کچھ لوگ زندگی کے اُفق پر سورج کی طرح نمودار ہوتے ہیں اور موت کیلئے مقررہ وقت تک زمینوں کو منور کرتے ہیں۔ لیکن سورج آسمان کا ہو یا زمین کا،ڈوبنا ہر ایک کا طے شدہ مقدر ہے۔ کل اسلم کولسری بھی غروب ہو گئے۔
بہت سے لوگوں کے نزدیک شاید اسلم کولسری بہت بڑے شاعر نہ ہوں اس لئے کہ موجودہ زمانے میں بڑی شخصیت وہی ہے جو بہت زیادہ معروف ہو‘ جو ٹی وی چینلوں اور مشاعروں کی جان ہو اور جو بلندی پر پہنچنے کیلئے بوٹ پالش کرنے سے بھی نہ ہچکچاتی ہو۔ اسلم صاحب ان باتوں سے مبرا تھے۔ وہ انتہائی صاف گو‘ سادے اور سیدھے انسان تھے‘ ان کے لئے یہی اعزاز کافی ہے۔ شاعری سے مجھے بہت زیادہ دلچسپی نہیں تھی لیکن اسلم کولسری صاحب سے چار سالہ رفاقت میں یہ دلچسپی بھی پیدا ہو گئی۔ جس رات میری والدہ کی وفات ہوئی ‘ اسی صبح میرے بیٹے نے سکول میں مائوں کے عالمی دن کے حوالے سے جو نظم پڑھی اس کے آخری تین بند اسلم کولسری نے لکھے تھے:
اُلجھے اُلجھے ہیں جیون کے سب راستے
اَن گنت مشکلیں ہیں مرے واسطے
مجھ کو تجھ سا ہی بس رہنما چاہیے
پیاری ماں مجھ کو تیری دُعا چاہیے
تیرے دم سے مری جان میں جان ہے
تیری چاہت مرا دین و ایمان ہے
مجھ کو بس اِک تیرا آسرا چاہیے
پیاری ماں مجھ کو تیری دُعا چاہیے
میرے چاروں طرف روشنی تجھ سے ہے
اور میرے جسم میں زندگی تجھ سے ہے
روشنی‘ زندگی یہ سدا چاہیے
پیاری ماں مجھ کو تیری دُعا چاہیے
آباد نگر کا اجڑا شاعر کے عنوان سے چودھری لیاقت علی نے کیا خوب لکھا :اسلم کولسری صاحب نے مختصر اور طویل دونوں بحروں میں اچھوتی اور عمدہ غزلیں تخلیق کی ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی کے تجربات ان کی شاعری پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک عام آدمی جن مصائب کا سامنا کرتا ہے اور معاش کیلئے جن خارزار راستوں پر گزرتا ہے ، جن مصائب کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے وہ تمام کے تمام اپنی تلخ حقیقتوں سمیت ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری کی مثال ایسے دی جا سکتی ہے جیسے بانسریا کی مدھر آواز میں کسی ڈار سے بچھڑی کونج کی آہ شامل ہو جائے ۔ جیسے گھائل ہو کر گرنے والا پرندہ گرتے گرتے نظر اٹھا کر آسمان کو دیکھتا ہویا جیسے کسی حساس دل پر کوئی ناگہانی آفت بیت جائے ۔ ان کی شاعری میں گاؤں کی فطری سادگی اور پھر اس سادگی کے خاتمے کا دکھ، مشینوں کا راج، ہجرت کرنے کا دکھ، اپنی مٹی سے بچھڑ جانے کا دکھ، اپنا آپ بھلا دینے کا غم، معاشی نا ہمواری کا نوحہ سب اپنی پوری شدت کے ساتھ اثر انداز ہیں۔
ان کی اس غزل نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑے:
جب میں اس کے گاؤں سے باہر نکلا تھا
ہر رستے نے میرا رستہ روکا تھا
مجھ کو یاد ہے جب اس گھر میں آگ لگی
اوپر سے بادل کا ٹکڑا گزرا تھا
شام ہوئی اور سورج نے اک ہچکی لی
بس پھر کیا تھا کوسوں تک سناٹا تھا
میں نے اپنے سارے آنسو بخش دیے
بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا
شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
رات کی نصف شب میں جب کبھی پریشانی محسوس کرتا‘ اسلم صاحب کو فون کر لیتا۔ ان کے دو جملے ہی طبیعت بحال کر دیتے۔وہ زندگی میں جس جس سے ملے‘ سبھی نے انہیں انتہائی بااخلاق اور خوش مزاج پایا۔ ان کے چہرے پر ہر ایک کے لئے خوش آمدید کے تاثرات لکھے ہوتے۔ قطع نظر اس کے کہ ان کی اپنی طبیعت کیسی ہے‘ وہ اسے ظاہر کئے بغیر انتہائی گرم جوشی سے بلاتے کہ ملنے والے کی طبیعت خود ہی ہشاش بشاش ہو جاتی۔
مسکراتا ہوں عادتا اسلمؔ
کون سمجھے مرا غمیں رہنا
مشہور مصنفہ بانو قدسیہ ان کے لئے رقم طراز ہیں:
''اسلم کولسری لوگوں سے کٹا ہوا، ہاتھ ملتا ، بجھا ہوا روہانسا شاعر ہے ۔ وہ دو قدم آگے چل کر میلوں پیچھے بھاگ جانے والا‘تعریف اور شہرت کا آرزو مند ہو کر بھی گم نامی کے سہارے جینے کا خواب دیکھتا ہے ۔ عید کے روز دروازہ مقفل کر کے سوجانے والا اسلم کولسری دراصل اندر ایک آوارہ تنکے کی صورت عمر گزار رہا ہے ۔ اسلم کولسری محنت مزدوری، شکاری خواب،محبت ، صبر، دعا سب مرحلوں سے گزر چکا ہے ۔ اور ان ساری کڑی دھوپ سی کیفیتوں کے سائے اس کی شاعری پر پڑے ہیں‘‘۔
اسلم کولسری اوکاڑہ کے نواحی گاؤںکے رہنے والے تھے۔ انہوں نے اردو اور پنجابی دو نوں زبانوں میں شاعری کی ۔ اب تک ان کی شاعری کے دس مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ندرت خیال، منفرد استعارے ، سادگی و سلاست یہ وہ خیالات ہیں جو ذہن میں کولسری کی شاعری پڑھنے کے فوراً بعد آتے ہیں۔
ہماری جیت ہوئی ہے کہ دونوں ہارے ہیں
بچھڑ کے ہم نے کئی رات دن گزارے ہیں
ہنوز سینے کی چھوٹی سی قبر خالی ہے
اگرچہ اس میں جنازے کئی اتارے ہیں
وہ کوئلے سے مرا نام لکھ چکا تو اسے
سنا ہے دیکھنے والوں نے پھول مارے ہیں
یہ کس بلا کی زباں آسماں کو چاٹ گئی
کہ چاند ہے نہ کہیں کہکشاں نہ تارے ہیں
مجھے بھی خود سے عداوت ہوئی تو ظاہر ہے
کہ اپنے دوست مجھے زندگی سے پیارے ہیں
نہیں کہ عرصئہ گرداب ہی غنیمت تھا
مگر یقیں تو دلاؤ یہی کنارے ہیں
غلط کہ کوئی شریک سفر نہیں اسلمؔ
سلگتے عکس ہیں جلتے ہوئے اشارے ہیں
آدمی چلے جاتے ہیں، کہانیاں رہ جاتی ہیں۔ ایک کہانی اسلم کولسری صاحب تھے۔ اپنے دور کے بہت بڑے شاعر اور اپنے وقت کے ایسے انسان جو زمین پر چلتے ہوئے مٹی اور ہوا کو بھی یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ ان کیلئے کوئی چیلنج ہیں۔
ان کے اشعار صرف اشعار نہیں بلکہ ایک تصویر بن جاتے ہیں:
دیدہ بے خواب کے بھیگے ہوئے اصرار پر
میں ترے لہجے کی سختی بھی گوارا کر گیا
.........
تتلیوں کی جستجو میں گھر سے نکلا تھا مگر
جھاڑیوں میں اڑ رہی تھیں سنسناتی گولیاں
.........
رستے زخموں سے ڈھانپ رکھا ہے
جسم بارِ قبا نہیں سہتا
.........
تیرے نام کی خوشبو شامل کر لیتا ہوں
خالی سانس تو سینے میں کنکر لگتا ہے
.........
شرافت؟ میں نہیں سمجھا
پرانی بات ہے شاید
.........
تارا سا بکھرتا ہے آکاش سے یا کوئی
ٹھہرے ہوئے آنسو کو کرتا ہے اشارہ سا
منصوبہ سفر ہی بڑا جاں گداز تھا
بیٹھے بٹھائے تھک کے ہوئے چوُرچوُر ہم
.........
حسرتوں کی اداس بستی میں
مستعد مسئلوں کا پہرا ہے
.........
ہاں اسی رستے پہ ہے شہر نگار آرزو
آپ چلتے جائیے میرے لہو کی دھار پر
.........
لاش کے پہلو سے چوری ہو گئے
ایک ٹوٹی سائیکل خالی ٹفن
آخری دنوں میں وہ چپ چپ رہنے لگے تھے۔ کیوں؟ کسی کو معلوم نہ تھا کون سا غم انہیں کھائے جا رہا تھا۔ کیا شاندار انسان تھے کہ ہمیں اپنا غم کبھی معلوم ہی نہ ہونے دیا اور دوسروں کے غموں‘ پریشانیوں کو مسکراہٹ اور قہقہوںمیں بدلتے رہے۔سمجھ نہیں آتی کہ اب رات کی نصف شب آنکھوں میں آنسو آئے تو دل کو بہلانے کے لئے کس کو فون کروں گا۔
گزشتہ برس آٹھ مئی کی کڑی دوپہر تھی۔ وہ میرے گلے لگ کر مجھے دلاسا دے رہے تھے۔ ہمارے سامنے ایک چارپائی رکھی تھی۔ چارپائی پر کفن میں لپٹی میری جنت‘ میری والدہ ابدی نیند سو رہی تھیں۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ وہ مجھے حوصلہ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ بولے:اپنے بچوں کو دیکھو‘ ان کی آنکھوں میں جھانک کر غور کرو‘ تمہیں تمہاری والدہ کی پرچھائی نظر آئے گی۔ وہ تمہارے لئے جی رہی تھیں‘ تم نے بچوں کے لئے جینا ہے۔اب یہی دلاسا مجھے ان کے تین بچوں کو دینا ہے جو ابھی تعلیم کا مرحلہ ہی مکمل نہیں کر پائے تھے کہ باپ کا سایہ اٹھ گیا۔ وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزاررہے تھے لیکن آخری وقت تک ہاتھ پھیلائے نہ مدد کی درخواست کی۔ ان کے بچے کیسے زندگی کے طوفان کا مقابلہ کریں گے‘ کچھ معلوم نہیں۔
بچھڑ گئے ہو تو اے دوست لوحِ دل سے مجھے
کچھ اس طرح سے مٹانا کمال کر دینا