی کامیابی حاصل کی ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔جیسے جیسے وقت گزرے گا‘ حکومت پر کئی سمت سے دبائو آئے گا۔ ممکن ہے اسلام آباد ہائیکورٹ از خود نوٹس لے کر حکومت کو باور کرائے کہ وہ رکاوٹیں رکھ کر نہ صرف عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے بلکہ بیس لاکھ شہریوں کی زندگی میں بھی عذاب کا باعث بن چکی ہے۔ عمران خان کو البتہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوں گے کیونکہ یہ ان کی سیاست کا بھی کڑا امتحان ہے۔ فی الوقت ان کی سب سے بڑی ضرورت وہ لاکھوں عوام ہیں جن کے بل بوتے پر انہوں نے اسلام آباد لاک ڈائون کرنا ہے۔ آج خیبرپختونخوا سے بڑی تعداد میں قافلے آئیں گے۔ پنجاب سے جو مظاہرین آنے کی کوشش کرتے ہیں پولیس انہیں ساتھ ہی ساتھ گرفتار کر رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ کرپشن اگراس ملک کی دیگر جماعتوں کے سامنے بھی اہم مسئلہ ہے تو پھر وہ عمران خان کے ساتھ کیوں اکٹھی نہیں ہوتیں۔ جماعت اسلامی بھی کرپشن کے خلاف مارچ کی بات کرتی ہے لیکن وہ اتحادی ہونے کے باوجود اپنا احتجاج الگ سے کر رہی ہے۔ عوامی تحریک کے چودہ لوگ شہید ہوئے‘ ان کیلئے یہ بہترین موقع تھا کہ وہ اسلام آباد جاتے اور حکمرانوں سے انصاف اور حساب طلب کرتے۔ طاہرالقادری کی غیرسنجیدگی اور پراسرار طبیعت کی وجہ سے یہ بیل بھی منڈے نہ چڑھی۔ پیپلزپارٹی وزیراعظم نواز شریف پر دبائو تو ڈال سکتی ہے لیکن ان کو سزا دلانے تک نہیں جائے گی۔ اس کی وجہ خود اس جماعت کے اندر کرپشن کا وہ سمندر ہے جو اسے اس کام سے روکے ہوئے ہے۔ تحریک انصاف میں بھی کرپٹ لوگ ہوں گے لیکن وہ علی الاعلان کہتے ہیں کہ اگر کوئی کرپٹ ہے تو اسے پکڑیں کہ حکومت کے پاس ادارے بھی ہیں اور اختیار بھی۔ اس کے برعکس حکومت صرف الزام کی سیاست کر رہی ہے۔ وہ اگلے الیکشن تک ہر صورت میں حکومت کرنا چاہتی ہے۔ اسے معلوم ہے آئندہ الیکشن میں وہ سرکاری مشینری‘ پٹواری کلچر اور سیاسی دائو پیچ کے ذریعے دوبارہ کثیر ووٹ لے کر منتخب ہو جائے گی اور یہ کرپٹ اور غلامانہ نظام اس کا احتساب نہیں کر سکے گا۔ 
اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ عوام نے پانچ سال کیلئے حکومت کو منتخب کیا ہے اس لئے کوئی اس سے کرپشن کا حساب نہ مانگے۔ اس طرح تو ہر چور اُچکاسوسو قتل کر کے منتخب ہو جائے اور اگر اس سے انصاف مانگا جائے تو وہ کہہ دے کہ پانچ سال مجھ سے کوئی حساب نہ مانگو کہ مجھے عوام نے منتخب کیا ہے۔ عمران خان سیاسی دائو پیچ سے ناواقف ہو سکتے ہیں لیکن کم از کم کرپٹ نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو حکومت اب تک ان کے خلاف ثبوت سامنے لے آتی۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ٹیم انتہائی کمزور ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ٹیم میں بعض لوگ ڈبل رول ادا کر رہے ہیں۔اس طرف بارہا توجہ دلائی گئی لیکن نہ جانے خان صاحب توجہ کیوں نہیں دے رہے۔ چودھری سرور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ان کے ساتھ آئے لیکن انہیں بھی خان صاحب کے قریب نہیں ہونے دیا گیا۔ اب نبیل گبول تحریک انصاف میں آ چکے ہیں۔اگر جماعت اسلامی‘ عوامی تحریک جیسی جماعتیں بھی ساتھ آن ملیں‘ پورے ملک سے وکلا اسی طرح اس تحریک میں شامل ہوں جیسے عدلیہ کی آزادی کے وقت ہوئے تھے تو پھر یہ تحریک گھنٹوں میں کامیاب ہو جائے گی۔عمران خان کا اصول مختلف اور حقیقت پر مبنی ہے۔ کل بلاول نے طنز کیا کہ عمران خان تنہا رہ گئے۔ تاہم روزِ قیامت عمران خان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم کامیاب کیوں نہیں ہوئے یا فلاں نے تمہارے ساتھ مل کر جدوجہد کیوں نہیں کی؟ بلکہ اس روز یہ دیکھا جائے گا کہ کس نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ظلم کے خلاف کس قدر آواز اٹھائی۔ خان صاحب کے جاںنثار ان کے ساتھ ڈٹے نظر آتے ہیں۔ حیرت ہے کہ جنہیں برگر کلاس کہا جاتا تھا وہ ماریں کھانے‘ جیلوں میں جانے اور آنسو گیس کے باوجود پُرعزم ہیں۔اگر آج اور کل بھی وہ اسی جذبے کے ساتھ نکلے ‘خان صاحب نے اپنی ٹیم کو ڈبل شاہوں سے پاک کر لیا اور وہ اپنی حکمت عملی میں بہتری لے آئے تو یہ رکاوٹیں اور یہ کنٹینر خودبخود ہٹتے چلے جائیں گے‘ یہ تحریک کامیاب ہو جائے گی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں